• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
شائع May 1, 2019 اپ ڈیٹ June 12, 2019

ایک روزہ بین الاقوامی کرکٹ کا آغاز 1971ء میں حادثاتی طور پر اس وقت ہوا جب انگلینڈ اور آسٹریلیا کے مابین میلبرن کے مقام پر کھیلے جانے والے ٹیسٹ میچ کے ابتدائی 3 دن کا کھیل بارش کی نظر ہوگیا۔ اس موقع پر شائقین کی دلچسپی کے لیے دونوں ٹیموں کے درمیان محدود اوورز کا ایک میچ کھیلا گیا۔ اس میچ کی ہر اننگ 40 اوورز پر محیط تھی اور ہر اوور 8 گیندوں کا تھا۔ یہ ابتدائی ایک روزہ میچ آسٹریلیا نے 5 وکٹوں سے جیت لیا۔

اس میچ کے ٹھیک 4 سال بعد انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے 1975ء میں انگلستان میں مردوں کا پہلا عالمی کپ منعقد کروانے کا فیصلہ کیا۔ یہاں یہ بات اپنی جگہ منفرد ہے کہ مردوں کے عالمی کپ سے 2 سال پہلے انگلستان میں ہی خواتین کا عالمی کپ منعقد کیا جاچکا تھا۔

اب چونکہ ایک اور ورلڈ کپ قریب ہے اور رواں ماں سے انگلینڈ کی سرزمین پر ہی 12واں عالمی کپ شروع ہونے جارہا ہے تو ہم نے سوچا کیوں نہ ایسا ریکارڈ جمع کیا جائے جس میں ہم شائقین کرکٹ کو ماضی کے ورلڈ کپ کے یادگار میچوں کی یاد دلائیں۔ تو آئیے آپ کو ہر ورلڈ کپ کے ایک یادگار میچ کی یاد دلاتے ہیں۔

1975ء - (پاکستان بمقابلہ ویسٹ انڈیز)

1975ء میں کھیلے جانے والے پہلے عالمی کپ میں 8 ٹیموں نے شرکت کی۔ اس ٹورنامنٹ کی ہر اننگ 60 اوورز پر محیط تھی۔ ٹورنامنٹ کا پہلا میچ میزبان انگلینڈ اور بھارت کے درمیان کھیلا گیا تھا، جس میں انگلینڈ نے فتح حاصل کی تھی۔ اس مقابلے کا نمایاں پہلو سنیل گاوسکر کی اننگ تھی جنہوں نے انتہائی سست رفتاری سے بیٹنگ کی اور 174 گیندوں میں صرف 36 رنز بنائے۔

خیر، میری رائے میں اس ورلڈ کپ کا سب سے دلچسپ مقابلہ برمنگھم کے مقام پر 11 جون 1975ء کو پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے مابین کھیلا گیا۔ پاکستانی کپتان آصف اقبال بیماری کی وجہ سے ہسپتال میں داخل ہونے کے سبب دستیاب نہیں تھے اور ان کی جگہ ماجد خان نے کپتانی کے فرائض انجام دیے۔

اس میچ میں پاکستانی ٹیم کی جانب سے جاوید میانداد اور پرویز میر جبکہ ویسٹ انڈیز کی جانب سے گورڈن گرینج نے ایک روزہ کرکٹ میں ڈیبیو کیا۔

پاکستان کے کپتان ماجد خان نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرنے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان کے بلے بازوں نے شاندار بیٹنگ کی اور قومی ٹیم مقررہ 60 اوورز میں 7 وکٹوں کے نقصان پر 266 رنز بنانے میں کامیاب رہی۔ پاکستان کی طرف سے ماجد خان، مشتاق محمد اور وسیم راجہ نے نصف سنچریاں اسکور کیں۔

