چھٹا عالمی کپ 1996ء میں ایک مرتبہ پھر ایشیا میں کھیلا گیا، لیکن یہ پہلا موقع تھا جب عالمی کپ کی میزبانی 3 ممالک ایک ساتھ کررہے تھے، یعنی پاکستان، بھارت اور سری لنکا۔
اس عالمی کپ میں سری لنکن ٹیم بحیثیت سرپرائز پیکج سامنے آئی۔ ان کے اوپنرز سنتھ جے سوریا اور کالو وتھرانا نے پہلے 15 اوورز میں موجود فیلڈنگ کی پابندیوں کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور تقریباََ ہر میچ میں ہی اپنی ٹیم کو تیز رفتار آغاز فراہم کیا۔ پھر اچھا آغاز ملنے کے بعد مڈل آرڈر نے بھی اپنی ذمہ داری کو زبردست طریقے سے نبھایا اور یوں سری لنکا پہلی مرتبہ عالمی چیمپئن بننے میں کامیاب ہوگیا۔
1996ء - (سری لنکا بمقابلہ بھارت)
اس ورلڈ کپ کا اہم ترین میچ میری نظر میں سری لنکا اور میزبان بھارت کے درمیان ایڈن گارڈنز کولکتہ (کلکتہ) میں کھیلا جانے والا سیمی فائنل تھا۔ اس میچ کو دیکھنے کے لیے میدان میں تقریباََ ایک لاکھ سے زائد تماشائی موجود تھے۔ اس ورلڈ کپ میں ایڈن گارڈن کا میدان اب تک 4 میچوں کی میزبانی کرچکا تھا اور 4 میں سے 3 میں پہلے بیٹنگ کرنے والی ٹیم نے کامیابی حاصل کی تھی لیکن چونکہ سری لنکن ٹیم ہدف کا تعاقب کرنے کی بہتر صلاحیت رکھتی تھی، لہٰذا اس میچ میں بھارتی کپتان اظہر الدین نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرنے کے بجائے فیلڈنگ کا فیصلہ کیا۔
سری لنکا کا آغاز نہایت مایوس کن رہا، کیونکہ اس کے ابتدائی 3 کھلاڑی صرف 35 رنز پر آوٹ ہوگئے تھے۔ لیکن صورتحال سے گھبرانے کے بجائے ارونڈا ڈی سلوا، روشن ماہنامہ اور ارجنا کپتان رانا ٹنگا نے ذمہ داری سے کھیلتے ہوئے اپنی ٹیم کی پوزیشن مستحکم کی اور سری لنکا نے مقررہ 50 اوورز میں 8 وکٹوں کے نقصان پر 251 رنز بنائے۔
اس ہدف کے تعاقب میں بھارت نے ابتدائی وکٹ جلد گر جانے کے باوجود پُراعتماد آغاز کیا۔ سچن ٹنڈولکر، جنہوں نے سری لنکا کے خلاف دہلی میں کھیلے گئے راؤنڈ میچ میں شاندار سنچری اسکور کی تھی وہ ایک مرتبہ پھر سری لنکا کے باؤلرز کے لیے دردِ سر بنے ہوئے تھے۔ بھارت کا اسکور ایک وکٹ کے نقصان پر 98 رنز ہوچکا تھا اور ایسا لگ رہا تھا کہ بھارت یہ میچ آرام سے جیت جائے گا۔ لیکن 65 رنز پر سچن جے سوریا کی گیند پر کالو وتھرانا کے ہاتھوں اسٹمپ آؤٹ ہوگئے۔ ان کے آوٹ ہوتے ہی بھارتی بیٹنگ لائن ریت کی دیوار ثابت ہوئی اور صرف 120رنز کے اسکور پر ان کے 8 کھلاڑی آوٹ ہوگئے۔
جب بھارتی ٹیم کی شکست یقینی نظر آنے لگی تو ایڈن گارڈنز میں موجود تماشائیوں نے سری لنکن کھلاڑیوں پر پتھراؤ شروع کردیا اور اسٹینڈز میں بھی آگ لگانا شروع کردی۔ تماشائیوں کے بپھرے ہوئے تیور دیکھ کر منتظمین نے میچ ختم کرتے ہوئے سری لنکا کو فاتح قرار دے دیا۔
تماشائیوں کا یہ منفی رویہ ایڈن گارڈن اور کرکٹ کے عالمی کپ کی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ سری لنکا نے سیمی فائنل میں کامیابی حاصل کرکے لاہور میں کھیلے جانے والے فائنل میں جگہ بنائی اور فائنل میں آسٹریلیا کو شکست دے کر پہلی مرتبہ عالمی کپ جیتنے کا اعزاز حاصل کرلیا۔ یہاں اہم بات یہ کہ سری لنکا عالمی کپ کی تاریخ میں پہلی ٹیم بن گئی تھی جس نے ہدف کا تعاقب کرکے عالمی کپ جیتا۔
