• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:53am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:19am Sunrise 6:46am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:53am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:19am Sunrise 6:46am

بھارتی انتخابات 2019: بی جے پی کی بھاری اکثریت سے کامیابی

نتائج کے اعلان کے ساتھ ہی 11 اپریل سے 19 مئی تک ہونے والے لوک سبھا کے 17 ویں طویل انتخابات اپنے اختتام کو پہنچے۔
شائع May 22, 2019 اپ ڈیٹ May 28, 2019


بھارتی انتخابات 2019

آبادی کے لحاظ سے دوسرے بڑے ملک بھارت میں دنیا کے سب سے بڑے انتخابات کا میلہ ختم ہوگیا، الیکشن کمیشن نے مارچ 2019 میں ملک میں لوک سبھا (ایوانِ زیریں) کے 17 ویں انتخابات کے لیے 11 اپریل سے 19 مئی تک 6 ہفتوں پر محیط عام انتخابات کرانے کا اعلان کیا تھا، جہاں کروڑوں افراد نے اپنے ووٹ کاسٹ کیے۔

بھارت کے اس وقت کے وزیراعظم اور قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سربراہ نریندر مودی اپنی دوسری مدت کے لیے گاندھی اور نہرو کے سیاسی وارث اور بائیں بازو کی کانگریس کے سربراہ راہول گاندھی کے مدمقابل ہیں۔

11 اپریل سے 19 مئی 2019 کے دوران 7 مرحلوں میں ہونے والے انتخابات میں ایوان زیریں (لوک سبھا) کے 543 اراکین کے چناؤ کے لیے 90 کروڑ ووٹر رجسٹرڈ تھے۔

ووٹوں کی گنتی کا عمل اور نتائج کا اعلان کل (23 مئی کو) کیا جائے گا، ایگزٹ پولز کے مطابق نریندر مودی کی جماعت کے ایک مرتبہ پھر عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے امکانات ہیں۔

خیال رہے کہ ’ایگزٹ پولز‘ کی اصطلاح ان نتائج کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو باقاعدہ اعلان سے قبل ووٹرز سے یہ پوچھ کر مرتب کیے جاتے ہیں کہ انہوں نے کس جماعت یا امیدوار کو ووٹ دیا۔

آخری مرحلے سے قبل کیے جانے والے 4 ایگزٹ پولز میں بی جے پی کی سربراہی میں قائم اتحاد نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) کو کامیابی حاصل ہوتی دکھائی دے رہی ہے اور امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ کامیابی کی صورت میں انہیں 280 سے315 نشستیں مل سکتیں ہیں جو کانگریس سے کہیں زیادہ ہیں۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات کے انعقاد کے اعلان کے فوری بعد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں عوام پر زور دیا تھا کہ وہ ووٹ ڈالنے کے لیے باہر نکلیں، ان کا کہنا تھا کہ ‘جمہوریت کا میلہ، انتخابات ہورہے ہیں، میں اپنے بھارتیوں پر زور دیتا ہوں کہ وہ لوک سبھا کے انتخابات 2019 میں متحرک رہیں اور مجھے اُمید ہے کہ یہ انتخابات ٹرن آؤٹ کے لحاظ سے تاریخی ہوں گے’۔

بھارت کے 2014 کے انتخابات میں مودی کی جماعت نے اکثریت حاصل کی تھی جس کے نتجے میں 68 سالہ تجربہ کار سیاست دان مودی وزیراعظم بن گئے تھے جبکہ ان پر کئی الزامات بھی تھے۔

لوک سبھا کے 543 ارکان عوامی ووٹوں سے منتخب ہوکر ایوان میں پہنچتے ہیں جب کہ 2 ارکان کو صدر اس وقت اسمبلی میں منتخب کرکے بھیجتے ہیں جب انہیں احساس ہو کہ ’اینگلو انڈین‘ کمیونٹی کی پارلیمنٹ میں نمائندگی نہیں۔

نریندر مودی اور راہول گاندھی وزیر اعظم کے لیے مضبوط امیدوار تھے — فوٹو: ٹائمز ناؤ
نریندر مودی اور راہول گاندھی وزیر اعظم کے لیے مضبوط امیدوار تھے — فوٹو: ٹائمز ناؤ

صدر مملکت کی جانب سے منتخب کیے جانے والے ارکان کا ’اینگلو انڈین‘ ہونا لازمی ہوتا ہے یعنی یہ ارکان ہندوستانی اور مغربی جبکہ خصوصی طور پر انگریز نسل کا امتزاج ہوتے ہیں، اس کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر افراد کولکتہ اور شملہ میں آباد ہیں۔

سترہویں لوک سبھا کے 7 مراحل اور تقریباً پونے 2 ماہ تک جاری رہنے والے انتخابات کے لیے ووٹنگ کے ابتدائی 4 مراحل اپریل میں ہوئے جب کہ آخری 3 مراحل مئی میں ہوئے اور اسی ماہ کے آخری ہفتے میں انتخابی نتائج کا اعلان بھی کردیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: بھارتی انتخابات میں دولت کا راج، کاروباری شخصیات کا اہم کردار

بھارت میں ووٹنگ کا پہلا مرحلہ 11 اپریل کو ہوا، دوسرا 18 اپریل، تیسرا 23 اپریل، چوتھا 29 اپریل، پانچواں 6 مئی، چھٹا 12 مئی اور ساتواں 19 مئی کو ہوا۔

لوک سبھا کے انتخابات بھارت کی 29 ریاستوں سمیت 7 وفاقی حکومت کے ماتحت علاقوں اور ہندوستان کے زیر تسلط جموں و کشمیر میں ہوئے۔

2019 کے انتخابات میں بھارت کی 2 ہزار سیاسی جماعتوں کے 8 ہزار 136 ارکان میدان میں اترے تھے، جن میں سے خواتین ارکان کی تعداد 700 سے بھی کم تھی۔

الیکشن کمیشن آف انڈیا کے مطابق اس مرتبہ انتخابات کے لیے 10 لاکھ سے زائد پولنگ اسٹیشن کا قیام عمل میں لایا گیا تھا اور 11 لاکھ سے زائد ووٹنگ الیکٹرانک مشینوں کا استعمال کیا گیا تھا۔

بھارت کے انتخابات کو دنیا کا سب سے بڑا انتخابی دنگل بھی مانا جاتا ہے کیوں کہ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جہاں 90 کروڑ افراد ووٹ دینے کے اہل تھے۔

الیکشن کمیشن آف انڈیا کے مطابق 2014 کے لوک سبھا انتخابات کے بعد ملک میں مجموعی طور پر 13 کروڑ ووٹرز کا اضافہ ہوا، جس میں سے 9 کروڑ ووٹرز آخری 3 سال میں رجسٹر ہوئے اور ان 13 کروڑ ووٹرز نے 2019 کے انتخابات میں پہلی مرتبہ ووٹ کا حق استعمال کیا، جن کی عمریں 18 سے 20 سال کے درمیان تھیں۔

