• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

سپریم کورٹ میں میشا شفیع کی اپیل پر سماعت

شائع May 9, 2019
دوران سماعت میشاشفیع کے وکیل نے بیان ریکارڈ کرنے اور جرح ایک ساتھ کرنے کے حوالے سے عدالتی نظیریں موجود ہونے پر دلائل دیے۔ — فائل فوٹو/ فیس بک
دوران سماعت میشاشفیع کے وکیل نے بیان ریکارڈ کرنے اور جرح ایک ساتھ کرنے کے حوالے سے عدالتی نظیریں موجود ہونے پر دلائل دیے۔ — فائل فوٹو/ فیس بک

میشا شفیع اور علی ظفر کے درمیان قانونی تنازع سپریم کورٹ پہنچ فیا جہاں عدالت عظمیٰ نے لاہور ہائی کورٹ کے بیان ریکارڈ اور جراح ایک ساتھ کرنے کی درخواست مسترد کرنے کے فیصلے کے خلاف اپیل پر سماعت کی گئی۔

میشا سفیع نے لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے اپنی درخواست مسترد کیے جانے کے بعد سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

میشا سفیع جنہیں علی ظفر کی جانب سے ہتک عزت کے کیس کا سامنا ہے، نے اس سے قبل ٹرائل کورٹ پھر ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے میشا شفیع کی درخواست پرسماعت کی۔

دوران سماعت میشاشفیع کے وکیل نے بیان ریکارڈ کرنے اور جرح ایک ساتھ کرنے کے حوالے سے عدالتی نظیریں موجود ہونے پر دلائل دیے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کیا کہ درخواست گزارکے وکیل تمام گواہان کے بیان ریکارڈ اور ان پرجرح ایک ساتھ چاہتے ہیں، کس قانون کے تحت یہ سب ایک ساتھ ہوسکتا ہے، گواہان کے بیان سے متعلق عدالت نے طے کرنا ہے بینچ وکیل کی خواہش کے مطابق گواہوں کے بیان نہیں لے سکتی۔

میشا شفیع کے وکیل نے عدالت میں موقف اپنایا کہ ’چاہتے ہیں کہ واضح ہوسکے کہ جیمنگ سیشن میں کیا ہوا ہے وکالت کرتے گیارہ سال ہوگئے ،بیان ریکارڈ اور جرح ایک ساتھ ہونے کی کئی عدالتی فیصلوں کی نظیریں موجود ہیں‘۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ’میرے 30 سالہ عدالتی تجربے میں ایسی کوئی مثال نہیں ایسی عدالتی نظیریں صفر ہیں‘۔

وکیل نے عدالتی فیصلوں پر بات کو دوہرایا تو جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ عدالتی فیصلے کوئی آسمانی صحیفہ نہیں ہوتے، فیصلے میں غلطی بھی ہوسکتی ہے۔

عدالت میں علی ظفر کے وکیل کے دلائل جاری تھے کہ عدالت نے سماعت آئندہ ہفتے کے لیے ملتوی کردی۔

میشا شفیع- علی ظفر کیس

دونوں کے درمیان تنازع اپریل 2018 میں اس وقت سامنے آیا جب میشا شفیع نے علی ظفر پر ایک ٹوئٹ میں جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ علی ظفر نے انہیں ایسے وقت میں جنسی طور پر ہراساں کیا جب وہ 2 بچوں کی ماں اور معروف گلوکار بھی بن چکی تھیں۔

تاہم علی ظفر نے ان کے تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے انہیں اپنے خلاف سازش قرار دیا تھا۔

بعد ازاں میشا شفیع نے علی ظفر کے خلاف جنسی ہراساں کرنے کی محتسب اعلیٰ میں درخواست بھی دائر کی تھی اور اس کے جواب میں علی ظفر نے بھی گلوکارہ کے خلاف 100 کروڑ روپے ہرجانے کا دعویٰ دائر کیا تھا۔

اور دونوں کا یہی کیس لاہور کی سیشن کورٹ میں زیر سماعت ہے اور لاہور ہائی کورٹ نے ماتحت عدالت کو تین ماہ کے اندر گواہوں پر جرح کے بعد فیصلہ سنانے کی ہدایت کر رکھی ہے۔

چند دن قبل سماعت میں پیش ہونے کے بعد علی ظفر نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے ایک بار پھر میشا شفیع کے الزامات کو جھوٹا قرار دیا اور کہا کہ میشا شفیع نے انہیں منظم منصوبہ بندی کے تحت ٹارگٹ کیا۔

علی ظفر کی جانب سے میشا شفیع پر منظم منصوبہ بندی کے الزامات لگائے جانے کے بعد گلوکارہ نےعلی ظفر کو 200 کروڑ ہرجانے کا نوٹس بھجوایا تھا اور ان سے 15 دن کے اندر معافی مانگنےکا مطالبہ کیا تھا۔

علاوہ ازیں میشا شفیع نے گواہوں سے جرح کے معاملے پر سپریم کورٹ میں بھی درخواست دائر کی تھی، جس پر سپریم کورٹ آج سماعت کی۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024