1999ء - (آسٹریلیا بمقابلہ جنوبی افریقہ)
چھٹا عالمی کپ 1999ء میں انگلینڈ کی سرزمین پر کھیلا گیا۔ اس عالمی کپ میں کئی زبردست مقابلے دیکھنے کو ملے لیکن اس ٹورنامنٹ کا سب سے دلچسپ مقابلہ دوسرا سیمی فائنل تھا جو 17 جون 1999ء کو جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا کے مابین برمنگھم کے میدان پر کھیلا گیا۔
اس میچ میں جنوبی افریقہ کے کپتان نے ٹاس جیت کر پہلے آسٹریلیا کو کھیلنے کی دعوت دی، جنہوں نے 49.2 اوورز میں 213 رنز بنائے۔ آسٹریلیا کو اس اسکور تک پہنچانے میں کپتان اسٹیو وا اور مائیکل بیون کی 90 رنز کی شراکت نے اہم کردار ادا کیا۔
ہدف کے تعاقب میں جنوبی افریقہ کے کھلاڑی شین وارن کی گھومتی ہوئی گیندوں کے سامنے بے بس دکھائی دیے اور ایک موقع پر جنوبی افریقہ کے 4 کھلاڑی صرف 61 رنز کے اسکور پر پویلین لوٹ گئے تھے۔ لیکن پھر جاک کیلس اور جونٹی رہوڈز نے اپنی ٹیم کو سنبھالا دیا 84 رنز کی شراکت داری قائم کی۔
لیکن ایک مرتبہ پھر شین وارن متحرک ہوئے اور پہلے جونٹی رہوڈز کو آؤٹ کیا اور پھر جب ٹیم کا اسکور 175 تک پہنچا تو 53 رنز بنانے والے سیٹ بیٹسمین کیلس کو بھی آؤٹ کرکے آسٹریلیا کی جیت کی امیدوں کو پھر سے روشن کردیا۔
اگرچہ وکٹ پر ابھی لانس کلوزنر موجود تھے جنہوں نے اس ٹورنامنٹ میں اپنی بیٹنگ سے ٹیم کو متعدد میچز جتوائے تھے لیکن ان کا ساتھ دینے کے لیے کوئی تیار نہیں تھا اور دوسری طرف مستقل وکٹیں گرتی جارہی تھیں۔
جنوبی افریقہ کی اننگز کے 49 اوورز مکمل ہوچکے تھے اور انہوں نے 9 وکٹوں کے نقصان پر 205 رنز بنا لیےتھے۔ آخری اوور میں ان کو جیت کے لیے صرف 9 رنز درکار تھے۔ آسٹریلیا کی جانب سے ڈیمین فلیمنگ یہ اوور کر رہے تھے۔ اس اوور کی پہلی دونوں گیندوں کو کلوزنر نے باؤنڈری سے باہر پھینک دیا یوں دونوں ٹیموں کا اسکور برابر ہوچکا تھا اور جنوبی افریقہ کو اب 4 گیندوں پر میچ جیتنے کے لیے صرف ایک، جی بالکل، صرف ایک رن درکار تھا۔
تیسری گیند پر کوئی رن نہیں بنا لیکن چوتھی گیند پر ایلن ڈونلڈ اور کلوزنر کے درمیان غلط فہمی ہوئی جس کی وجہ سے ڈونلڈ رن آؤٹ ہوگئے اور یوں یہ میچ ٹائی ہوگیا۔ میچ کا ٹائی ہوجانا آسٹریلیا کے لیے جیت کا اعلان تھا کیونکہ 4 روز پہلے سپر سکس مرحلے میں کھیلے گئے اہم میچ میں آسٹریلیا نے ایک اعصاب شکن مقابلے کے بعد جنوبی افریقہ کو شکست دی تھی اور ٹورنامنٹ کے قوانین کے مطابق سیمی فائنل یا فائنل ٹائی ہونے کی صورت میں گروپ یا سپر سکس مرحلے میں جیتنے والی ٹیم کو فاتح قرار دیا جائے گا۔
لیڈز کے سپر سکس میچ میں جنوبی افریقہ کے فیلڈر ہرشل گبز نے اسٹیو وا کا ایک اہم کیچ گرا دیا تھا، اور کرکٹ ناقدین اس بات پر متفق ہیں کہ اس روز گبز نے ایک کیچ ہی نہیں بلکہ عالمی کپ کی ٹرافی گرا دی تھی۔ آسٹریلیا کے خلاف اس سیمی فائنل میں شکست کے بعد جنوبی افریقہ کی ٹیم کو کرکٹ کے ماہرین نے ’چوکرز‘ کا خطاب بھی دے ڈالا۔