انتخابات سے قبل سامنے آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق ووٹر فہرست سے 2 کروڑ سے زائد خواتین کے نام غائب تھے، یوں الیکشن کمیشن کی فہرست میں موجود 41 کروڑ خواتین کو ووٹ کا حق استعمال کرنے کی اجازت تھی۔

بھارت کی 2011 میں ہونے والی مردم شماری کے مطابق خواتین کی آبادی 58 کروڑ سے زائد تھی جس میں سے 43 کروڑ خواتین رجسٹر ووٹر ہیں، تاہم رجسٹر ووٹرز خواتین کی فہرست میں سے 2 کروڑ خواتین کے نام غائب تھے جبکہ 4 کروڑ خواتین کو پہلی مرتبہ اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کا موقع میسر آیا۔

بھارت کی 2011 میں ہونے والی مردم شماری کے مطابق ہندوستان کی مجموعی آبادی ایک ارب 21 کروڑ 5 لاکھ 69 ہزار 573 تھی جس میں سے 62 کروڑ 31 لاکھ 12 ہزار 843 مرد اور 58 کروڑ 74 لاکھ 47 ہزار 730 خواتین تھیں۔

کس مرحلے میں کتنے حلقوں پر انتخابات ہوئے

بھارت میں 17ویں لوک سبھا کے انتخابات 7 مراحل میں ہوئے، پہلا مرحلہ 11 اپریل کو شروع ہوا لیکن سب سے زیادہ حلقوں پر انتخابات تیسرے مرحلے میں ہوئے۔

11 اپریل کو پہلے مرحلے میں مجموعی طور پر 91 حلقوں پر انتخابات ہوئے، 18 اپریل کو دوسرے مرحلے میں 97 ارکان کا چناؤ ہوا، 23 اپریل کو تیسرے مرحلے میں سب سے زیادہ 115 حلقوں پر انتخابات ہوئے، چوتھے مرحلے میں 29 اپریل کو 71 لوک سبھا ارکان کے لیے ووٹنگ ہوئی۔

اس کے علاوہ پانچویں مرحلے میں 6 مئی کو سب سے کم 51 حلقوں سے ارکان منتخب کیے گئے، چھٹے مرحلے میں 12 مئی کو 59 نشستوں کے لیے ووٹ ڈالے گئے جبکہ ساتویں اور آخری مرحلے میں 19 مئی کو بھی 59 حلقوں میں ووٹنگ ہوئی۔

کس ریاست میں کتنے انتخابی حلقے تھے؟

آبادی کے لحاظ سے بھارت کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں سب سے زیادہ 80 نشستیں تھیں، اس ریاست کی آبادی 20 کروڑ کے لگ بھگ بتائی گئی تھی، اس کے بعد انتخابی حلقوں اور آبادی کے لحاظ سے دوسرے نمبر ریاست مہارا شٹر تھی، جہاں 48 نشستیں تھیں اور اس کی آبادی 11 کروڑ سے زائد تھی۔

آبادی کے لحاظ سے تیسری بڑی ریاست بہار تھی جہاں کی آبادی 10 کروڑ سے زائد بتائی گئی، مگر وہاں انتخابی حلقے ان سے چھوٹی ریاست آندھرا پردیش سے بھی کم تھے، بہار میں 40 نشستیں تھیں جب کہ آندھرا پردیش میں 42 نشستیں تھیں اور وہاں کی آبادی 5 کروڑ کے قریب بتائی گئی۔

اسی طرح مغربی بنگال میں بھی 42 نشستیں تھیں اور وہ آبادی کے لحاظ سے چوتھی بڑی ریاست قرار دی گئی، وہاں کی آبادی 9 کروڑ سے زائد بتائی گئی۔

ان ریاستوں کے بعد نشستوں کے حوالے سے سب سے بڑی ریاست تامل ناڈو تھی، جہاں سے 39 لوک سبھا ارکان کا انتخاب ہونا تھا اور یہاں کی آبادی 7 کروڑ سے زائد تھی۔

اورنا چل پردیش، گوا، میگھالیہ، منی پور اور تری پورہ ایسی ریاستیں تھیں جہاں سے ترتیب وار 2 لوک سبھا ارکان کا انتخاب ہوا، جب کہ میزورم، ناگالینڈ اور سکم ایسی ریاستیں تھیں، جہاں سے ایک ایک رکن منتخب ہوا۔

بھارت کی وفاقی حکومت کے ماتحت علاقوں سے ترتیب وار ایک جب کہ دہلی سے 7 ارکان منتخب کیے گئے جبکہ بھارت کے زیر تسلط جموں و کشمیر سے 6 لوک سبھا ارکان کا انتخاب ہونا تھا۔

لوک سبھا کے 17 ویں انتخابات میں یوں تو چند دیگر وزرائے اعظم کے امیدوار بھی میدان میں اترے تھے لیکن سخت مقابلہ بی جے پی کے نریندر مودی اور کانگریس کے راہول گاندھی کے درمیان تھا۔

یہ بھی پڑھیں: بھارتی انتخابات: اقتدار میں آنے کے لیے سیاستدانوں کے ڈرامے

کسی بھی امیدوار کو وزیراعظم بننے کے لیے پہلے لوک سبھا کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا پڑتی ہے جس کے بعد اسے نو منتخت ارکان کے ووٹوں کے ذریعے منتخب کیا جاتا ہے، وزیر اعظم کے لیے امیدوار کو 272 ووٹوں کی ضرورت پڑتی ہے اور 2014 میں نریندر مودی اتحادی جماعت کی حمایت کے ساتھ 282 ووٹ لے کر وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے۔

توقع کی جا رہی تھی کہ پریانکا گاندھی بھی لوک سبھا کے انتخابات میں حصہ لیں گی — فوٹو: اے پی
توقع کی جا رہی تھی کہ پریانکا گاندھی بھی لوک سبھا کے انتخابات میں حصہ لیں گی — فوٹو: اے پی

نریندر مودی انتخابات کے دوران اور انتخابی نتائج کے اعلان کے بعد 31 مئی تک وزارت عظمیٰ عہدے پر برقرار رہیں گے۔

نریندر مودی نے 2019 کے انتخابات میں ریاست اتر پردیش کے شہر وارانسی (بنارس) کے حلقے سے لوک سبھا کا انتخاب لڑا تھا۔

دوسری جانب کانگریس کے صدر اور وزیر اعظم کے دوسرے مضبوط اُمیدوار راہول گاندھی 2 حلقوں سے میدان میں اترے تھے، انہوں نے ریاست کیرالہ کے ضلع ویاناڈ اور ریاست اتر پردیش کے ضلع امیٹھی سے انتخابات میں حصہ لیا۔


