کہ یہاں پانی ایک خُوبصورت سپنا ہے!
اس دھرتی پر ہر سانس لینے والے وجود میں درد اور تکلیف کی کیفیت ہر صورت اپنی جگہ ڈھونڈ ہی لیتی ہے۔ اس لیے کہتے ہیں کہ، زندگی تلخ و شیریں کے اکٹھے بہاؤ کا نام ہے۔ وہ ساتھ ساتھ چلتے ہیں، بس ایک نظر نہ آنے والی پَرت اُن کو ایک دوسرے سے جُدا رکھتی ہے۔
کہا یہ بھی جاتا ہے کہ رات کے بعد دن آتا ہے، اماوس کی تارکی کے بعد چاندنی اپنے ساتھ سفید روشنی لاتی ہے۔ تیز گرم دھوپ کے بعد جاڑوں کا ٹھنڈا موسم آتا ہے۔ سوکھے کے بعد گھنگور گھٹائیں چھا جاتی ہیں۔ صبح کے بعد شام آتی ہے۔ آنسوؤں کے بعد ہونٹوں پر مسکان آ ہی جاتی ہے۔ دُکھ کے بعد سُکھ آتے ہیں مگر میں آج آپ کو جن پگڈنڈیوں پر اپنے ساتھ لے کر جا رہا ہوں وہاں دن رات، اُماوس چاندنی، گرمیوں کے بعد جاڑے کا موسم تو ضرور آتا ہے۔ مگر، دُکھ کے بعد سُکھ اور آنسوؤں کے بعد ہونٹوں پر مُسکان نہیں آتی۔
اِن دنوں میں آپ اگر کیٹی بندر سے بدین تک کی ساحلی پٹی کا سفر کریں، تو ان 100 کلومیٹر کے سمندری بیلٹ کی ایک ہی کہانی ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ ان 100 کلومیٹر کے منظرنامے میں کوئی بڑی تبدیلی بھی آئے گی۔ جاڑوں کے بعد اور بارشوں سے پہلے جب یہاں پانی کی شدید قلت ہوتی ہے اور مٹی کے شدید طوفان اُٹھتے ہیں تو لاکھوں خاندان اور ہزاروں گاؤں اس کی لپیٹ میں آتے ہیں۔
مجھے نہیں لگتا کہ، اس لینڈ اسکیپ سے الگ رہنے والا، کوئی اِن دِنوں کا تصور بھی کرسکتا ہے۔ آپ اِس ساحلی پٹی میں دن کے 11 بجے کے بعد سفر نہیں کرسکتے کیونکہ 11 کے بعد یہاں مٹی کے طوفان اُٹھتے ہیں۔ جن کی وجہ سے، نہ تو کچھ نظر آتا ہے نہ ہی آپ کھل کر سانس لے سکتے ہیں اور 4 فٹ سے آگے آپ کو راستہ بھی نظر نہیں آتا۔ ایسے دنوں میں وہاں روکھا سوکھا دوپہر کے وقت کھانا بھی نہیں بن سکتا مگر لوگ وہاں جیتے ہیں۔ ہزاروں خاندان اپنی حیات وہاں گذارتے ہیں۔
میں جب سجاول سے جنوب میں ساحلی پٹی کے چھوٹے سے شہر جاتی پہنچا تو سورج ابھی دن کے سفر کے لیے نکلا نہیں تھا۔ بس ہلکی سرخی تھی جو اُس کی آمد کا اعلان کرتی تھی۔ سمندر کی ٹھنڈی اور سمندری بخارات سے بھری ہوا اپنے پروں میں فرحت لیے چھوٹے سے شہر کی گلیوں میں گھومتی تھی۔ چائے کی ہوٹلیں تھیں اور ناشتے کے لیے دال پکوان تھے۔ سُوجی سے بنا حلوہ تھا جس میں چینی کی مٹھاس گھُلتی تھی اور اُس سے ہلکی بھاپ اُٹھتی اور ہوا کے جھونکے کے ساتھ اپنی خوشبو لیے دور تک چلی جاتی۔ لوگ پلاسٹک کی کرسیوں اور لکڑی کی بنی بینچوں پر بیٹھے حلوہ کھاتے۔ پکوان چباتے۔ پھر چائے پیتے اور ساتھ میں سگریٹ کے گہرے کش لیتے اور اس گہرائی سے لیتے کہ، نشہ دیکھنے والے کو بھی ہونے لگتا۔ جو سگریٹ نہیں پیتے وہ چائے کہ بعد گٹکہ منہ میں رکھتے۔ مجھے نہیں پتہ کہ اس کا کیسا ذائقہ ہوتا ہوگا مگر یہاں کے لوگ اس کو کھاتے ہیں اور بہت زیادہ کھاتے ہیں کہ زندگی ایک بار ملی ہے اس کو برباد کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑنی چاہیے!
کہتے ہیں کہ ایک زمانے میں، یعنی آج سے 30 سے 32 برس پہلے جب اس شہر کے اطراف میں بڑی اور چھوٹی جھیلیں تھیں، اور بہت تھیں، تب یہ چھوٹا سا شہر لوگوں سے بھرا رہتا اور خوب آمدنی ہوتی۔ مگر جب سے ساحلی پٹی میں گزشتہ 20 سے 25 برسوں سے پانی کی کمی ہوئی ہے تب سے اس شہر کا عجیب حال ہے۔ یا تو اب یہ شہر لوگوں کو نہیں بُلاتا یا لوگ مجبوری کی وجہ سے بُلانے پر بھی نہیں آتے۔
میں شہر سے نِکلا تو خاموشی بھی میرے ساتھ نکل پڑی۔ ویران اور خشک زمین تھی جو حدِ نظر تک بچھی تھی۔ کہیں کہیں دیوی کا خاردار درخت تھا جو صبح کی ٹھنڈی ہوا میں جُھولتا اچھا لگتا تھا۔ گاؤں کی طرف جاتی ہوئی چھوٹی چھوٹی نہریں تھیں مگر نہروں میں پانی نہیں تھا۔ پکے راستے فقط چھوٹے چھوٹے شہروں تک جاتے ہیں اس لیے چھوٹی بستیوں تک کچے راستے اور پگڈنڈیاں جاتی ہیں۔ ہم ایسے کچے راستوں سے ’جڑیو بوھریو‘ کے گاؤں پہنچے۔ میں 3 برس پہلے بھی اس گاؤ میں آیا تھا۔ سوچا تھا 3 برس بہت ہوتے ہیں۔ کچھ نہ کچھ تو ضرور تبدیل ہوا ہوگا۔
تاہم حالات اور بدتر ہوگئے تھے۔ پہلے بھی پانی کا مسئلہ تھا اور اب بھی پانی ناپید ہے۔ پہلے بھی کھیتی باڑی کے لیے پانی نہیں تھا اَب بھی نہیں ہے۔ پہلے مرد شہر میں مزدوری کے لیے جاتے تھے اَب بھی جاتے ہیں۔ بس صورتحال میں تھوڑا فرق یہ آگیا ہے کہ، مزدوری نہیں بڑھی۔ مہنگائی ضرور بڑھ گئی ہے۔ ان دنوں میں ماش کی دال 80 روپے کی ایک کلو آتی تھی۔ اب 150 روپے کی آتی ہے۔ تب چاول کا آٹا 30 روپے کلو اور اب 45 روپے کلو آتا ہے۔ دوائیں دوگنی مہنگی ہوگئی ہیں۔ دودھ، چینی اور چائے کی پتی کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے۔
میں نے جب نہ چاہنے کے باوجود بھی پوچھا کہ، ’اور کیسی گزر رہی ہے؟‘
اس عام سوال پر، قزبانو نے ایک گہری سانس لی۔ یہ گہری سانس لینا ایک غیر دانستہ عمل ہوتا ہے جو آپ کے اندر چھُپی ہوئی کیفیتوں کا اظہار کرتا ہے، اور یہاں جو، نمک کی ڈلی کی طرح گھُلتی زندگی ہے جس میں کڑواہٹ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ یہ گہری سانس اُس مجبوری کی عکاسی کرتی ہے۔ جواب وہ ہی آیا جو تقریباً 3 برس پہلے مجھے ملا تھا، ’بس گزر رہی ہے۔ اب تو آٹا بھی 50 روپے کلو ہوگیا ہے۔ کیا کریں جینا تو ہے۔ بس شکر ہے اللہ کا۔ کچھ گزر گئی ہے کچھ گزر جائے گی۔‘
یہ محض منہ سے نکلے الفاظ نہیں تھے بلکہ یہ دہکتے ہوئے انگارے تھے جن میں مجبوری اور بے بسی کی سُرخ آگ دہکتی تھی۔ میں مانتا ہوں کہ انسان میں برداشت کی بہت گنجائش ہے مگر ان حالات میں رہنے کے لیے فولاد کا نروس سسٹم چاہیے۔ ہم جیسے لوگ تو ایک ماہ کیا ایک ہفتہ نہیں گزار سکتے ان کٹھن حالات میں، مگر یہ لوگ جیے جاتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر خوش بھی ہوجاتے ہیں۔ کبھی کچھ حقائق چاہنے کے باوجود بھی آپ کو سمجھ میں نہیں آتے۔ یہاں بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے کہ آخر وہ کون سی انرجی ہے جو ان لوگوں کو حیات کا سُریلا گیت سُناتی ہے اور یہ جیے جاتے ہیں!
مہنگائی اور زندگی کا دکھڑا رونے کے بعد بچاری قزبانو نے ایک اور ٹھنڈی سانس بھری اور پانی کے لیے پلاسٹک کی ڈمی اُٹھالی کہ پینے کا پانی لانے کے لیے اُسے 2 کلومیٹر دور جانا پڑے گا اور جب وہ واپس پہنچے گی تو 4 کلومیٹر کا پیدل سفر اس دُھوپ میں کرچکی ہوگی۔ یہ کبھی کبھار کا نہیں روز کا کام ہے۔
آپ جاتی سے اگر مغرب کی طرف یعنی کیٹی بندر کی طرف جائیں گے تو زمین کا منظرنامہ میدانی علاقے والا نہیں رہے گا کیونکہ جاتی سے مغرب کی طرف علاقہ ایکٹو ڈیلٹا کی زمین ہے اسلئے وہاں کی جو معروضی حالات الگ ہیں۔آپ اگر جاتی سے مشرق یعنی بدین کی طرف سفر کرنا شروع کریں تو میدانی علاقے کی وسعت بڑھتی جائے گی۔ میدانی علاقے کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ، مئی، جون اور جولائی میں مغرب اور جنوبی کونے سے تیز ہوائیں چلتی ہیں اور ان ہواؤں کی وجہ سے دن کے 11 بجے سے تیز ہوا کے ساتھ مٹی اُڑنا شروع کرتی ہے اور اس ہوا کا اثر میرپورخاص تک ہوتا ہے۔
دن کے 11 بجے کے بعد اس لیے کہ مٹی پر رات کی سمندری بخارات کی وجہ سے پانی کی ایک ہلکی پرت بچھ جاتی ہے جس سے مٹی گیلی ہوجاتی ہے مگر جیسے دھوپ بڑھتی ہے اور پرت خشک ہو جاتی ہے تو مٹی ہوا کے ساتھ اُڑنے لگتی ہے۔ دن کے 11 بجے سے شام تک یہ مٹی کے بگولے اُٹھتے رہتے ہیں اور اس میدانی پٹی میں ہزاروں خاندان ہیں جو چھوٹی چھوٹی بستیوں میں رہتے ہیں، مطلب یہ کہ ان بگولوں میں زندگی بقائے وجود کی جنگ لڑتی ہے۔
دوسرے دن میرے سفر کی ابتدا اُس ’جھبو‘ (Jubho Lagoon) جھیل سے تھی، جو کسی وقت میں ضلع ٹھٹہ میں تھی اور اب ضلع سجاول میں ہے۔ اپنے زمانے میں یہ بڑی خوبصورت جھیل تھی، تقریباً 1745 ایکڑ پر پھیلی ہوئی تھی اور اسے ’رامسر‘ سائیٹ کا ٹائٹل ملا ہوا ہے۔ سالانہ ہزاروں ٹن مچھلی کا شکار ہوتا اور جاڑوں کے موسم میں ہزاروں پرندے آتے۔ مگر اب کسی بھی موسم میں کوئی پرندہ نہیں آتا۔ جہاں پانی تھا وہاں مٹی ہے اور دن کو جھیل سے مٹی کے طوفان اُٹھتے ہیں۔
جھبو سے آپ مشرق کی طرف بڑھتے جائیں تو آپ کو دوسری رامسر سائیٹ، نریڑی (Nararri Lagoon) ملے گی۔ نریڑی چونکہ انتہائی بڑی جھیل تھی اس لیے اس کا ایک حصہ اب بھی بارشوں کے موسم میں پانی سے بھر جاتا ہے اور جنوری فروری تک مقامی مچھیروں کا گزرسفر ہوجاتا ہے۔ ان کچھ مہینوں کے لیے وہ اس جھیل کے کنارے نہیں چھوڑتے۔ ایک امید پر اتنی سخت زندگی وہاں گزارتے ہیں۔ کیوں گزارتے ہیں اور اتنا شدید انتظار اور وہ بھی ان کٹھن حالات میں کیسے کرپاتے ہیں؟ مگر حقیقت تو بس یہی ہے کہ وہ ایسا کرتے ہیں۔
یہ لوگ جو اپنے گھاس پھوس کے گھروں میں رہتے ہیں، اگر آپ اُن کے شب و روز دیکھیں تو آپ پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ ان کے پاس میٹھے پانی کی بہتی کوئی نہر نہیں ہے۔ اگر ہے بھی تو اُس میں پانی نہیں بہتا۔ اسی لیے وہ زمینوں سے اضافی پانی نکالنے کے لیے بنائے گئے سیم نالوں کے پانی پر گزارا کرتے ہیں، لیکن اکثر ان نالوں میں شگر ملز کے ڈسٹلری یونٹس کا اخراج شامل ہوتا ہے۔ وہ اسی پانی سے برتن دھوتے ہیں اور یہ بات سمجھنے کے لیے یقیناً کوئی عربی فارسی درکار نہیں ہے کہ اس پانی کا استعمال انسانی جلد اور پیٹ کی بیماریوں ممیں مبتلا کردیتا ہے۔
‘پینے کا پانی کہاں سے لاتی ہو؟‘ میں نے ایک بچی سے سوال کیا۔
’احمد راجو سے۔‘ جواب آیا۔
نریڑی کے جس کنارے پر وہ گھاس پھوس کے جھونپڑے تھے وہاں سے مغرب کی طرف 5 کلومیٹر کے فاصلے پر احمد راجو کی درگاہ ہے۔ یہ بچے روز وہاں سے پینے کا پانی لانے جاتے ہیں۔ وہاں جانے کے لیے کوئی راستہ نہیں ہے۔ آئینے میں پڑی دراڑوں جیسی اوبڑ کھابڑ پگڈندیاں ہیں جو کبھی سیدھی نہیں چلتیں۔ یہ بچے ان پگڈنڈیوں پر چل کر پانی بھرنے جاتے ہیں اور اس کا بھی وقت مقرر ہے۔ یا تو صبح 11 بجے تک پانی بھر کر واپس گھر پہنچ جائیں کیونکہ 11 کے بعد مٹی کا طوفان شروع ہوجاتا ہے۔ یا پھر شام 5 بجے کے بعد جب مٹی کا اُڑنا کچھ کم ہوجاتا ہے۔
’پھر دوپہر کا کھانا کیسے پکاتے ہیں آپ؟‘
’ان 3 سے 4 مہینوں میں ہم دوپہر کو کھانا نہیں پکا پاتے کیونکہ ایک تو مٹی زیادہ ہوتی ہے۔ پھر آگ مشکل سے جلتی ہے اور آگ لگنے کا بھی ڈر ہوتا ہے، اس لیے روٹی ہم صبح 10 تک پکا کر رکھ دیتے ہیں۔ اگر کہیں سے آلو وغیرہ مل جاتے ہیں یا کہیں سے مچھلی وغیرہ مل گئی تو اُس کا سالن بھی روٹی کے ساتھ بنا لیتے ہیں۔ پھر جب بھوک لگے تو مٹی سے بچ بچاؤ کرکے کھالیتے ہیں۔‘
پینے کا پانی 5 کلومیٹر سے لانا، روکھی سوکھی وقت سے پہلے پکا لینا، سارا دن مٹی کے طوفانوں کے بیچ میں رہنا۔ نزدیک نہ ہسپتال نہ کوئی سیدھا راستہ۔ مگر زندگی یہاں بھی جیتی ہے کہ اُمیدوں کا دامن مختصر کبھی نہیں ہوتا۔
مچھیروں کی اِس بستی کے بعد میں کچھ نزدیکی بستیوں کی طرف بڑھا۔ جہاں کا گذرسفر زرعی زمینوں پر ہے۔ وہاں بھی صورتحال کچھ زیادہ اچھی نہیں تھی۔ کھیت تھے اور سوکھے ہوئے تھے۔ نہروں کو دیکھ کر احساس ہوا کہ، ایک زمانے سے یہاں پانی نہیں آیا کیونکہ جب نہر میں پڑی سفید ریت ہوا کے جھونکے سے اُڑنے لگے اور کناروں پر اُگی تیز سبز رنگ کی گھاس اپنا رنگ تبدیل کرلے تو سمجھ لینا چاہیے کہ پانی ایک لمبے عرصے سے یہاں سے منہ موڑے ہوئے ہے۔ مگر پیاس یہ سب کچھ نہیں جانتی۔ اس پانی کے حصول کے لیے کنویں کھودے جاتے ہیں کہ پانی حاصل ہو۔
پانی حاصل ہوتا ہے مگر یہ ضروری نہیں کہ آپ جہاں کنواں کھودیں وہاں پر جو پانی ملے وہ میٹھا ہو۔ کڑوا بھی ہو سکتا ہے۔ اس لیے جہاں میٹھا پانی مل جائے تو لوگ اس پر ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہیں۔ اس طرح انسانوں اور مویشیوں کے لیے پینے کے پانی کا مسئلہ وقتی طور پر حل ہوجاتا ہے۔ پھر وہاں سے قرب و جوار کے لوگ میٹھا پانی حاصل کرتے ہیں۔ وہ قرب و جوار ایک کلومیٹر دور بھی ہوسکتا ہے اور 4 کلومیٹر بھی۔ لوگ بیل گاڑیوں پر پانی کے خالی کین لاتے ہیں اور بھر کر اپنے گاؤں لے جاتے ہیں۔ اس سفر میں، میں جہاں بھی گیا، مجھے پانی کی شدید کمی محسوس ہوئی۔ آپ نے بھی ضرور محسوس کی ہوگی۔
ہمارے ہاں اُلٹی گنگا بہتی ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ شہر گاؤں کی وجہ سے ہیں اور یہ شہر ہی ہیں جہاں سب سے زیادہ پانی کا بیدردی سے استعمال ہوتا ہے۔ پانی کے ٹئنکس بھر جاتے ہیں اور پانی بہہ رہا ہوتا ہے۔ پائیٹ لائنیں ٹوٹی ہوئی ہوتی ہیں جن سے لاکھوں گیلن پانی بہہ رہا ہوتا ہے۔ ہاتھ دھونے کے لیے نلکہ کھول دیا جاتا ہے۔ پھر ہاتھوں کو صابن لگایا جاتا ہے، ہاتھوں کو رگڑا جاتا ہے کہ چکن کی چکناہٹ نکل سکے تب تک پانی کا نل کھلا ہوتا ہے اور پانی ضائع ہوتا رہتا ہے۔ روز ایسے کروڑوں اربوں گیلن میٹھا پانی ضایع کرنے والے شہروں میں جب پانی کی کمی ہوتی ہے تو خاص طور پر شہروں کو پانی دینے کے لیے نہریں بنائی جاتی ہیں کہ شہروں کو پانی دیا جاسکے۔ تو کیا جو شہروں سے دور جو بستیاں بستی ہیں اُن کو پینے کا پانی دینے کا ذمہ دار کوئی نہیں ہے؟
کیا خدا کی اس مخلوق کو پینے کا میٹھا اور صاف پانی دینے کا بندوبست نہیں کیا جاسکتا؟
یا ہم کرنا نہیں چاہتے؟
ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (13) بند ہیں