پاکستان کے اسکور کے تعاقب میں ویسٹ انڈیز کی اننگز کا آغاز نہایت خراب رہا کیونکہ اس کی ابتدائی 3 وکٹیں صرف 36 رنز پر ہی گرگئیں۔ لیکن ویسٹ انڈین کپتان کلائیو لائیڈ نے ہمت نہیں ہاری اور ایک طرف سے رنز بناتے رہے۔ لیکن 151 رنز کے مجموعی اسکور پر کلائیو لائیڈ کو جاوید میانداد نے آؤٹ کردیا۔ کلائیو آؤٹ ہونے والے ساتویں کھلاڑی تھے، جب کہ ان کی آٹھویں وکٹ 166 رنز پر گر گئی اور اب قومی ٹیم کی جیت یقینی نظر آرہی ہے۔

یہاں مجھے آصف اقبال کا ایک انٹرویو یاد آگیا جس میں انہوں نے بتایا کہ جب ویسٹ انڈیز کے 8 کھلاڑی آوٹ ہوگئے تو ویسٹ انڈین کپتان کلائیو لائیڈ نے انہیں فون کیا اور مبارکباد تھی کہ آپ میچ جیت گئے ہیں۔ آصف اقبال نے بتایا کہ انہیں نیند آنے لگی تو انہوں نے نرس سے کہا کہ مجھے نیند آرہی ہے، جب 9 بجے کی خبریں آئیں تو انہیں اٹھا دیں۔ لیکن اس وقت میں حیران رہ گیا جب میں نے ٹی وی پر خبر دیکھی کہ ویسٹ انڈیز ایک وکٹ سے یہ میچ جیت گیا۔

صرف یہی نہیں بلکہ مین آف دی میچ کا فیصلہ کرنے کی ذمہ داری رکھنے والے Tom Graveney نے شاندار باؤلنگ کرنے والے سرفراز نواز کو مین آف دی میچ نامزد کیا اور میدان سے چلے گئے۔

غرض وہاں موجود کسی کو بھی ویسٹ انڈیین وکٹ کیپر ڈیرک مرے کی صلاحیتوں پر بھروسہ نہیں تھا، لیکن اس روز مرے نے سب کو غلط ثابت کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ مرے نے اس مشکل ترین وقت میں نویں وکٹ کے لیے مائیکل ہولڈر کے ساتھ 36 رنز جبکہ دسویں وکٹ کے لیے اینڈی رابٹ کے ساتھ 64 رنز کی شراکت قائم کرکے پاکستان کی یقینی فتح کو شکست میں تبدیل کردیا۔ ڈیرک مرے نے 61 رنز بنائے اور وہ میچ کے بہترین کھلاڑی قرار پائے۔

ویسٹ انڈین کپتان کلائیو لائیڈ شاٹ کھیلتے ہوئے۔ تصویر بشکریہ پی اے فوٹو
ویسٹ انڈین کپتان کلائیو لائیڈ شاٹ کھیلتے ہوئے۔ تصویر بشکریہ پی اے فوٹو

1979ء - (پاکستان بمقابلہ انگلینڈ)

4 سال کے بعد 1979ء میں دوسرا عالمی کپ بھی انگلینڈ میں ہی منعقد ہوا۔ اس مرتبہ بھی ٹورنامنٹ میں 8 ٹیمیں ہی شرکت کر رہی تھیں اور ان کو ایک مرتبہ پھر 2 گروپس میں تقسیم کیا گیا تھا۔

اس عالمی کپ کا سب سے دلچسپ مقابلہ پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان 16 جون کو لیڈز کے میدان پر کھیلا گیا۔ اس میچ میں پاکستان کے کپتان آصف اقبال نے ٹاس جیت کر پہلے انگلینڈ کو کھیلنے کی دعوت دی۔ انگلینڈ کی ٹیم نے مقررہ 60 اوورز میں 9 وکٹوں کے نقصان پر 165 رنز بنائے۔

اس اننگ میں انگلینڈ کے 8 کھلاڑی صرف 118 رنز پر پویلین جاچکے تھے لیکن اس موقع پر ان کے وکٹ کیپر باب ٹیلر اور فاسٹ باؤلر باب ولس نے نویں وکٹ کے لیے 43 رنز کی شراکت قائم کرکے اپنی ٹیم کو سہارا دیا۔