مرحلہ وار بھارتی انتخابات کا مختصر جائزہ

  • بھارتی انتخابات میں پولنگ کا پہلا مرحلہ 11 اپریل کو ہوا، 20 ریاستوں اور وفاقی انتظامی علاقوں کی 91 نشستوں پر ووٹنگ ہوئی، 14 کروڑ 20 لاکھ سے زائد افراد حق رائے دہی استعمال کرنے کے اہل تھے، پرتشدد واقعات میں 7 افراد ہلاک ہوئے۔

  • دوسرے مرحلے میں پولنگ 18 اپریل کو ہوئی، 12 ریاستوں کی 95 نشستوں پر ووٹنگ ہوئی، رجسٹر ووٹرز کی مجموعی تعداد 15 کروڑ 50 لاکھ تھی، جن ریاستوں میں ووٹنگ ہوئی اُن میں آسام، بہار، چھتیس گڑھ، مقبوضہ جموں اینڈ کشمیر، کرناٹک، مہاراشٹر، مانی پور، اوڈیشا، اتر پردیش، مغربی بنگال، پودوچھری شامل تھے۔

  • بھارتی انتخابات کا تیسرا مرحلہ 23 اپریل کو ہوا، نریندر مودی کے حلقے سمیت 15 ریاستوں کی مجموعی 117 نشستوں پر پولنگ ہوئی، 15 ریاستوں میں 18 کروڑ 80 لاکھ ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کے اہل تھے۔

  • چوتھا مرحلہ 29 اپریل کو منعقد ہوا تھا جس میں 9 ریاستوں کی 72 نشستوں پر پولنگ ہوئی تھی، اس مرحلے میں مغربی بنگال میں ہونے والے انتخاب فسادات کی نذر ہوگئے تھے اور بی جے پی نے دوبارہ انتخابات کروانے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔

  • انتخابات کا پانچواں مرحلہ 6 مئی کو منعقد ہوا تھا، 7 ریاستوں کی 51 نشستوں پر ووٹنگ میں 8 کروڑ 70 لاکھ سے زائد افراد نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا تھا۔

  • چھٹے مرحلے میں 12 مئی کو دارالحکومت دہلی اور 6 ریاستوں کی 59 نشستوں پر ووٹنگ ہوئی تھی جس میں 10 کروڑ 17 لاکھ سے زائد افراد نے ووٹ کاسٹ کیا تھا۔

  • 19 مئی کو بھارت میں لوک سبھا کے 17 ویں انتخابات کے ساتویں اور آخری مرحلے میں وزیراعظم نریندر مودی کے حلقے سمیت 59 نشستوں پر پولنگ کا عمل مکمل ہوا، یہاں 10 کروڑ سے زائد رجسٹرڈ ووٹرز تھے، انتخابات کے ساتویں مرحلے میں پنجاب، اترپردیش، مغربی بنگال، بہار، مدھیہ پردیش، ہیماچل پردیش، جھارکھنڈ اور چندی گڑھ میں پولنگ ہوئی۔



انتخابات کا پہلا مرحلہ

بھارت میں لوک سبھا (ایوان زیریں ) کے 17ویں انتخابات کے لیے 11 اپریل 2019 کو پہلے مرحلے میں 20 ریاستوں اور وفاقی انتظامی علاقوں کی 91 نشستوں میں ووٹنگ کا عمل مکمل ہوا۔

بھارت میں مجموعی طور پر 89 کروڑ 89 لاکھ ووٹرز میں سے انتخابات کے پہلے مرحلے میں 14 کروڑ 20 لاکھ سے زائد افراد نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا جبکہ اس دوران پرتشدد واقعات میں 7 افراد کے قتل کے بعد سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔

بھارتی انتخابات کے موقع پر مقبوضہ کشمیر میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی — فائل فوٹو: اے پی
بھارتی انتخابات کے موقع پر مقبوضہ کشمیر میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی — فائل فوٹو: اے پی

جن ریاستوں میں پہلے مرحلے میں انتخابات ہوئے، ان میں اترپردیش، آروناچھل پردیش، آسام، بہار، چھتیس گڑھ، بھارت کے زیر تسلط جموں اور کشمیر، مہاراشٹرا، مزورام، مانی پور، میگھالیہ، ناگالینڈ، اوڈیشا، سکم، تیلانگانا، تری پورا، اتر پردیش، اتر کھنڈ، مغربی بنگال، اندمن، نکوبر اور لکشادیپ شامل تھے۔

بھارتی میڈیا کے مطابق ریاست بہار میں ووٹر ٹرن آؤٹ 50.26 فیصد، تلنگانہ میں 60.57، میگھالیہ میں 62 فیصد،اترپردیش میں 59.77 فیصد، منی پور میں 78.20 فیصد اور لکشادیپ میں 65.9 فیصد رہا جبکہ بھارتی ریاست اڑیسہ کے 2 پولنگ بوتھ میں ووٹر ٹرن آؤٹ صفر رہا۔

مزید پڑھیں: بھارتی انتخابات: بی جے پی کے گوتم گمبھیر کے خلاف مقدمہ درج

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی جنہوں نے الیکشن کے قریب آتے ہی اپنا ٹوئٹر کا نام بھی چوکیدار نریندر مودی کردیا تھا، انہوں نے ووٹرز خاص طور پر نوجوان اور پہلی مرتبہ ووٹ کاسٹ کرنے والے سے کہا تھا کہ وہ بڑی تعداد میں اپنا حق رائے دہی استعمال کریں۔

ادھر کانگریس کے راہول گاندھی نے اپنی ٹوئٹ میں تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ کوئی 2 کروڑ نوکریاں نہیں، کوئی 15 لاکھ بینک اکاؤنٹس میں نہیں اور کوئی اچھے دن نہیں بلکہ صرف کسانوں کو تکلیف، گبر سنکھ ٹیکس اور جھوٹ جھوٹ جھوٹ۔

انہوں نے مزید لکھا کہ آج آپ بھارت کی مٹی اور اپنے مستقبل کے لیے ووٹ دیں گے۔

مقبوضہ کشمیر میں شٹر ڈاؤن

دوسری جانب بھارتی انتخابات کے پہلے مرحلے پر مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور نام نہاد انتخابات کے خلاف شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی تھی۔

کشمیر میڈیا سروس کی رپورٹ کے مطابق حریت قیادت نے ’نام نہاد‘ بھارتی انتخابات سمیت کشمیری عوام اور قیادت کے خلاف مظالم پر مقبوضہ وادی میں مکمل شٹر ڈاؤن کا اعلان کیا تھا'۔

ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ اس احتجاج کا مقصد ’جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین یاسین ملک کو نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی کی جانب سے دہلی کی تہاڑ جیل منتقل کرنے، میر واعظ عمر فاروق سے دہلی میں این آئی اے ہیڈکوارٹرز میں سوالات کرنے اور حریت رہنما سید علی گیلانی کے دونوں بیٹوں کو مسلسل طلب کرنے‘ کے خلاف بطور احتجاج کرنا بھی ہے۔


انتخابات کا دوسرا مرحلہ

18 اپریل 2019 کو بھارت میں لوک سبھا (ایوانِ زیریں) کے 17ویں انتخابات کے دوسرے مرحلے میں 12 ریاستوں کی 95 نشستوں پر ووٹنگ ہوئی، جن ریاستوں میں ووٹنگ ہوئی، اُن میں آسام، بہار، چھتیس گڑھ، مقبوضہ جموں اینڈ کشمیر، کرناٹکہ، مہاراشٹرا، مانی پور، اوڈیشا،اتر پردیش، مغربی بنگال، پودوچھری شامل تھیں۔

بھارت میں دوسرے مرحلے میں مجموعی طور پر 15 کروڑ 50 لاکھ افراد نے اپنا حق رائے دہی استعمال کرنا تھا۔

ایک روز قبل الیکشن کمیشن نے بھارتی ریاست تامل ناڈو میں غیر قانونی رقم کے ذریعے ووٹرز کو لالچ دینے کے الزام پر ویلور کے پارلیمانی حلقے انتخابات ملتوی کردیے تھے۔

الیکشن کمیشن کی نگرانی ٹیم اور محکمہ انکم ٹیکس کے مشترکہ چھاپے میں ایک دکان سے ووٹرز کی تقسیم کے لیے رکھے گئے ایک کروڑ 48 لاکھ بھارتی روپے برآمد کیے تھے۔

دوسرے روز بھی مقبوضہ کشمیر میں شٹر ڈاؤن ہڑتال

بھارتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور نام نہاد انتخابات کے خلاف دوسری روز بھی شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی تھی۔

کشمیر میڈیا سروس کی رپورٹ کے مطابق حریت قیادت نے ’نام نہاد‘ بھارتی انتخابات سمیت کشمیر عوام اور قیادت کے خلاف مظالم پر مقبوضہ وادی میں مکمل شٹر ڈاؤن کا اعلان کیا تھا۔

ہڑتال کے موقع پر بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے 3 اضلاع سری نگر، بڈگام اور گاندربل جانے والے راستے بند تھے جہاں بھارتی لوک سبھا میں انتخابات میں دوسرے مرحلے کے لیے پولنگ کا انعقاد کیا گیا۔

آل پارٹیز حریت کانفرنس کے چیئرمین سید علی گیلانی نے مقبوضہ وادی کے عوام سے نام نہاد الیکشن کے مکمل بائیکاٹ کا مطالبہ کیا تھا۔

اس موقع پر تینوں اضلاع میں بھارتی پولیس اور پیراملٹری اہلکاروں کی نفری میں اضافہ کیا گیا تھا جبکہ ایک رات قبل سے ہی مقبوضہ کشمیر میں موبائل انٹرنیٹ سروس اور ٹرین سروس بھی معطل کردی گئی تھی۔


انتخابات کا تیسرا مرحلہ

بھارت میں انتخابات کا تیسرا مرحلہ 23 اپریل 2019 کو انجام پایا تھا، جس میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے حلقے سمیت 15 ریاستوں کی مجموعی طور پر 117 نشستوں پر ووٹنگ کا عمل مکمل ہوا۔

الیکشن کے اس سب سے بڑے مرحلے کے دوران 15 ریاستوں میں 18 کروڑ 80 لاکھ ووٹرز نے اپنا حق رائے دہی استعمال کرنا تھا۔

بولی وڈ اداکارہ دپیکا پڈوکون نے بھی انتخابات میں اپنا حق رائے دہی استعمال کیا — فائل فوٹو: رائٹرز
بولی وڈ اداکارہ دپیکا پڈوکون نے بھی انتخابات میں اپنا حق رائے دہی استعمال کیا — فائل فوٹو: رائٹرز

اس مرحلے میں ریاست گجرات میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے حلقے اور ریاست کیرلا میں اپوزیشن رہنما راہول گاندھی کے حلقے میں بھی ووٹنگ ہوئی تھی۔

گجرات میں نریندر مودی سخت سیکیورٹی میں اپنے حقِ رائے دہی استعمال کرنے کے لیے پولنگ اسٹیشن پہنچے تھے جبکہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے صدر امت شاہ بھی ان کے ہمراہ موجود تھے۔

نریندر مودی کی پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی

خیال رہے کہ بھارت کی سیاست میں پاکستان مخالف جذبات بھڑکانے کو ملک کی عوام کی حمایت اور انتخابات کی کامیابی کا سرچشمہ سمجھا جاتا ہے اسی پر عمل کرتے ہوئے انتخابات کے تیسرے مرحلے سے ایک روز قبل بھارتی ریاست مہاراشٹر میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے بھارت کی قوم پرست جماعت بی جے پی کے سربراہ نریندر مودی، پاکستان مخالف بیان سے ووٹرز کو اپنی جانب مبذول کرتے نظر آئے۔

یہ بھی پڑھیں: بھارتی انتخابات: جیا پرادا کے خلاف نازیبا زبان استعمال کرکے اعظم خان پھنس گئے

انہوں نے اپنے خطاب میں حکومتِ پاکستان کو ایک کمزور حکومت قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ کیا آپ کو ایسی حکومت چاہیے جو پاکستان میں ہے یا آپ کو ایک مضبوط وزیراعظم چاہیے؟

خیال رہے کہ نریندر مودی اور ان کی جماعت بی جے پی انتخابات کے دوران حریفوں پر سبقت حاصل کرنے اور عوام کے جذبات کو ابھارنے کے لیے انتخابی مہم کے دوران پاکستان مخالف بیانات کا سہارا لیتی رہی ہے۔


انتخابات کا چوتھا مرحلہ

29 اپریل 2019 کو بھارت کے لوک سبھا (ایوان زیریں) کے 17 ویں انتخابات کے چوتھے مرحلے میں 9 ریاستوں کی 72 نشستوں پر ووٹنگ ہوئی۔

انتخابات کے چوتھے مرحلے میں جن ریاستوں میں 12 کروڑ سے زائد ووٹرز نے اپنا حق رائے دہی استعمال کرنا تھا، ان میں بہار کی 5 نشستیں، مہاراشٹر کی 17 نشستیں، راجستھان کی 13 نشستیں، اترپردیش کی 13 نشستیں، اوڈیسا کی 6 نشستیں، مدھیہ پردیش کی 6 نشستیں، مغربی بنگال کی 8، جھارکھنڈ کی 3 اور بھارت کے زیر تسلط کشمیر کی ایک نشست شامل تھی۔

