مشیر خزانہ حفیظ شیخ کی تعیناتی پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج
پشاور ہائی کورٹ نے ڈاکٹر حفیظ شیخ کی وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ کے طور پر تعیناتی کو آئین کی خلاف ورزی قرار دینے کی درخواست پر وفاقی حکومت کو جواب جمع کروانے کی ہدایت کردی۔
جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل عدالتی بینچ نے اٹارنی جنرل آف پاکستان کے ذریعے 21 مئی تک حکومت سے تحریری جواب طلب کرلیا۔
درخواست گزار شاہد اورکزئی، جو ایک آزاد صحافی ہیں، انہوں نے عدالت سے ڈاکٹر حفیظ شیخ کی بطور مشیر خزانہ تعیناتی کو غیر آئینی قرار دینے کی درخواست دائر کی اور طریقہ کار کے تحت وفاقی بجٹ پر بات چیت سے روکنے کی بھی استدعا کی۔
پشاور ہائی کورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں کہا گیا کہ وزیراعظم کے مشیر کو وزیر خزانہ کے طور پر کام کرنے اور بجٹ پیش کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔
مزید پڑھیں: اسد عمر کا استعفیٰ منظور، حفیظ شیخ مشیر خزانہ تعینات، نوٹیفکیشن جاری
درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ وہ اعلان کرے کہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کے پاس وفاقی وزیر خزانہ کا کردار ادا کرنے کا اختیار نہیں، نہ ہی وہ کابینہ اجلاس میں شرکت کرسکتے ہیں اور نہ ہی پاکستان کی جانب سے کسی غیر ملکی معاہدے پر دستخط کرسکتے ہیں۔
عدالت سے درخواست کی گئی وہ احکامات جاری کرے کہ وفاقی حکومت اس بات کو یقینی بنائے کہ آئندہ بجٹ آئین کے مطابق پاس کیا جائے گا۔
شاہد اورکزئی نے کہا کہ کیا آئین کے آرٹیکل 93 کے تحت کوئی مشیر وفاقی وزیر خزانہ کے طور پر کام کرسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کے مشیر کو نہیں بلکہ وفاقی وزیر خزانہ کو قومی اسمبلی میں بجٹ پیش کرنے کا حق حاصل ہے، جس کا مقصد ملکی آمدن کو صوبوں میں تقسیم کرنا ہے۔
درخواست گزار نے کہا کہ آئین کے تحت ایک وزیر، صدر مملکت کی جانب سے حلف لینے کا پابند ہے لیکن ڈاکٹر حفیظ شیخ نے ایسا کوئی حلف نہیں اٹھایا۔
یہ بھی پڑھیں: مشیر خزانہ کی آئی ایم ایف حکام سے بیل آؤٹ پیکج پر بات چیت
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کے مشیر کے لیے آئین میں ایسا کوئی حلف موجود نہیں۔
درخواست گزار نے کہا کہ بطور مشیر آئین کے آرٹیکل 93 کی شق نمبر 2 کے تحت ڈاکٹر حفیظ شیخ کو پارلیمانی کارروائیوں میں کردار ادا کرنے کی اجازت حاصل ہے لیکن وہ قومی اسمبلی میں بجٹ پیش نہیں کرسکتے۔
ان کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 160 میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ نیشنل فنانس کمیشن وفاقی وزیر خزانہ اور دیگر اراکین پر مشتمل ہوتی ہے جبکہ آئین کے آرٹیکل 88(2) میں کہا گیا ہے کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کی خزانہ کمیٹیاں وزیر خزانہ اور دیگر اراکین پر مشتمل ہوتی ہیں۔
درخواست گزار نے کہا کہ کیا پارلیمنٹ کی خزانہ کمیٹیاں ڈاکٹر حفیط شیخ کو وفاقی وزیر خزانہ کے طور پر قبول کرلیں گی؟
ان کا کہنا تھا کہ آئین میں وزیر خزانہ کے ایسے بہت سے کام بتائے گئے ہیں جو ایک مشیر ادا نہیں کرسکتا۔
درخواست گزار نے کہا کہ ڈاکٹر حفیظ شیخ قومی اسمبلی کی اکثریتی جماعت یا اتحادی جماعت کا حصہ نہیں تھے اور وزارت خزانہ نے ان کی صلاحیتوں پر کبھی اعتبار نہیں کیا تھا۔
یہ خبر ڈان اخبار میں 9 مئی 2019 کو شائع ہوئی