ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
بلوچستان کا شمار پاکستان کے پسماندہ ترین علاقوں میں ہوتا ہے، تیل، گیس اور دیگر قیمتی معدنیات کی دولت سے مالا مال وطن عزیز کا یہ خطہ ہر دور میں حکومتی غفلت، قبائلی تنازعات اور ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھتا رہا ہے۔
اور وزیراعظم عمران خان کے نئے پاکستان میں کوئی تبدیلی اب تک دیکھنے میں نہیں آئی، یہی وجہ ہے کہ زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح بلوچستان تعلیم کے میدان میں بھی بہت پیچھے ہے۔
اگرچہ پورے پاکستان میں ہی تعلیمی نظام مثالی قرار نہیں دیا جاسکتا اور بھاری فیسیں لینے والے پرائیوٹ تعلیمی ادارے بھی کئی عشروں پرانا نصاب پڑھا کر نئی نسل کو صرف ایک راہ ہی دکھا رہے ہیں کہ ڈگری صرف بہترین نوکری یا اچھی جگہ شادی کے لیے حاصل کی جاتی ہے، مگر بلوچستان میں اسکولوں اور تعلیمی اداروں کی حالت کچھ زیادہ ہی ابتر ہے جس کی ایک بڑی وجہ غیر تربیت یافتہ عملے کی بھرمار ہے جو سفارش کے بل بوتے پر نوکریاں حاصل کر کے نئی نسل کو تباہ کرنے میں بنیادی کردار ادا کر رہے ہیں۔
صوبے میں امن و امان کی خراب حالت اور آئے روز ہونے والے بم دھماکوں یا فائرنگ کے واقعات کے باعث قدامت پسند خاندان اپنے گھروں کی بچیوں کو کالج یا یونیورسٹی بھیجنے پر آمادہ نہیں، اس کے علاوہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں عرصے سے آباد ہزارہ قبیلے کے افراد بھی قتل و غارت کا شکار بنتے ہیں۔
مگر یہ حوصلہ مند افراد ان کٹھن ترین حالات میں بھی ہمت نہیں ہارے اور آئے روز اس کمیونٹی کی باصلاحیت نوجوان نسل کا کوئی نہ کوئی کارنامہ ملکی یا بین الااقوامی خبروں کا مرکز ہوتا ہے۔
ہزارہ قبیلے کی نوجوان لڑکیاں نہ صرف ذہانت میں یکتا ہیں بلکہ ان میں ایتھلیٹک کی بھر پور صلاحیتیں موجود ہیں اور بلوچستان سے قومی کھیلوں میں شامل ہونے والی شاید کوئی ٹیم ہی ایسی ہو جس میں ہزارہ خواتین کھلاڑی موجود نہ ہوں۔
انہی باصلاحیت خواتین میں سے ایک ثنا بتول بھی ہیں جو گزشتہ دنوں ملکی و بین الااقوامی خبروں کا مرکز بنیں، ثنا کو ہارورڈ میڈیکل کالج میں ڈاکٹریٹ پروگرام کے لیے پاول اینڈ ڈیزی سوروز فیلو شپ سے نوازا گیا، اس طرح وہ ہزارہ کیمونٹی کی پہلی خاتون بن گئی ہیں جو ہارورڈ میڈیکل اسکول میں تعلیم حاصل کریں گی۔
ثنا کا خاندان کئی عشروں قبل افغانستان سے ہجرت کر کے کوئٹہ میں آباد ہوا تھا، ان کی پیدائش کوئٹہ میں ہی ہوئی، 2013 میں کوئٹہ میں بڑھتے ہوئے دہشت گردی کے واقعات کے باعث ان کے خاندان نے امریکا میں سکونت اختیار کی، ثنا کی ابتدائی تعلیم کوئٹہ کے اسکول و کالجز کی تھی جہاں تعلیم کے نام پر محض ڈگریاں بانٹی جا رہی ہیں۔
مزید پڑھیں: ہزارہ کی لڑکیوں کا مقبول کھیل: مارشل آرٹس
یہی وجہ ہے کہ انہیں ابتدا میں نیو یارک کے فرانسز لیوس اسکول میں تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنے میں متعدد مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔
وہ انگریزی میں انتہائی کمزور تھیں، جسے بہتر بنانے کے لیے انہوں نے ایک کمیونٹی سینٹر کی لینگوئج کلاسز میں داخلہ لیا جو خاص طور پر دوسرے ممالک سے ہجرت کر کے آنے والے افراد کے لیے ڈیزائن کی جاتی ہیں۔
انگلش میں عبور حاصل کرنے کے بعد ثنا نے 2014 میں میکالے آنرز کالج میں داخلہ لیا جہاں سے انہوں نے بائیو کیمسٹری میں بی اے آنرز کیا، تعلیم کے ساتھ ساتھ وہ اپنے خاندان کے معاشی مسائل کو حل کرنے کے لیے اپنی کمیونٹی کے لوگوں کے کپڑوں کی سلائی بھی کرتی تھیں، جو انہوں نے کوئٹہ میں ایک ٹریننگ سینٹر میں چند ماہ کی تربیت کے دوران سیکھے تھے۔