اس مرحلے سے متعلق کہا جارہا تھا کہ اس میں بھارتی وزیر اعظم کی جماعت کو بڑے ٹیسٹ کا سامنا تھا کیونکہ 2014 کے انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور ان کے اتحادیوں کے ان 72 نشستوں میں سے 56 پر کامیابی حاصل کی تھیں اور یہی ان کے اقتدار میں آنے کی وجہ بنی تھی۔

مزید پڑھیں: بھارتی انتخابات: پرتشدد واقعات میں 3 افراد ہلاک، دھماکا خیز مواد بھی برآمد

بھارت میں ہونے والے انتخابات کے اس مرحلے کو اس لیے بھی زیادہ اہمیت حاصل تھی کیونکہ اس میں وہاں کے سب سے بڑے شہر ممبئی میں بھی انتخابات ہورہے تھے، جس میں بھارت کے کچھ امیر ترین خاندان، بالی وڈ اسٹاز اور دیگر بھی اپنا ووٹ کاسٹ کیا تھا۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے ووٹنگ کے آغاز سے قبل سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ٹوئٹ بھی کیا تھا، جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ عام انتخابات کا ایک اور مرحلہ آج سے شروع ہورہا، مجھے اُمید ہے کہ آج یہ ووٹنگ بڑی تعداد میں ہوگی اور وہ گزشتہ 3 مرحلوں کی ووٹنگ کا ریکارڈ توڑ دے گی۔

بھارتی وزیر اعظم نے نوجوانوں سے خصوصی اپیل کی کہ وہ پولنگ بوتھ پر جائیں اور اپنا ووٹ کاسٹ کریں۔


انتخابات کا پانچواں مرحلہ

بھارتی لوک سبھا (ایوان زیریں) کے 17 ویں انتخابات کے پانچویں مرحلے میں 6 مئی 2019 کو 7 ریاستوں کی 51 نشستوں پر پولنگ ہوئی، جہاں 8 کروڑ 70 لاکھ سے زائد افراد نے اپنا حق رائے دہی استعمال کرنا تھا۔

بھارتی انتخابات کے پانچویں مرحلے میں جن ریاستوں میں پولنگ ہوئی، ان میں بہار، مقبوضہ کشمیر، جھاڑکھنڈ، مدھیہ پردیش، راجستھان، اترپردیش اور مغربی بنگال شامل تھے۔

پانچویں مرحلے میں سونیا گاندھی کے حلقے رائے بریلی، بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ کے حلقے لکھنو، امیتھی میں اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی اور سارن میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے راجیو پرتاب کی نشست پر بھی ووٹنگ ہوئی تھی۔

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے پولنگ کا آغاز ہوتے ہی سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری کیے گئے پیغام میں کہا تھا کہ ’لوک سبھا کے انتخابات 2019 کے پانچویں مرحلے میں ووٹنگ کرنے والے افراد سے درخواست ہے کہ وہ بڑی تعداد میں ووٹ دیں‘۔

انہوں نے کہا تھا کہ ’ایک ووٹ ہماری جمہوریت کو مضبوط بنانے اور بھارت کے بہتر مستقبل میں کردار ادا کرنے کا موثر ترین طریقہ ہے‘۔

خیال رہے کہ 3 مئی کو راہول گاندھی نے امیتھی سے لگاتار چوتھی مدت کے لیے کامیابی حاصل کرنے کے لیے عوام کے نام ایک جذباتی خط تحریر کیا تھا، جس میں لکھا تھا کہ ’خاندان کے اس فرد کو واپس لانے کے لیے بڑی تعداد میں ووٹ دیں‘۔

بھارتیہ جنتا پارٹی نے راہول گاندھی کے مقابلے پر وزیر اور سابق ٹی وی اداکارہ سمرتی ایرانی کو نامزد کیا تھا۔


انتخابات کا چھٹا مرحلہ

12 مئی 2019 کو بھارت میں لوک سبھا (ایوان زیریں) کے 17 ویں انتخابات کے چھٹے مرحلے میں دارالحکومت دہلی اور 6 ریاستوں کی 59 نشستوں پر پولنگ ہوئی، جہاں 10 کروڑ 17 لاکھ سے زائد افراد نے اپنا حق رائے دہی استعمال کرنا تھا۔

چھٹے مرحلے کے اختتام کے ساتھ ہی لوک سبھا کی 543 نشستوں میں سے 483 پر ووٹنگ کا عمل مکمل ہوگیا جس کے بعد دیگر 60 نشستوں پر انتخابات کا ساتواں اور آخری مرحلہ 19 مئی کو منعقد ہوا۔

انتخابات کے چھٹے مرحلے میں بھارتی دارالحکومت دہلی کے ساتھ ساتھ جن ریاستوں میں پولنگ ہوئی، ان میں بہار، ہریانہ، جھار کھنڈ، مدھیہ پردیش، اتر پردیش اور مغربی بنگال شامل تھے، اس مرحلے میں دہلی کی 7، اترپردیش کی 14، ہریانہ کی 10، بہار، مدھیہ پردیش اور مغربی بنگال کی 8 اور جھاڑ کھنڈ کی 4 نشستوں پر پولنگ ہوئی تھی۔

اگلے وزیر اعظم کے لیے نریندر مودی اور راہول گاندھی کے درمیان مقابلہ تھا—فائل فوٹو: سی این این
اگلے وزیر اعظم کے لیے نریندر مودی اور راہول گاندھی کے درمیان مقابلہ تھا—فائل فوٹو: سی این این

اس مرحلے میں بھارتی ریاست اتر پردیش کے علاقوں پھول پور اور گورکھ پور کی نشستوں پر مقابلہ اہمیت کا حامل تھا، جہاں بی جے پی کی حکومت کے باوجود گزشتہ برس ہونے والے ضمنی انتخابات میں بہوجن سماج پارٹی نے کامیابی حاصل کی تھی۔

دارالحکومت دہلی میں بی جے پی، عام آدمی پارٹی اور کانگریس کے درمیان کانٹے کے مقابلے کی توقع کی جارہی تھی، جس میں سابق وزیر اعلیٰ شیلا ڈکشت، یونین منسٹر ہرش وردن، سابق اولمپیئن باکسر وجیندر سنگھ اور سابق کرکٹر گوتم گھمبیر بھی مدمقابل تھے۔

دہلی میں ناخوشگوار واقعات کے پیش نظر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے اور اس موقع پر پیراملٹری فورسز سمیت مجموعی طور پر 60 ہزار اہلکار تعینات کیے گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت کے پہلے انتخابات سے مسلسل ووٹ ڈالنے والے 102 سالہ سرن نیگی

دوسری جانب مغربی بنگال میں ترینامول کانگریس، بھارتیہ جنتا پارٹی، کانگریس اور لیفٹ فرنٹ جماعت کے درمیان سخت مقابلے کی توقع کی جارہی تھی، جہاں 15 ہزار 4 سو 28 پولنگ اسٹیشنز پر سیکیورٹی کے تمام انتظامات مرکزی پیراملٹری فورسز نے سنبھالے ہوئے تھے۔

چھٹے مرحلے میں 59 نشستوں پر جاری ووٹنگ کے ساتھ ساتھ تری پورہ میں 168 پولنگ اسٹیشنز پر دوبارہ پولنگ ہوئی تھی جہاں بھارتی الیکشن کمیشن نے 11 اپریل کو پہلے مرحلے میں ووٹنگ کے دوران شکایات کے باعث دوبارہ پولنگ کا حکم دیا تھا۔


انتخابات کا ساتواں اور آخری مرحلہ

بھارت میں انتخابات کا ساتواں اور آخری مرحلہ 19 مئی 2019 کو مکمل ہوا تھا، جس میں حکمراں بی جے پی کے سربراہ اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے حلقے سمیت 59 نشستوں پر پولنگ ہوئی تھی، ان حلقوں میں 10 کروڑ سے زائد رجسٹرڈ ووٹرز تھے۔

انتخابات کے ساتویں مرحلے میں پنجاب، اترپردیش، مغربی بنگال، بہار، مدھیہ پردیش، ہیماچل پردیش، جھارکھنڈ اور چندی گڑھ میں پولنگ ہوئی، جہاں 918 سے زائد امیداور مد مقابل تھے۔

بی جے پی کے لیے یہ مرحلہ انتہائی اہمیت کا حامل قرار دیا جارہا تھا، 2014 کے انتخابات میں بی جے پی نے ان نشستوں میں سے 30 پر کامیابی حاصل کرکے اقتدار کی راہ ہموار کی تھی۔

بی جے پی کو اترپردیش میں گرینڈ الائنس کا سامنا تھا جبکہ بہار میں اس کے مقابلے پر راشٹریا جناتا دل، پنجاب میں کانگریس اور مغربی بنگال میں ترینامول کانگریس اہم حریف تھے۔

آخری مرحلے میں وارانسی میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے حلقے میں بھی ووٹنگ ہوئی جہاں کانگریس کے اجے رائے اور گرینڈ الائنس کی شالینی یادو ان کے مدمقابل تھے۔

یاد رہے کہ نریندر مودی نے 2014 کے انتخابات میں وارانسی سے 37 لاکھ ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کی تھی۔

اسی طرح گورکھ پور میں بی جے پی کا مکمل اثر و رسوخ تھا تاہم ریاست میں سماجوادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) اور راشٹریا لوک سبھا (آر ایل ڈی) کے گرینڈ الائنس نے گزشتہ برس ریاستی انتخابات میں حکمراں جماعت کو شکست دی تھی۔

پنجاب کے شہر گرداس پور میں بھارتی اداکار سنی دیول بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی جانب سے انتخاب لڑرہے تھے جبکہ کانگریس کے سنیل جاکھر ان کے مدمقابل تھے۔

آخری مرحلے میں پنجاب کے شہر امرتسر کا حلقہ بھی اہم تصور کیا جارہا تھا، جہاں کانگریس نے اس وقت کامیابی حاصل کی تھی جب 2014 میں اس حلقے سے نریندر مودی کی جیت کا امکان ظاہر کیا جارہا تھا، اس کے علاوہ امرتسر میں کانگریس کے گرجیت سنگھ اور بی جے پی کے ہردیپ سنگھ پوری مدمقابل تھے۔



ووٹوں کی گنتی اور نتائج

انتخابات سے قبل سروے کے نتائج کے مطابق بی جے پی کو تنزلی کا سامنا تھا اور متوقع طور پر وہ حکومت تشکیل دینے کے لیے مطلوبہ 272 نشستیں حاصل کرنے میں ناکام ہوسکتی تھی۔

انگریزوں سے 1947 میں آزادی حاصل کرنے کے بعد کانگریس نے بھارت میں سب سے زیادہ حکومت کی اور اب راہول گاندھی نے اپنی مہم نے مودی کو خوب للکارا اور دسمبر میں منعقدہ انتخابات میں بی جے پی کو حیران کن ناکامیوں سے دوچار کیا۔

راہول گاندھی نے اپنی مہم کے دوران مودی کے معاشی منصوبوں پر شدید تنقید کی اور عوام کو یقین دلایا کہ کانگریس کو حکومت مل گئی تو وزیراعظم کی تمام ناکامیوں کا ازالہ کرتے ہوئے کسانوں کو مراعات دی جائیں گی اور روزگار کئے مواقع پیدا کیے جائیں گے۔

اس مرتبہ خیال کیا جا رہا تھا کہ ووٹرز کا ٹرن آؤٹ ماضی کے مقابلے زیادہ رہے گا اور اس مرتبہ زیادہ سے زیادہ لوگ ووٹ کاسٹ کریں گے، گزشتہ انتخابات میں 80 کروڑ کے لگ بھگ ووٹرز میں سے 20 کروڑ سے زائد ووٹرز نے ووٹ کاسٹ ہی نہیں کیا تھا۔

مزید پڑھیں: ایگزٹ پولز: نریندر مودی کے دوبارہ اقتدار میں آنے کا امکان

گزشتہ انتخابات میں ووٹ نہ دینے والے افراد مجموعی طور پر حکومت بنانے والی پارٹی بی جے پی کو ووٹ دینے والے افراد سے بھی زیادہ تھے، بی جے پی نے 17 کروڑ سے زائد ووٹ حاصل کیے تھے جب کہ کانگریس محض 10 کروڑ ووٹ ہی حاصل کر پائی تھی۔

بھارت میں ہونے والے انتخابات 2019 کے ووٹوں کی گنتی کا عمل 23 مئی کو شروع ہوا اور اسی روز نتائج کا اعلان کرتے ہوئے بی جے پی یا کانگریس کی کامیابی کا اعلان کردیا گیا۔

انتخابات سے قبل ایک سروے کی رپورٹ میں بی جے پی کی شہرت میں کمی کا دعویٰ کیا گیا تھا — فائل فوٹو:رائٹرز
انتخابات سے قبل ایک سروے کی رپورٹ میں بی جے پی کی شہرت میں کمی کا دعویٰ کیا گیا تھا — فائل فوٹو:رائٹرز

بھارتی انتخابات کے آغاز کے موقع پر ایک دلچسپ صورت حال اس وقت پیدا ہوئی تھی جب پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے بھارتی انتخابات میں نریندر مودی کی قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی کامیابی کے لیے ’خواہش‘ کا اظہار کیا تھا، جس کے بعد ملک کی اہم اپوزیشن جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے حکومت سے وزیر اعظم عمران خان کے اس حالیہ انٹرویو پر وضاحت طلب کی تھی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پیپلز پارٹی کی مرکزی سیکریٹری اطلاعات اور ایم این اے ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے ایک بیان میں وزیر اعظم کے بیان کو وزیر خارجہ شاہ محمود کے بیان کے متضاد قرار دیا تھا، جس میں وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ نئی دہلی، پاکستان کے خلاف مزید فوجی کارروائی کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔

پی پی پی رہنما نے کہا تھا کہ ’ایسا لگتا ہے کہ عمران خان نریندر مودی کے انتخابی ایجنٹ بن گئے ہیں اور قوم جاننا چاہتی ہے کہ کیوں عمران خان نریندر مودی سے ملاقات کے لیے بیتاب ہیں‘۔


نتائج

بھارتی الیکشن کمیشن کے حتمی نتائج کے مطابق بھارتیہ جنتا پارٹی نے لوک سبھا کی 542 نشستوں میں سے 303 پر کامیابی حاصل کرلی، یہ اس کی گزشتہ انتخابات سے بھی بڑی کامیابی ہے۔

بھارت میں حکومت بنانے کے لیے کسی بھی جماعت کو 272 نشستیں درکار ہوتی ہیں اور بی جے پی نے انفرادی طور پر مطلوبہ تعداد سے زیادہ حاصل کیں، یوں وہ تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئی۔

1984 کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب بی جے پی نے ایوان زیریں کے انتخابات میں اکثریت حاصل کی، بی جے پی کی قیادت میں نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) نے کُل 350 نشستیں حاصل کیں۔

بھارت کی مرکزی اپوزیشن جماعت کانگریس 52 نشستوں پر کامیابی حاصل کرکے دوسرے نمبر پر رہی، 2014 میں اس نے 44 سیٹیں جیتی تھیں اور کانگریس کی قیادت میں یونائیٹڈ پروگریسیو الائنس (یو پی اے) مجموعی طور پر 82 حاصل کر سکا۔

کانگریس کے صدر اور وزیر اعظم کے امیدوار راہول گاندھی کو اترپردیش کے حلقے امیٹھی سے اپنی ہی جیتی ہوئی نشست پر بی جے پی کی سمرتی ایرانی کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا، تاہم وہ جنوبی ریاست کیرالا سے جیتنے میں کامیاب رہے۔

انتخابات میں کامیابی کے بعد نریندر مودی نے نئی دہلی میں بی جے پی کے مرکزی دفتر پر حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے پارٹی کی شاندار کامیابی پر سب کو مبارکباد دی اور انتہائی گرم موسم میں ووٹ ڈالنے والوں کا بھی شکریہ ادا کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ انتخابات میں پارٹی کی شاندار کارکردگی کے بعد بھارت کے سیاسی پنڈتوں کو اپنی 20وی صدی کی سوچ میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے‘، ان کا مزید کہنا تھا کہ 'انتخابی امیدوار سیکولرازم کا لبادہ اوڑھ کر لوگوں کو بیوقوف نہیں بنا سکتے۔

بھارتی وزیر اعظم کو انتخابات میں کامیابی پر جہاں ان کے پاکستانی ہم منصب عمران خان کی طرف سے مبارکباد دی گئی تو وہیں دیگر عالمی رہنماؤں نے انہیں نیک خواہشات کے پیغامات بھیجے۔

بعد ازاں بھارت کی اپوزیشن جماعت انڈین نیشنل کانگریس کے سربراہ راہول گاندھی کے پارٹی صدارت سے مستعفی ہونے کی اطلاعات سامنے آئیں تاہم پارٹی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ استعفے کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں۔

علاوہ ازیں ایسوسی ایشن آف ڈیموکریٹک ریفارمز (اے ڈی آر) نے ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ بھارت کی نئی پارلیمنٹ کے 40 فیصد سے زائد قانون ساز ریپ اور قتل سمیت کئی مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ انتخابی نشستوں پر کامیاب ہونے والے 543 اراکین میں سے کم از کم 233 افراد پر مجرمانہ اقدامات کے مقدمات درج ہیں۔

اس میں مزید بتایا گیا کہ جیتنے والے 539 افراد کے ریکارڈز کی تحقیق سے معلوم ہوا کہ مجرمانہ کیسز کا سامنا کرنے والے افراد کی تعداد 2004 سے اب تک سب سے زیادہ رہی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی کامیاب ہونے والی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے 303 قانون سازوں میں سے 116 مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں جبکہ ایک پر دہشت گردی کے مقدمات بھی درج ہیں۔

کانگریس کے 52 اراکین پارلیمنٹ میں سے 29 پر مقدمات درج ہیں جبکہ کیرالا ریاست سے جیتنے والے قانون ساز دین کوریاکوس پر تنہا 204 مقدمات درج ہیں۔

اے ڈی آر کا کہنا تھا کہ مقدمات کا سامنا کرنے والے قانون سازوں کی تعداد گزشتہ ایک دہائی میں دگنی ہوئی ہے جن میں سے 11 پر قتل، 30 پر گلے کاٹنا اور 3 پر ریپ کا الزام ہے۔

یاد رہے کہ بھارتی قانون کے مطابق 2 سال یا اس سے زائد کی سزا پانے والے مجرمان پر انتخابات میں حصہ لینے کی پابندی ہے، تاہم چند جرائم میں اس سے استثنیٰ بھی حاصل ہے۔

گزشتہ حکومت کے 185 قانون سازوں میں سے، جنہیں مختلف مقدمات کا سامنا تھا، کسی کو بھی سزا نہیں سنائی گئی جبکہ کئی واپس پارلیمنٹ میں آگئے ہیں۔



لوک سبھا کے اب تک ہونے والے انتخابات

بھارت کے ایوان زیریں کے پہلے انتخابات اپریل 1952 سے مئی 1952 تک جاری رہے اور پہلے انتخابات میں انڈین نیشنل کانگریس (آئی این سی) نے کامیابی حاصل کی اور جواہر لال نہرو وزیر اعظم منتخب ہوئے۔

دوسرے انتخابات بھی ٹھیک 5 سال بعد ان ہی مہینوں میں 1957 میں ہوئے اور ایک مرتبہ پھر کانگریس نے کامیابی حاصل کی اور جواہر لال ایک مرتبہ پھر وزیر اعظم بنے۔