انگلینڈ کے 165 رنز کے جواب میں پاکستان کی اننگز کا آغاز اتنا مایوس کن تھا کہ میچ کا سارا مزہ ہی خراب ہوگیا۔ ابتدائی 6 کھلاڑی صرف 34 رنز کے اسکور پر پویلین لوٹ گئے۔ لیکن کپتان آصف اقبال نے ہار نہیں مانی اور پہلے وسیم راجہ کے ساتھ اور پھر عمران خان کے ساتھ مل کر ٹیم کی ڈوبتی نیّا پار لگانے کی کوشش کی۔

پاکستان کا اسکور جب 115 پر پہنچا تو کپتان آصف اقبال 51 رنز بنا کر آؤٹ ہوگئے۔ اس موقع پر عمران خان اور وسیم باری نے 30 رنز کی شراکت قائم کرکے پاکستان کی امید کا دیا روشن رکھا، لیکن یہ دیا اس وقت پھڑپھڑانے لگا جب وسیم باری 145 رنز کے اسکور پر جیف بائیکاٹ کا شکار بن گئے۔

اب پاکستان کو میچ جیتنے کے لیے 21 رنز درکار تھے اور اس کی صرف ایک وکٹ باقی تھی۔ اس موقع پر عمران خان 11ویں نمبر پر بیٹنگ کے لیے آنے والے سکندر بخت سے صرف یہی کہتے رہے کہ آپ گیند روکنے پر اکتفا کریں اور رنز بنانے کی ذمہ داری مجھ پر چھوڑ دیں۔ سکندر بخت خاصی دیر تک اپنے سینئر کی اس بات پر عمل کرتے رہے۔ انہوں نے 19 گیندیں کھیل کر صرف 2 رنز بنائے تھے۔ لیکن چونکہ اوورز بہت زیادہ باقی تھے، اس لیے گیند ضائع ہونے کا مسئلہ کسی بھی طور پر نہیں تھا۔

انگلینڈ کے کپتان نے 56واں اوور بائیکاٹ سے کروانے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت پاکستان کو 5 اوورز میں میچ جیتنے کے لیے صرف 15 رنز کی ضرورت تھی۔ سکندر بخت نے اس اوور کی ابتدائی 5 گیندیں روک لیں لیکن آخری گیند سے قبل ان کے اندر کا ٹیل اینڈر جاگ گیا اور انہوں نے شاٹ لگانے کی کوشش کی مگر وہ ہینڈرک کو کیچ دے بیٹھے۔

یوں ایک دلچسپ اور سنسنی خیز مقابلے کے بعد انگلینڈ نے پاکستان کو 14 رنز سے ہرا دیا۔ اس مقابلے کی فتح اور شکست کا اثر دونوں ہی ٹیموں کو نہیں پڑا کیونکہ دونوں ہی ٹیمیں ایونٹ کے سیمی فائنل میں پہنچ چکی تھیں۔ ہاں لیکن اس میچ کی اہمیت یہ ضرور تھی کہ جیتنے والی ٹیم گروپ لیڈر بن کر نیوزی لینڈ کے خلاف سیمی فائنل جیتنے کا موقع حاصل کرسکتی تھی اور انگلینڈ نے ایسا کیا بھی۔

ورلڈ کپ سے قبل ٹیموں کی لائن اپ۔ کرٹسی فوٹو
ورلڈ کپ سے قبل ٹیموں کی لائن اپ۔ کرٹسی فوٹو

1983ء - (ویسٹ انڈیز بمقابلہ بھارت)

کرکٹ کا تیسرا عالمی کپ بھی انگلینڈ میں ہی کھیلا گیا۔ اس ٹورنامنٹ کو اگر upsets کا ٹورنامنٹ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ ٹورنامنٹ کے تیسرے میچ میں عالمی کپ کا اپنا اولین میچ کھیلنے والی زمبابوے کی ٹیم نے آسٹریلیا جیسی مضبوط ٹیم کو ہرا کر سب کو حیران کردیا۔ پھر اگلے ہی میچ میں ایک اور اپ سیٹ اس وقت ہوا جب بھارتی ٹیم نے ویسٹ انڈیز کی ٹیم کو گروپ میچ میں شکست دے دی۔

