برطانوی وزیراعظم کا جذباتی انداز میں مستعفی ہونے کا اعلان
برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے انتہائی جذباتی انداز میں اعلان کیا ہے کہ وہ 7 جون کو وزیراعظم اور حکمراں جماعت کنزرویٹو اور یونینسٹ پارٹی کی رہنما کے عہدے سے مستعفی ہوجائیں گی۔
خبررساں ادارے ' رائٹرز ' کی رپورٹ کے مطابق تھریسامے نے 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ' میں 7 جون برزو جمعہ کو کنزرویٹو اور یونینسٹ پارٹی کی قیادت سے مستعفی ہوجاؤں گی تاکہ نئی قیادت کو منتخب کیا جاسکے'۔
تھریسامے کے مستعفی ہونے کے بعد فوراً ہی نئے سربراہ کو منتخب کیا جائے گا تاہم وہ نئے وزیراعظم کے انتخاب تک عہدے پر براجمان رہیں گی۔
برطانوی وزیراعظم تھریسامے جو یورپی یونین کی رکنیت کی حامی رہی ہیں، وہ 2016 میں بریگزٹ ووٹ کے بعد وزیراعظم بنی تھیں۔
تھریسامے کے استعفے کے اعلان سے بریگزٹ بحران کے سنگین ہونے کے خدشات میں اضافہ ہوگیا ہے اور یورپی یونین سے بغیر معاہدے کے علیحدگی کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔
مزید پڑھیں: تھریسا مے معاہدے میں ایک اور مخالفت کے بعد بریگزٹ میں تاخیر کی خواہاں
خیال رہے کہ وزیراعظم بننے کے امیدوار یورپی یونین سے سخت شرائط پر علیحدگی کا معاہدہ چاہتے ہیں جبکہ یورپی یونین پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ وہ نومبر میں طے کیے گئے معاہدے پر دوبارہ مذاکرات نہیں کریں گے۔
تھریسامے نے 21 مئی کو برطانوی اراکین پارلیمنٹ کو اس صورت میں نئے ریفرنڈم کا موقع دینے کا کہا تھا کہ اگر وہ تیسری مرتبہ مسترد کیے گئے معاہدے کی حمایت کرتے۔
تاہم کنزرویٹو جماعت کے اراکین نے انہیں استعفے کی تاریخ کا اعلان کرنے کے لیے آج تک کا وقت دیا جس پر برطانوی میڈیا کا کہنا تھا کہ وہ 10 جون کو عہدے سے مستعفی ہوں گی۔
برطانیہ کے اپوزیشن جماعت لیبر پارٹی کے رہنما جیرمی کوربین نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کیے گئے ٹوئٹ میں کہا کہ ' تھریسا مے نے مستعفی ہونے کا فیصلہ کرکے صحیح کیا، جو ملک کئی ماہ سے چاہتا ہے انہوں نے اب اس کا اعتراف کرلیا ہے، نہ تو وہ اور نہ ہی ان کی تقسیم شدہ جماعت حکومت کرسکتی ہے'۔
انہوں نے مزید لکھا کہ جو نیا سربراہ بنتا ہے اسے فوری طور پر عام انتخاب کے ذریعے عوام کو ملک کے مستقبل کا فیصلہ کرنے دینا چاہیے۔
' بریگزٹ' ، کب کیا ہوا ؟
واضح رہے کہ 2016 میں برطانیہ میں ہونے والے حیرت انگیز ریفرنڈم میں برطانوی عوام نے یورپی یونین سے اخراج کے حق میں ووٹ دیا تھا جس کے بعد طے کیا گیا تھا 29 مارچ 2019 کو برطانیہ، یورپی یونین سے علیحدگی اختیار کرلے گا۔
جولائی 2016 کو وزیر اعظم بننے والی تھریسامے نے بریگزٹ معاہدے پر عوامی فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کا وعدہ کیا تھا لیکن شدید مخالفت کے بعد سے انہیں مشکلات کا سامنا ہے اور وہ اراکین پارلیمنٹ کو منانے کی کوشش کررہی ہیں کہ وہ اخراج کے معاہدے کو قبول کرلیں۔