2003ء - (بھارت بمقابلہ پاکستان)
آٹھواں عالمی کپ 2003ء میں جنوبی افریقہ میں کھیلا گیا۔ کرکٹ کی تاریخ کا یہ واحد ورلڈ کپ تھا جب ایک ایسوسی ایٹ ٹیم کینیا عالمی کپ کے سیمی فائنل میں جگہ بنانے میں کامیاب رہی۔
اس عالمی کپ کے ایک اہم میچ میں روایتی حریف پاکستان اور بھارت سنچورین کے مقام پر آمنے سامنے آئے۔ اس میچ میں پاکستان کے کپتان وقار یونس نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا اور پاکستان نے سعید انور کی سنچری کی بدولت مقررہ 50 اوورز میں 7 وکٹوں کے نقصان پر 273 رنز بنائے۔
پاکستان کی مضبوط باؤلنگ کو دیکھتے ہوئے یہ ایک محفوظ اسکور لگ رہا تھا۔ ایک عام خیال یہ تھا کہ آج پاکستان عالمی کپ میں بھارت سے ہارنے کی روایت توڑ دے گا لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوسکا۔ پاکستان کی راہ میں سچن ٹنڈولکر دیوار بن کر کھڑے ہوگئے۔ انہوں نے 98 رنز کی جارحانہ اننگز کھیل کر اپنی ٹیم کی جیت کی بنیاد رکھ دی۔ سچن ٹنڈولکر جس وقت آؤٹ ہوئے اس وقت تک بھارت صرف 27.4 اوورز میں 177 رنز بنا چکا تھا۔
سچن ٹنڈولکر اس میچ میں سنچری تو مکمل نہیں کرسکے لیکن انہوں نے آنے والے بیٹسمینوں کے لیے کام آسان کردیا۔ یہاں اہم بات یہ تھی کہ ٹنڈولکر جب صرف 28 رنز پر تھے تو وسیم اکرم کی گیند پر عبدالرزاق نے ان کا انتہائی آسان کیچ چھوڑ دیا تھا۔ اگر وہ کیچ پکڑ لیا گیا ہوتا تو یہ عین ممکن تھا کہ قومی ٹیم ورلڈ کپ میں بھارت سے ہارنے کی روایت کو اس بار توڑ دیتی۔ لیکن خیر ایسا نہیں ہوسکا اور بھارت نے یہ میچ 6 وکٹوں سے جیت کر سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرلیا جہاں اس کا مقابلہ آسان حریف کینیا سے ہونا تھا۔
2007ء - (جنوبی افریقہ بمقابلہ سری لنکا)
نواں عالمی کپ 2007ء میں ویسٹ انڈیز میں کھیلا گیا۔ یہ عالمی کپ پاکستان کرکٹ ٹیم کے لیے کسی بھیانک خواب سے کم نہیں تھا۔ اس ٹورنامنٹ میں پہلے پاکستان کو آئرلینڈ کی نا تجربہ کار ٹیم سے شکست کا سامنا کرنا پڑا اور پھر اس شکست کے چند گھنٹوں بعد پاکستان کے کوچ باب وولمر اپنے کمرے میں مردہ پائے گئے۔
آج 12 سال گزرنے کے بعد بھی وولمر کی موت کا معمہ حل نہیں ہوسکا۔ لوگ آج بھی یہ جاننے سے قاصر ہیں کہ کیا یہ ان کی موت طبعی تھی یا پھر وولمر نے پاکستانی ٹیم کی شکست پر دلبرداشتہ ہوکر خود کشی کرلی تھی۔
پاکستان کے موجودہ چیف سیلکٹرر انضمام الحق جو اس وقت قومی ٹیم کے کپتان تھے ان کا یہ آخری عالمی کپ تھا۔ زمبابوے کے خلاف میچ میں جب وہ اپنے بین الاقوامی کرکٹ کیریئر کی آخری اننگز کھیل کر واپس جارہے تھے تو ان کی آنکھوں سے بہتے آنسوؤں نے ان کے مداحوں کو افسوس میں مبتلا کر دیا تھا۔