لوک سبھا کے تیسرے انتخابات 5 سال بعد مئی اور اپریل 1962 میں ہوئے اور ایک مرتبہ پھر کانگریس کو فتح حاصل ہوئی اور جواہر لال نہرو وزیر اعظم بنے، تاہم 1964 میں ان کی موت کے بعد گلزاری لال نندا نگراں وزیر اعظم بنے، وہ نہرو کی حکومت میں وفاقی وزیر تھے۔

بعد ازاں گلزاری لال نندا کو کانگریس کی قیادت نے جون 1964 میں ہٹا کر لال بہادر شاستری کو وزیر اعظم بنایا، تاہم وہ بھی 1966 میں چل بسے اور ایک مرتبہ پھر کانگریس قیادت نے گلزاری لال نندا کو وزارت عظمیٰ کی ذمہ داری سونپی گئی۔

مزید پڑھیں: بھارتی انتخابات: پریانکا گاندھی کا نریندر مودی کے خلاف انتخاب لڑنے کا عندیہ

چوتھے انتخابات مارچ اور اپریل 1967 میں منعقد ہوئے اور اس مرتبہ کانگریس کو کئی سیٹوں سے ہاتھ دھونا پڑا لیکن پھر بھی وہ اتحادی جماعتوں کی مدد سے حکومت بنانے میں کامیاب گئی اور ستیا نارائن سنہا وزیر اعظم بنے۔

پانچویں لوک سبھا کے انتخابات مارچ اور اپریل 1971 میں ہوئے اور اس مرتبہ اندرا گاندھی نے کانگریس کی کھوئی ہوئی مقبولیت کو پھر سے حاصل کیا اور اکثریت سے مضبوط وزیر اعظم بنیں، وہ بھارت کی پہلی اور اب تک کی واحد خاتون وزیر اعظم بھی ہیں۔

لوک سبھا کے چھٹے انتخابات مارچ اور اپریل 1977 میں ایک ایسے وقت میں ہوئے جب وزیر اعظم اندرا گاندھی نے 1975 میں سول ایمرجنسی نافذ کر رکھی تھی اور ان کی پارٹی بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی، انتخابات کے دوران ان کی پارٹی سے ہی جدا ہونے والے مرار جی ڈیسائی جنتا پارٹی کے تحت وزیر اعظم بنے، تاہم انہوں نے پارٹی کی خواہش پر 1979 میں وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ دیا اور بعد میں چرن سنگھ وزیر اعظم بنے۔

لوک سبھا کے ساتویں انتخابات 1980 میں کرائے گئے اور اندرا گاندھی دوسری مدت کے لیے وزیر اعظم بنیں، تاہم اکتوبر 1984 میں انہیں قتل کردیا گیا اور ان کی ہلاکت کے بعد ان کے بیٹے راجیو گاندھی نے وزارت عظمیٰ کا قلمدان سنبھالا۔

لوک سبھا کے آٹھویں انتخابات دسمبر 1984 میں کرائے گئے اور ایک مرتبہ پھر کانگریس کی جیت ہوئی اور راجیو گاندھی وزیر اعظم بنے۔

نویں لوک سبھا انتخابات 1989 میں کرائے گئے اور ان میں بھی کانگریس کو کامیابی ملی اور راجیو گاندھی ایک بار پھر وزیر اعظم بنے، تاہم اسی سال انہیں برطرف ہونا پڑا اور وشوناتھ پرتاب سنگھ وزیر اعظم بنے۔

لوک سبھا کے دسویں انتخابات 1991 میں ہوئے اور انتخابی مہم کے دوران راجیو گاندھی کو ایک خود کش حملے میں قتل کردیا گیا، انہیں ووٹ کاسٹ کرنے کے ایک دن بعد قتل کیا گیا تاہم الیکشن ملتوی نہیں ہوئے اور ملکی حالات کو خراب ہونے سے بچانے کے لیے کانگریس اور جنتا دل پارٹی نے کمزور اتحادی حکومت بنائی اور چندر شیکھر وزیر اعظم بنائے گئے۔

چندر شیکھر کے بعد کچھ دنوں کے لیے ارجن سنگھ کو وزیر اعظم بنایا گیا اور بعد ازاں نرسمہا راؤ کو جون 1991 میں وزیر اعظم بنایا گیا اور وہ گاندھی خاندان کے بعد پہلے وزیر اعظم تھے جنہوں نے اپنی آئینی مدت پوری کی اور وہ 1996 تک وزارت عظمیٰ کے عہدے پر رہے، ان کی دور حکومت میں بابری مسجد کو شہید کرنے کا سانحہ بھی پیش آیا۔

لوک سبھا کے 11 ویں انتخابات 1996 کو ہوئے اور ایک مرتبہ پھر پہلے نرسمہا راؤ وزیر اعظم منتخب ہوئے، جس کے بعد رام ولاس پاسوان اور بعد ازاں اٹل بہاری واجپائی وزیر اعظم بنے۔

یہ بھی پڑھیں: بھارتی انتخابات: گوگل اشتہار پر کروڑوں روپے خرچ، مودی کا دوسرا نمبر

اٹل بہاری واجپائی کو بھی جون کے بعد ہٹا دیا گیا اور ایچ بھی دیوے گوڑا کو وزیر اعظم بنایا گیا، ان کے وزیر اعظم بننے کو بھارتی سیاست میں معجزاتی وزیر اعظم بھی کہا جاتا ہے۔

ایچ بی دیوے گوڑا کے بعد 1997 میں اندر کمار (آئی کے) گجرال بھارت کے وزیر اعظم بنے اور وہ 1998 تک اس عہدے پر براجمان رہے۔

بارہویں لوک سبھا انتخابات 1998 میں ہوئے اور بھارتی جنتا پارٹی کے اٹل بہاری واجپائی وزیر اعظم بنے۔

لوک سبھا کے تیرہویں انتخابات اکتوبر 1999 میں ہوئے اور ایک مرتبہ پھر اٹل بہاری واجپائی وزیر اعظم بنے۔

لوک سبھا کے 14 ویں انتخابات 2004 میں ہوئے، جس میں کانگریس نے کامیابی حاصل کی اور من موہن سنگھ وزیر اعظم بنے۔

لوک سبھا کے 15 ویں انتخابات 2009 میں ہوئے اور ایک مرتبہ پھر من موہن سنگھ وزیر اعظم بنے۔

لوک سبھا کے 16 ویں انتخابات 2014 میں ہوئے اور حیران کن طور پر بی جے پی نے اکثریت حاصل کی اور نریندر مودی پہلی مرتبہ وزیر اعظم بنے۔

لوک سبھا کے 17 ویں انتخابات 11 اپریل سے 19 مئی 2019 تک جاری رہیں گے، 23 مئی کو ووٹوں کی گنتی ہوگی اور جون میں نئی حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔

نوٹ: رپورٹ کا یہ حصہ ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی کی 11 اپریل 2019 کو شائع ہونے والی خبر سے شامل کیا گیا ہے۔