پولیو کیسز میں اضافے کے بعد انسداد پولیو پروگرام میں اصلاحات متعارف
اسلام آباد: ملک بھر میں پولیو کے کیسز میں اضافے کے بعد اس مرض سے بچاؤ کے لیے انسداد پولیو پروگرام میں اصلاحات متعارف کروائی جارہی ہیں۔
انسداد پولیو پروگرام میں متعارف کروائی جانے والی اصلاحات میں پولیو ویکسینیشن ٹیمز کی جانب سے دوروں کی تعداد میں کمی، ڈیٹا رجسٹرز کے استعمال کا خاتمہ اور خاندانوں سے پوچھے جانے والے سوالات کی تعداد کو محدود کیا جانا شامل ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان، افغانستان کی طرح ان دو آخری ممالک میں سے ایک ہے جہاں پولیو وائرس کے نئےکیسز سامنے آرہے ہیں۔
رواں برس ملک میں اب تک پولیو کے 17 کیسز سامنے آئے ہیں، جن میں 3 خیبرپختونخوا، 5 خیبرپختونخوا کے قبائلی اضلاع،3 پنجاب اور 3 سندھ سے رپورٹ کیے گئے تھے۔
مزید پڑھیں: رواں برس سندھ میں پولیو کے تیسرے کیس کی تصدیق
اصلاحات سے متعلق تفصیلات بتاتے ہوئے وزیراعظم کے ترجمان برائے پولیو بابر بن عطا نے ڈان کو بتایا کہ پولیو ورکرز اپنے ہمراہ رجسٹر لے کر جاتے تھے جنہیں 2016 میں متعارف کروایا گیا تھا تاہم اب وہ رجسٹر نہیں لے کر جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ' پولیو ورکرز کا کہنا تھا کہ ان کے لیے خاندانوں کے ساتھ بات چیت اور انہیں آمادہ کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ ان کا بیشتر وقت رجسٹروں میں ڈیٹا درج کرنے میں صرف ہوتا ہے'۔
بابر بن عطا نے کہا کہ رہائش پذیر افراد سے پوچھے جانے والے سوالات کی تعداد بھی کم کردی گئی ہے تاکہ انہیں برہم ہونے سے روکا جاسکے ۔
انہوں نے کہا کہ علاقہ مکینوں سے پوچھا جائے گا کہ گھر میں بچوں کی تعداد کیا ہے اور ان میں سے کتنے بچوں کو ویکسین پلائی گئی ہے۔
ترجمان برائے پولیو نے کہا کہ ' اس سے قبل پولیو ورکرز کو گھر میں شادی شدہ جوڑوں کتنے ہیں، ان کی شادی کب ہوئی، کتنے بچے ہیں، گھر میں کوئی حاملہ خاتون ہے یا نہیں، جیسے سوالات پوچھنے کی ہدایت کی گئی تھی۔
بابر بن عطا نے بتایا کہ ہر انسداد پولیو مہم کے دوران اور اس کے بعد پولیو ورکرز، علاقہ انچارج، ٹیکنیکل تحصیل نگران، یونین کونسل کے نمائندگان سمیت مختلف افراد علاقے کے تقریبا 9 دورے کرتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ' اب پولیو ورکر اور سپر وائزر صرف 2 دورے کیا کریں گے جس سے لوگوں کا اعتماد بحال کرنے میں مدد ملے گی'۔
یہ بھی پڑھیں: رواں ہفتے میں پولیو کے تیسرے کیس کی تصدیق، تعداد 11 تک پہنچ گئی
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگلی انسداد پولیو مہم جون کے دوسرے ہفتے میں شروع ہوگی۔
بابر بن عطا نے کہا کہ ' اب ہم ماحولیاتی نمونوں پر توجہ مرکوز کریں گے اور سیوریج سے پولیو وائرس کے خاتمے کو یقینی بنائیں گے'۔
خیال رہے کہ مثبت ماحولیاتی نمونے میں سیوریج میں پولیو وائرس موجود ہوتا ہے، سیوریج واٹر کے نمونے ہی بنیادی پیمانہ ہیں کہ علاقے میں پولیو مہم کامیاب ہوئی ہے یا نہیں۔
ایک شہر سے منتقلی کی وجہ سے کسی بھی شہر میں پولیو کا کیس سامنے آسکتا ہے لیکن گٹر کے پانی میں وائرس کی موجودگی اس بات کی نشاندہی ہے کہ انسداد پولیو مہم اپنا ہدف مکمل نہیں کرسکی۔
اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ مقامی بچوں کی قوت مدافعت میں کمی ہے اور ان میں بیماری کا شکار ہونے کا خدشہ موجود ہے۔
یہ خبر 21 مئی 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی