ٹیلی نار، جاز کو لائسنس کی تجدید میں مشکلات سامنا
ہر کسی کو معلوم ہے کہ پاکستان میں موبائل کمپنیوں کے لائسنس کی تجدید کروانا کوئی آسان بات نہیں لیکن کسی کو یہ اندازہ نہیں کہ یہ معاملہ اس قدر بھی پیچیدہ ہوسکتا تھا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ملک کے 2 بڑے موبائل آپریٹر جاز اور ٹیلی نار کے لائسنس کی مدت میعاد 24 مئی کو 15 سال مکمل ہوتے ہی ختم ہوجائے گی جس کی تجدید کا عمل اس قدر طویل اور مشکل ہے کہ دونوں کمپنیاں عدالت میں درخواست دائر کرنے پر مجبور ہوگئیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں استدعا کی گئی کہ ’حکومت کو ایسا کوئی بھی اقدام اٹھانے سے روکا جائے جس سے ان موبائل آپریٹرز کی کاروبار کرنے کی صلاحیت محدود ہو‘۔
عدالت نے اس درخواست پر سماعت 14 مئی کو مقرر کردی جس میں دونوں فریقین کا موقف سنا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے موبائل فون کارڈز پر تمام ٹیکسز بحال کردیے
خیال رہے کہ دونوں کمپنیاں چاہتی ہیں کہ حکومت ڈالر کی اسی قیمت پر لائسنس کی تجدید کرے جس قیمت پر 2004 میں لائسنس دیا گیا تھا، جس وقت اصل نیلامی ہوئی تھی، اور اس وقت اس کی مالیت 29 کروڑ 10 لاکھ ڈالر تھی۔
دوسری جانب حکومت نے لائسنس تجدید کی درخواست کابینہ کے اجلاس میں پیش کی جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ حالیہ سالوں کے دوران اسپیکٹرم کی نیلامی کی روشنی میں لائسنس کی تجدید 45 کروڑ ڈالر میں کی جائے گی۔
تاہم دونوں کمپنیاں اس قیمت کو ٹیلی کام پالیسی اور لائسنس میں موجود متعلقہ شقوں سے چیلنج کرنے کے لیے تیار ہیں جس کے تحت لائسنس کی پہلی تجدید اسی قیمت پر کی جائے گی جس قیمت پر لائسنس حاصل کیا تھا۔
مزید پڑھیں: جاز اور ٹیلی نار کی صارفین کے لیے دلچسپ آفرز متعارف
اس ضمن میں ایک عہدیدار نےکہا کہ جب دونوں کمپنیوں نے یہ دیکھا کہ حکومت لائسنس کی تجدید کے لیے 2 سال قبل جمع کروائی گئی درخواست پر کوئی پیش رفت نہیں کررہی تو عدالتی کارروائی ناگزیر ہوگئی تھی۔
عہدیدار کا کہنا تھا کہ جب تجدید کی پہلی درخواست بھیجی گئی تھی تو حکومت خود اپنے مسائل میں گھری ہوئی تھی جس کے بعد اعلیٰ عہدوں پر اتنی تبدیلیاں ہوچکی ہیں کہ اس درخواست پر مزید کارروائی کے لیے توجہ دینا مشکل ہوگیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’جب سے نئی حکومت نے اقتدار سنبھالا ہے اس وقت سے اب تک کافی وقت گزر چکا ہے اور ہمیں یہ بات واضح نہیں کہ لائسنس تجدید کا یہ عمل کس طرح آگے بڑھے گا‘۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی اے نے اسپیشل کمیونیکیشن آرگنائزیشن کا دائرہ کار بڑھانے کی مخالفت کردی
سابق وزیر خزانہ اسد عمر نے اس معاملے کی جانب توجہ دیتے ہوئے اس پر کارروائی کا آغاز کیا تھا جس میں وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کی شمولیت بھی ضروری ہے لیکن جب انہیں عہدے سے ہٹایا گیا تو دونوں کمپنیاں دوبارہ اسی پوزیشن پر پہنچ گئیں، جہاں پہلے تھیں۔
اب جب کہ لائسنس کی تنسیخ میں چند ہفتے رہ گئے ہیں دونوں کمپنیاں ایسی صورتحال سے دوچار ہیں جہاں ان کے لائسنس کی تجدید نہ ہونے کی صورت میں ان کا کاروبار غیر یقینی کا شکار ہوجائے گا جس کی وجہ سے ان کمپنیوں کی پیرنٹ کمپنیاں اپنے عالمی شراکت داروں کو یہ نوٹس بھجوانے پر مجبور ہو جائیں گی کہ پاکستان میں ان کے آپریٹر کے کاروبار خطرے میں ہیں۔
خیال رہے اس قسم کی نوٹس کے نہ صرف ان پیرنٹ کمپنیوں کی حصص کی قیمتوں پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے بلکہ ایسے حالات جس میں حکومت کو سرمایہ کاری لانے میں مشکلات کا سامنا ہے، عالمی سطح پر یہ پیغام جائے گا کہ پاکستان سرمایہ کاری کے لیے ایک خطرناک جگہ ہے۔
تبصرے (1) بند ہیں