اس مقابلے میں ویسٹ انڈیز کے کپتان نے ٹاس جیت کر پہلے بھارت کو کھیلنے کی دعوت دی۔ بھارتی ٹیم نے مقررہ 60 اوورز میں یشپال شرما کے شاندار 89 رنز کی بدولت 262 رنز اسکور کرلیے۔

ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے ویسٹ انڈیز کی وکٹیں وقفے وقفے سے گرتی رہیں اور صرف 157 کے اسکور پر اس کے 9 کھلاڑی آؤٹ ہوگئے۔ اس موقع پر اینڈی رابرٹس اور جوئیل گارنر نے 10ویں وکٹ کے لیے 71 رنز جوڑ کر مخالفین کو پریشانی میں مبتلا کرنے کی کوشش کی۔ جب یہ شراکت داری بڑھتی گئی تو بھارتی کپتان نے روی شاستری کی اسپن باؤلنگ کو آزمانے کا فیصلہ کیا اور ان کا یہ فیصلہ اس وقت درست ثابت ہوا جب شاستری گارنر کو وکٹ کیپر کرمانی کے ہاتھوں اسٹمپ کروانے میں کامیاب ہوگئے۔ یوں بھارت نے یہ مقابلہ 34 رنز سے جیت لیا۔

ویسٹ انڈیز کی یہ شکست اس لیے بھی اپ سیٹ ہ کیونکہ یہ عالمی کپ کی تاریخ میں ویسٹ انڈیز کی اولین شکست تھی۔ میرا یہ ماننا ہے کہ اس فتح کے بعد بھارت کے اعتماد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا اور اس خود اعتمادی نے ان کے عالمی کپ جیتنے کی راہ ہموار کی۔ یہ بھارت کی خود اعتمادی ہی تھی جس کی بدولت اس نے 1983ء کے فائنل میں نسبتاََ کم اسکور کا کامیابی سے دفاع کیا اور ویسٹ انڈیز کے بعد عالمی کپ جیتنے والی دوسری ٹیم بن گئی۔

ہندوستانی کپتان کپیل دیو ورلڈ کپ ٹرافی وصول کرتے ہوئے۔ کرٹسی فوٹو
ہندوستانی کپتان کپیل دیو ورلڈ کپ ٹرافی وصول کرتے ہوئے۔ کرٹسی فوٹو

1987ء - (انگلینڈ بمقابلہ آسٹریلیا)

چوتھا عالمی کپ کئی حوالے سے مختلف تھا۔ پہلا مختلف پہلو یہ کہ اس بار یہ انگلینڈ کے بجائے مشترکہ طور پر پاکستان اور بھارت میں کھیلا جارہا تھا اور دوسرا پہلو یہ کہ اس بار مقابلے 60 اوور کے بجائے 50 اوور کے ہورہے تھے۔

برِصغیر میں ہونے والے اس عالمی کپ کو جیتنے کے لیے دفاعی چیمپئن بھارت اور پاکستان فیورٹ تھے لیکن حسنِ اتفاق یہ ہوا کہ دونوں ہی ٹیمیں اپنے ہوم گراؤنڈ اور ہوم کراؤڈ کے سامنے سیمی فائنل میں شکست کھاکر ٹورنامنٹ سے باہر ہوگئیں۔ اگرچہ پاکستان اور بھارت کی ٹیمیں تو عالمی کپ کا فائنل نہیں کھیل سکیں لیکن ان دونوں ممالک سے تعلق رکھنے والے امپائروں محبوب شاہ اور رام گپتا نے اس میچ میں امپائرنگ کے فرائض انجام دیے اور اپنے اپنے ملک کی نمائندگی کی۔ عالمی کپ مقابلوں میں نیوٹرل امپائرز کو سب سے پہلے اسی عالمی کپ کے دوران متعارف کروایا گیا تھا۔

1987ء کے ورلڈ کپ میں پاکستان نے گروپ میچوں میں انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز کو شکست دے کر ان ٹیموں کے خلاف عالمی کپ میں اپنی پہلی کامیابی حاصل کی۔