اس معاہدے پر ووٹنگ گزشتہ سال دسمبر میں ہونا تھی لیکن بعد ازاں اسے جنوری تک کے لیے ملتوی کردیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: برطانیہ کو بریگزٹ معاہدے کی تکمیل میں 6 ماہ تک کی توسیع مل گئی
مارچ 2017 میں برسلز میں شروع ہونے والے سخت مذاکرات کے نتیجے میں معاہدے کے مسودے پر اتفاق کیا گیا تھا جبکہ یورپی رہنماؤں نے دوبارہ مذاکرات کے امکان کو مسترد کردیا تھا اور اس غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے برطانوی معیشت میں مستقل اضطراب پایا جاتا ہے۔
بریگزٹ کے حوالے سے کی گئی پہلی ووٹنگ میں تھریسامے کے خلاف 308 ووٹ سے ترمیم پاس کی گئی جس میں حکمراں جماعت کے درجنوں اراکین بھی شامل تھے جبکہ 297 اراکین نے وزیراعظم کے حق میں ووٹ دیا تھا۔
برطانوی وزیراعظم تھریسامے کی اپنی جماعت کنزرویٹو پارٹی کے اراکین نے بھی لیبرپارٹی کا ساتھ دیا جس کے بعد 29 مارچ کو یورپی یونین سے مکمل علیحدگی کے حوالے سے خدشات پیدا ہوگئے تھے۔
تاہم تھریسامے کو سب سے بڑی ناکامی کا سامنا اس وقت کرنا پڑا جب 16 جنوری کو برطانوی پارلیمنٹ نے یورپی یونین سے علیحدگی کے وزیر اعظم تھریسامے کے بل کو واضح اکثریت سے مسترد کردیا اور انہیں 202 کے مقابلے میں 432 ووٹ سے شکست ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تھا۔
مزید پڑھیں: برطانوی پارلیمنٹ نے 'بریگزٹ' معاہدہ تیسری مرتبہ مسترد کردیا
بعد ازاں رواں سال 29 مارچ کو برطانیہ کی پارلیمنٹ نے وزیر اعظم تھریسا مے کے بریگزٹ معاہدے کو تیسری مرتبہ کثرت رائے سے مسترد کردیا ۔
برطانوی دارالعوام میں بریگزٹ معاہدے کے حق میں 286 جبکہ مخالفت میں 344 ووٹ دیے گئے جس کے بعد بعد آئندہ دو ہفتوں میں معاہدے کے بغیر بریگزٹ ہوگا یا اس میں طویل تاخیر ہونے کے امکانات پیدا ہوگئے تھے۔
رواں سال 11 اپریل کو یورپی ممالک کے رہنماؤں نے برطانیہ کے ساتھ بریگزٹ معاہدے پر 6 ماہ تک کی توسیع پر آمادگی کا اظہار کردیا تھا۔
بریگزٹ میں توسیع کے معاملے میں یورپی ممالک کے 27 رہنماؤں نے برسلز میں مذاکرات کرنے کے بعد فیصلہ سنایا تھا۔
یاد رہے کہ برطانیہ نے 1973 میں یورپین اکنامک کمیونٹی میں شمولیت اختیار کی تھی تاہم برطانیہ میں بعض حلقے مسلسل اس بات کی شکایات کرتے رہے ہیں کہ آزادانہ تجارت کے لیے قائم ہونے والی کمیونٹی کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے رکن ممالک کی ملکی خودمختاری کو نقصان پہنچتا ہے۔
بریگزٹ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد ابتدا میں معاشی مشکلات ضرور پیدا ہوں گی تاہم مستقبل میں اس کا فائدہ حاصل ہوگا کیوں کہ برطانیہ یورپی یونین کی قید سے آزاد ہوچکا ہوگا اور یورپی یونین کے بجٹ میں دیا جانے والا حصہ ملک میں خرچ ہوسکے گا۔