اس عالمی کپ کا ایک دلچسپ اور سنسنی خیز میچ 28 مارچ کو سری لنکا اور جنوبی افریقہ کے مابین کھیلا گیا تھا۔ اس میچ میں سری لنکا نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کی اور مقررہ اوورز سے 3 گیند پہلے ان کی پوری ٹیم صرف 209 رنز بنا کر آؤٹ ہوگئی۔
ہدف کے تعاقب میں جنوبی افریقہ نے اچھا کھیل پیش کیا اور 5 وکٹوں کے نقصان پر 205 رنز بنالیے تھے۔ ایک روزہ میچ عام طور سے 8 گھنٹے طویل ہوتا ہے اور یہ میچ بھی تقریباََ 8 گھنٹے جاری رہا جس میں تقریباََ 7 گھنٹے 40 منٹ تک جنوبی افریقہ کا پلڑا بھاری رہا۔
جنوبی افریقی اننگز کا 46واں اوور جس وقت شروع ہوا تو ان کو جیت کے لیے 5 اوورز میں محض 8 رنز درکار تھے اور ان کی 5 وکٹیں باقی تھیں۔ اس موقع پر ملنگا نے ریورس سوئنگ کا جادو جگاتے ہوئے 4 رنز دے کر اوور کی آخری 2 گیندوں پر 2 وکٹیں حاصل کرلیں۔ اب ملنگا ہیٹ ٹرک پر تھے لیکن ان کا اوور ختم ہوگیا تھا۔
جنوبی افریقہ کو جیت کے لیے صرف 4 رنز درکار تھے اور ان کی اب بھی 3 وکٹیں باقی تھیں اور ایک اینڈ پر جاک کیلس 86 رنز کے ساتھ موجود تھے، لہٰذا کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ میچ پھنس بھی سکتا ہے۔
اننگز کے 47ویں اوور میں چمندا واس نے صرف ایک رن دیا۔ ملنگا کو 48واں اوور کرنے کی ذمی داری ملی۔ جنوبی افریقہ کو جیت کے لیے 3 رنز درکار تھے۔ ملنگا کے سامنے ایک مایہ ناز بیٹسمین تھے لیکن وہ تو اب کسی کو خاطر میں لانے کے لیے تیار ہی نہیں تھے اور یوں انہوں نے 48ویں اوور کی پہلی گیند پر کیلس کو بولڈ کرکے ناصرف اپنی ہیٹ ٹرک مکمل کی بلکہ سری لنکا کو ایک ناقابلِ یقین فتح کے قریب بھی کردیا۔
بات یہاں رکی نہیں بلکہ اگلی گیند پر مکھایا این ٹینی کو بھی آوٹ کرکے انہوں نے 4 گیندوں پر 4 کھلاڑی آوٹ کردیے۔ ملنگا 5 گیندوں پر 5 کھلاڑی آوٹ نہیں کرسکے اور چارل لینگاویلڈ اور روبن پیٹرسن نے بہت مشکل سے جیت کے لیے درکار 3 رنز بناکر اپنی ٹیم کو آخری اوور میں فتح سے ہمکنار کروایا۔
2011ء - (بھارت بمقابلہ انگلینڈ)
کرکٹ کا 10واں عالمی کپ ایک مرتبہ پھر ایشیا میں کھیلا گیا۔ اس مرتبہ عالمی کپ کی میزبانی کرنے والے ملکوں کی تعداد 4 تھی۔ بنگلہ دیش کو پہلی مرتبہ عالمی کپ کی میزبانی کا اعزاز حاصل ہوا۔ پاکستان میں سیکیورٹی کی غیر یقینی صورتحال کے باعث غیر ملکی ٹیمیں آنا نہیں چاہتی تھیں لہٰذا پاکستان کو اپنے میچز متحدہ عرب امارات میں کھیلنے پڑے۔
اس ٹورنامنٹ کا ایک دلچسپ میچ بنگلور میں میزبان بھارت اور انگلینڈ کے درمیان گروپ اسٹیج میں کھیلا گیا۔ بھارت نے ٹاس جیت کر پہلے کھیلتے ہوئے مقررہ اوورز میں سچن ٹنڈولکر کی سنچری کی بدولت 338 رنز بنائے۔
جواب میں انگلینڈ نے بھی زبردست کھیل پیش کیا۔ انگلینڈ کے کپتان اینڈریو اسٹراس نے 158 رنز کی شاندار اننگز کھیلی۔ جب تک اسٹراس کریز پر موجود تھے تب تک انگلینڈ کی جیت واضح نظر آرہی تھی لیکن جب ٹیم کا اسکور 281 تک پہنچا تو اسٹراس آوٹ ہوگئے اور یوں بھارت نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میچ پر اپنی گرفت ایک بار پھر مضبوط کرلی۔