ورلڈ کپ کا فائنل کولکتہ (پرانا کلکتہ) کے ایڈن گارڈنز میں روایتی حریفوں انگلینڈ اور آسٹریلیا کے مابین کھیلا گیا جسے دیکھنے کے لیے ایڈن گارڈنز میں شائقین کا ایک بہت بڑا مجمع موجود تھا۔ میری زندگی میں بھی یہ پہلا موقع تھا جب میں کسی بھی عالمی کپ کا فائنل ٹیلی ویژن پر براہِ راست دیکھ رہا تھا۔

اس میچ میں آسٹریلیا کے کپتان ایلن بارڈر نے ٹاس جیت کر پہلے خود بیٹنگ کرنے کا فیصلہ کیا۔ آسٹریلیا کے اوپنرز ڈیوڈ بون اور جیف مارش نے اپنی ٹیم کو 75 رنز کا پُراعتماد آغاز فراہم کیا۔ اس شاندار آغاز کے بعد مائیکل ویلیٹا نے اختتامی اوورز میں 45 رنز کی جارحانہ اننگز کھیل کر اپنی ٹیم کے اسکور کو 253 رنز تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔

ہدف کے تعاقب میں انگلینڈ کا آغاز مایوس کن رہا جب صرف ایک رن کے اسکور پر ٹم رابن سن آؤٹ ہوگئے۔ اس موقع پر بل ایتھے اور گراہم گوچ نے اننگز کی باگ دوڑ سنبھالی اور اسکور کو 66 رنز تک پہنچا دیا۔ لیکن 35 رنز کی انفرادی اننگ کھیل کر گراہم گوچ آؤٹ ہوگئے۔ پھر کپتان مائیک گیٹنگ کھیلنے کے لیے آئے اور بل ایتھے کے ساتھ اپنی ٹیم کو ہدف کے تعاقب کی راہ پر ڈال دیا۔ مائیک گیٹنگ بہت شاندار بیٹنگ کررہے تھے اور ان کی موجودگی میں انگلینڈ کی جیت کی امیدیں روشن سے روشن تر ہوتی جا رہی تھیں۔ لیکن اس موقع پر آسٹریلوی کپتان ایلن بارڈر خود باؤلنگ کے لیے آئے اور بارڈر کو کمزور باؤلر سمجھ کر گیٹنگ وہ فاش علطی کرگئے جس نے انگلینڈ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔

135 رنز کے مجموعی اسکور پر ایلن بارڈر کی گیند کو ریورس سوئپ کھیلنے کی کوشش میں مائیک گیٹنگ وکٹ کیپر ڈائر کو کیچ دے بیٹھے۔ گیٹنگ کے آؤٹ ہونے کے بعد ایتھے نے ایلن لیمب کے ساتھ شراکت قائم کی لیکن 170 کے مجموعی اسکور پر وہ بھی پویلین لوٹ گئے۔ ایتھے کے آؤٹ ہونے کے بعد لیمب نے کوشش جاری رکھی لیکن 220 کے اسکور پر وہ بھی آؤٹ ہوگئے۔ انکلینڈ کے آخری کھلاڑیوں نے کوشش جاری رکھی مگر ان کی کوششیں ناکافی رہی اور آسٹریلیا کی ٹیم نے ایک دلچسپ مقابلے کے بعد یہ فائنل مقابلہ 7 رنز سے جیت کر پہلی مرتبہ عالمی چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل کر لیا۔

آسٹریلین ٹیم کا 1987 ورلڈ کپ کی ٹرافی کے ہمراہ گروپ فوٹو۔ کرٹسی فوٹو
آسٹریلین ٹیم کا 1987 ورلڈ کپ کی ٹرافی کے ہمراہ گروپ فوٹو۔ کرٹسی فوٹو

میری رائے میں ورلڈ کپ میں اب تک جتنے بھی فائنل کھیلے گئے ان میں 1987ء کا فائنل سب سے دلچسپ تھا جس میں جیتنے والی ٹیم کا فیصلہ آخری لمحات میں ہوا۔

خرم ضیاء خان

خرم ضیاء خان مطالعے کا شوق رکھنے کے ساتھ ساتھ کھیلوں کے معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: KhurramZiaKhan@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