• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm

طیبہ تشدد کیس: سپریم کورٹ نے ملزمان کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا

شائع May 8, 2019 اپ ڈیٹ May 9, 2019
راجہ خرم اور ان کی اہلیہ ماہین ظفر کی سزا میں مزید اضافہ کردیا گیا تھا — فائل فوٹو: / اے پی
راجہ خرم اور ان کی اہلیہ ماہین ظفر کی سزا میں مزید اضافہ کردیا گیا تھا — فائل فوٹو: / اے پی

سپریم کورٹ نے کم سن ملازمہ طیبہ تشدد کیس میں ملزم سابق جج راجہ خرم اور ان کی اہلیہ ماہین ظفر کی اپیلوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

سپریم کورٹ کے جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے طیبہ تشدد کیس میں ملزمان کی اپیلوں پر سماعت کی جہاں ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پڑوسیوں کے بیان کے مطابق جھاڑو گم ہونے پر بچی کا ہاتھ جلایا گیا۔

ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کا کہنا تھا کہ پڑوسیوں کے بیان کی تصدیق طیبہ کے بیان سے بھی ہوتی ہے، تصاویر سوشل میڈیا پر آنے کے بعد بچی کو غائب کردیا گیا، بچی کو ملزمان نے خود غائب کر کے تھانے میں درخواست دے دی، بچی بعد میں راجہ خرم کے گھر سے ہی برآمد ہوئی اور بچی کو تمام زخم ملزمان کے گھر میں ہی آئے تھے۔

مزید پڑھیں: طیبہ تشدد کیس: 'اہل محلہ نے بچی کو ملزمان سے بچایا، وہ سخت سردی میں ٹھٹھرتی رہی'

اپنے دلائل میں ان کا کہنا تھا کہ بچی کا بیان ہے کہ چائے والی ڈوئی سے مار کر ہاتھ جلایا گیا، پھر پانی کی ٹنکی سے باندھ دیا گیا اور میڈیکل بورڈ کے مطابق 22 زخم پرانے اور تین زخم نئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ملزمان طیبہ کو یہ کہہ کر ڈراتے تھے کہ کسی کو بتایا تو پولیس مارے گی، جبکہ بچی کے علاج کے حوالے سے شہادتوں میں کہیں ذکر نہیں۔

اس موقع پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ بچی کے والد کے خلاف پرچہ کیوں نہیں درج کروایا گیا، بچی کو دو سال کسی کے حوالے کر کے خبر نہ لی اس لیے والد کے خلاف بھی اعانت جرم کا کیس بنتا ہے کیونکہ وقوع کے وقت تو والد کا کوئی پتا ہی نہیں تھا۔

ملزمان کے وکیل نے جوابی دلائل میں کہا کہ جرح کے دوران طیبہ نے کہیں بھی یہ نہیں کہا کہ ان کو گھر میں تنہا بند رکھا جاتا تھا، طیبہ نے تو کہا کہ ماں باپ کی طرح اس کا خیال رکھا جاتا تھا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا اگر آپ کہتے ہیں کہ بچی اغوا ہو گئی تھی تو اگلے دن آپ کے گھر سے کیسے برآمد ہوئی، آپ کے پاس اس حوالے سے کوئی ثبوت نہیں جس پر ملزمان کے وکیل نے کہا کہ دونوں ڈاکٹرز نے معائنے کے بعد کہا کہ زخم حادثاتی تھے لیکن پانچ ماہ بعد طیبہ سے کہلوایا گیا کہ اس کا ہاتھ چولہے پر رکھ کر جلایا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: طیبہ تشدد کیس: ملزمان کے خلاف چارج شیٹ جاری

ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے عدالت سے استدعا کرتے ہوئے کہا کہ ملزمان کی سزا بڑھانی چاہیے کیونکہ ٹرائل کورٹ نے سزا بڑھانے کی اپیل پر صرف جرمانہ کیا لیکن سزا نہیں بڑھائی۔

عدالت نے دونوں جانب سے دلائل سننے کے بعد طیبہ تشدد کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا لیکن فیصلہ سنانے کی تاریخ کے حوالے سے کچھ نہیں بتایا گیا۔

طیبہ تشدد کیس

یاد رہے کہ 27 دسمبر 2016 کو اسلام آباد کی گھریلو ملازمہ طیبہ پر اس وقت کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج راجا خرم علی خان کے گھر میں تشدد کا واقعہ منظرعام پر آیا تھا۔

پولیس نے 29 دسمبر کو جج راجہ خرم اور ان کی اہلیہ ماہین ظفر کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا تھا اور دونوں افراد کے خلاف تھانہ آئی نائن میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: طیبہ تشدد کیس: اسلام آباد ہائی کورٹ نے ملزمان کی سزا معطل کردی

طیبہ کے والدین نے 3 مارچ 2017 کو راجہ خرم اور ان کی اہلیہ کو معاف کردیا تھا، تاہم اس صلح نامے کی خبر نشر ہونے کے بعد چیف جسٹس نے واقعے کا ازخود نوٹس لیا۔

چیف جسٹس نے رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ کو حکم دیا تھا کہ وہ 24 گھنٹوں کے اندر اندر معاملے کی تفصیلی رپورٹ پیش کریں۔

بعد ازاں 8 جنوری 2017 کو سپریم کورٹ کے حکم پر پولیس نے طیبہ کو بازیاب کروا کر عدالت میں پیش کیا تھا، جس کے بعد عدالتی حکم پر 12 جنوری کو جج راجا خرم کو ان کے عہدے سے برطرف کردیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے ملازمہ پر 'تشدد' کا از خود نوٹس لے لیا

اس کے بعد اس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کیس کا ٹرائل اسلام آباد ہائی کورٹ بھیج دیا تھا، جہاں متعدد سماعتوں کے بعد 16 مئی 2017 کو ملزمان پر فرد جرم عائد کی گئی تھی۔

بعد ازاں 17 اپریل 2018 کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے ملزمان کو ایک، ایک سال قید اور 50، 50 ہزار جرمانے کی سزا سنائی تھی۔

سزا سنائے جانے کے بعد ملزم راجہ خرم علی خان کی جانب سے سزا کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کے لیے ضمانت طلب کی گئی تھی جسے عدالت نے منظور کرتے ہوئے انہیں ایک ہفتے کے اندر اپیل دائر کرنے کی ہدایت کی تھی۔

ملزمان نے سزا کے خلاف اپیل کی جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے سزا اور جرمانے میں مزید اضافہ کرتے ہوئے 3 سال قید اور 5 لاکھ جرمانہ عائد کردیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024