انگلینڈ کو جیت کے لیے آخری 12 گیندوں پر 29 رنز درکار تھے۔ انہوں نے 49ویں اوور میں 15 رنز حاصل کیے اور اب آخری اوور میں جیت کے لیے مزید 14 رنز درکار تھے لیکن ان کے کھلاڑی 13 رنز ہی بنا سکے ہوں یہ میچ عالمی کپ کی تاریخ میں ٹائی ہونے والا چوتھا میچ بن گیا۔
2015ء - (نیوزی لینڈ بمقابلہ آسٹریلیا)
کرکٹ کا گیارہواں عالمی کپ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں کھیلا گیا۔ اس ٹورنامنٹ کا سب سے دلچسپ مقابلہ دونوں میزبان ٹیموں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے درمیان گروپ اسٹیج میں آکلینڈ کے مقام پر کھیلا گیا۔
اس میچ میں آسٹریلیا نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کی اور ان کی پوری ٹیم 151 کے مجموعی اسکور پر ڈھیر ہوگئی۔ اس آسان ہدف کے تعاقب میں نیوزی لینڈ نے پُراعتماد آغاز کیا اور ایک وکٹ کے نقصان پر 78 بنا لیے تھے۔
نیوزی لینڈ کے کپتان برینڈن میک کولم نے صرف 21 گیندوں پر اپنی نصف سنچری مکمل کی۔ جب تک میک کولم کریز پر تھے تو رنز بنانا بہت آسان لگ رہا تھا لیکن ان کے آوٹ ہونے کے بعد تو جیسے کھیل کا نقشہ ہی بدل گیا۔
آسٹریلوی فاسٹ باولر مچل اسٹارک اپنی باولنگ کا جادو جگا رہے تھے اور صورتحال یہ ہوچکی تھی کہ نیوزی لینڈ کے 9 کھلاڑی 146 کے اسکور پر پویلین لوٹ چکے تھے۔ اسٹارک نے ان 9 میں سے 6 کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھائی تھی۔
ایک اینڈ سے وکٹیں سوکھے پتوں کی طرح جھڑ رہی تھیں تو دوسری جانب کین ولیم سن تن تنہا آسٹریلیا کی باولنگ کے سامنے مزاحمت کررہے تھے۔ اس مقابلے کو اگر اسٹارک بمقابلہ نیوزی لینڈ کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا۔
لیکن اس اعصاب شکن مقابلے کے بعد بالآخر نیوزی لینڈ ایک وکٹ سے یہ مقابلہ جیتنے میں کامیاب رہا۔ منتظمین نے نیوزی لینڈ کے ٹرینٹ بولٹ کو 5 وکٹیں لینے پر مین آف دی میچ قرار دیا لیکن میری رائے میں مچل اسٹارک اس اعزاز کے زیادہ حقدار تھے، اگرچہ آسٹریلوی ٹیم یہ میچ جیت نہ سکی۔
2015ء کے عالمی کپ کا فائنل بھی ان دونوں ٹیموں کے مابین کھیلا گیا تھا لیکن اس اہم فائنل میں ایک مرتبہ پھر نیوزی لینڈ کی بیٹنگ لڑکھڑا گئی اور آسٹریلیا نے ایک یکطرفہ مقابلے کے بعد فائنل جیت کر 5ویں مرتبہ عالمی کپ جیتنے کا اعزا حاصل کرلیا۔
12واں عالمی کپ 30 مئی سے انگلینڈ میں شروع ہونے جارہا ہے۔ 48 میچوں پر محیط یہ ٹورنامنٹ 47 دن تک جاری رہے گا جس میں شریک 10 ٹیمیں کرکٹ کی عالمی دنیا پر راج کرنے کے لیے سر ڈھڑ کی بازی لگائیں گی۔
یہ کرکٹ کی تاریخ کا پہلا عالمی کپ ہوگا جس میں شرکت کرنے والی تمام ٹیمیں ٹیسٹ اسٹیٹس رکھتی ہیں۔ پھر اس مرتبہ 1992ء کے بعد پہلی مرتبہ گروپ میچ سنگل لیگ کی بنیاد پر کھیلے جائیں گے، اس لیے شائقین پُرامید ہیں کہ ان کو تواتر کے ساتھ دلچسپ اور سنسنی خیز مقابلوں سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملے گا۔
تبصرے (2) بند ہیں