اس کے علاوہ وہ کچھ عرصے تک ایک تشخیصی لیبارٹری میں بائیو کیمسٹ کی حیثیت سے فل ٹائم نوکری بھی کرتی رہیں، مگر اعلیٰ تعلیم جاری رکھنے کا جنون اس باصلاحیت لڑکی کا ہمراہی تھا۔
لہمن کالج نیو یارک سے گریجویشن کے وقت وہ اپنے خاندان کی پہلی لڑکی تھیں جنہوں نے باقاعدہ گریجویشن کی تھی اور مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے پرجوش تھیں مگر مالی مسائل ان کے دامن گیر تھے، جس کے باعث دو سال سے زائد عرصے وہ فلاحی کاموں کے علاوہ درس و تدریس سے بھی وابستہ رہیں، بالا آخر ان کی کوششیں رنگ لائیں اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوا، جلد ہی وہ ہارورڈ میڈیکل کالج میں میڈیکل ڈاکٹریٹ کا آغاز کریں گی۔
ثنا ہارورڈ میڈیکل کالج جیسے مایہ ناز تعلیمی ادارے میں پڑھنے کے لیے پوری طرح مستعد اور سرگرم ہیں، ان کا عزم ہے کہ ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہ اپنی ہزارہ کمیونٹی کے لیے بہت کچھ کریں گی اور چاہیں گی کہ ناصرف ہزارہ بلکہ ان کے آبائی شہر کوئٹہ جہاں وہ پیدا ہوئیں اور ابتدائی تعلیم حاصل کی، اس شہر کی لڑکیاں بھی آگے آئیں اور اپنی صلاحیتوں سے ملک و قوم کا نام روشن کریں۔
عموماً کہا جاتا ہے کہ بلوچستان کی خواتین نا صرف ملکی بلکہ صوبائی تعمیر و ترقی میں کوئی قابل ذکر کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ لیکن دیکھا جائے تو بلوچستان کی خواتین دیگر شہروں کی خواتین سے زیادہ ذہین اور باصلاحیت ہیں جس کی ایک مثال ثنا بتول بھی ہیں۔
بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر ثنا امریکا ہجرت نہ کرتیں تو شاید آج وہ اس مقام پر نہ ہوتیں مگر یہی لوگ دراصل بلوچستان کی خواتین کی تعلیم اور آگے بڑھ کر کچھ غیر معمولی کر دکھانے کی راہ میں اصل رکاوٹ ہیں۔ خواتین چاہے قدامت پسند گھرانے سے تعلق رکھتی ہوں یا انہیں آزادی حاصل ہو، کسی بھی فیلڈ میں آگے بڑھنے کے لیے سب سے اہم خاندان کی جانب سے حوصلہ افزائی اور اپنی صلاحیتوں پر مکمل اعتماد ہونا ضروری ہے۔
ثنا بلوچستان میں رہ کر بھی ہارورڈ میڈیکل کالج میں فیلو شپ حاصل کر سکتی تھیں کیونکہ بہت کم وسائل کے باوجود انہیں خاندان کی بھر پور حمایت حاصل ہے۔ ثنا کے والدین چاہتے ہیں کہ ان کی کامیابیوں کا سفر صرف ہارورڈ میڈیکل کالج سے ڈاکٹریٹ پر ختم نہ ہو بلکہ یہ تو ثنا کی کامیابیوں کا محض آغاز ہے، مستقبل میں ابھی اور بہت سے معرکے ان کے منتظر ہیں۔ اسی لیے ان کے والدین انہیں پریس، میڈیا اور انٹرویوز وغیرہ سے مکمل طور پر دور رکھتے ہیں تاکہ وہ پوری دلجمعی کے ساتھ اپنی تعلیم پر توجہ دے سکیں۔
بلوچستان میں ناجانے کتنی باصلا حیت ثنا بتول چھپی ہوئی ہوں گی جو آگے بڑھ کر بہت کچھ کر دکھانے کا عزم تو رکھتی ہیں مگر انہیں نہ وسائل دستیاب ہیں اور نہ ہی خاندان کی حمایت اور آزادی حاصل ہے۔
یہی وقت ہے کہ بلوچستان کے روایتی بلوچ، پشتون، ہزارہ اور دیگر قومیتوں سے تعلق رکھنے والے والدین بیٹیوں کو آزادی اور اعتماد دیکر اعلی ٰ تعلیم حاصل کرنے کے مواقع فراہم کریں، تاکہ بے معنی زندگی گزار کر خاموشی کے ساتھ قبر میں جا سونے کے بجائے یہ بے انتہا باصلاحیت بچیاں نا صرف اپنا مستقبل بنا کر بھرپور خوشحال زندگی گزار سکیں بلکہ ملک و قوم کا نام بھی روشن کریں۔
صادقہ خان نے یونیورسٹی آف بلوچستان سے اپلائیڈ فزکس میں ماسٹرز کیا ہے، وہ پاکستان کی کئی سائنس سوسائٹیز کی فعال رکن ہیں۔ ڈان نیوز پر سائنس اور اسپیس بیسڈ ایسٹرا نامی کے آرٹیکلز/بلاگز لکھتی ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں saadeqakhan@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (1) بند ہیں