مرغی اچھی ہے یا بُری؟
اگر آپ نے کبھی پاکستان میں کسی ریسٹورینٹ پر چکن کڑاہی کا آرڈر دیا ہے تو آپ کو یہ ضرور معلوم ہوگا کہ ان کے پاس مرغی 2 اقسام میں دستیاب ہوتی ہے، یا تو آپ دیسی مرغی کی کڑاہی منگواسکتے ہیں یا پھر ولایتی یعنی برائلر۔ میں اس بات کی تصدیق کرسکتا ہوں کہ دیسی مرغی لذیذ اور دیسی انڈے زیادہ بڑے اور زیادہ بھورے رنگ کے ہوتے ہیں۔ یعنی معیار میں اعلیٰ۔
مگر معیار کبھی مقدار کا مقابلہ نہیں کرسکتا کہ جس کا اندازہ برائلر مرغیوں سے بھرے پولٹری فارمز دیکھ کر لگایا جاسکتا ہے۔ برائلر مرغیاں گوشت حاصل کرنے کے مقصد سے کثیر تعداد میں پیدا کی جاتی ہیں، انہیں بند رکھا جاتا ہے اور ؎کم سے کم خوراک پر کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ موٹا کرنے کے لیے خاص قسم کی فیڈ یا خوراک دی جاتی ہے۔
نتیجتاً، پورے ملک میں لاکھوں کی تعداد میں ایک جیسی مرغیاں پیدا ہوتی ہیں، گوشت بہت زیادہ نرم اور زرد رنگ کا ہوتا ہے، انڈے بہت زیادہ سفید اور ذائقہ بہت ہی بے ذائقہ سا ہوتا ہے۔
تو پھر ان کی تعداد اتنی زیادہ کیوں ہے؟ کیونکہ ان کی پیداوار سستی ہے۔ ان مرغیوں کی پیداوار کم خرچے میں زیادہ منافع بخش ثابت ہوتی ہے۔
پہلے تو سالن سبزیوں کا پکتا تھا، جس میں آلو، پالک، پھول گوبی جیسی سبزیاں ڈالی جاتیں پھر بیوی کو پیسے بچانے اور ایک بار پھر آلو کا سالن پکانے کی درخواست، جو ناراضگی، علیحدگی یہاں تک کہ طلاق تک کے لیے راہیں ہموار کردیتی تھی، کے بجائے سالن میں گوشت/ہڈی کا شوربہ شامل کرکے لذت حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی۔ پھر برائلر مرغیاں آئیں اور محنت کش طبقے میں شادیوں کے بندھن کو بچانے کا سامان بھی بنیں، جن کا گوشت اتنا سستا ہے کہ اس کے مقابلے میں ان دنوں سبزیاں مہنگی ملتی ہیں۔
دیسی مرغی پالنا کافی سست رفتار، چھوٹے پیمانے پر کیا جانے والا اور کافی زیادہ محنت طلب کام ہے۔ مرغی کو بڑا ہونے میں زیادہ وقت لگتا ہے جس کی وجہ سے مرغیوں کو ہر قسم کی بیماری سے بچانے کے لیے زیادہ نگرانی کی ضرورت پڑتی ہے۔ مرغیاں پالنے والا مالک تو ان سے جذباتی طور پر منسلک ہوجاتا ہے، ان کے نام رکھتا ہے، مرغے مرغیوں کو ہر صبح نیند سے جگانے کی اجازت دیتا ہے اور مرغیوں کو انڈوں پر بیٹھنے سے قبل گنتا ہے۔ بہت ہی کم لوگ اب یہ سب کرنا چاہتے ہوں گے۔
مگر پولٹری فارمنگ نے صرف معاشی اعتبار سے ہی تبدیلی پیدا نہیں کی ہے بلکہ برائلر مرغی نے ہمارے کھانوں پر بھی اپنے اثرات مرتب کیے ہیں۔
مرغیاں اب ہماری شادیوں اور میتوں پر بلا ناغہ آتی ہیں۔ انہیں ہمارے فرجوں، ڈیپ فریزروں، اور مائیکرو وویز اونز میں پایا جاسکتا ہے۔ یہ all you can eat یا بفے میں نظر آجائیں گی۔ لہٰذا مرغیاں عوام میں گھلنے ملنے کے ساتھ اشراف داری کا باعث بھی بنی ہیں۔ یہ یاسر بروسٹ سے منسلک ہیں تو کے ایف سی کا حصہ بھی ہیں۔ اگر چکن فجیتا بنایا جاتا ہے تو چکن نہاری بھی پکائی جاتی ہے (اسلام آباد تمہیں اس وجہ سے کبھی معاف نہیں کروں گا۔)
جہاں نظر دوڑائیں برائلر مرغیاں نظر آجاتی ہیں، یہاں تک کہ اس گلاس میں بھی جس میں بھرا پانی ابھی آپ پینے والے ہیں۔
مگر جہاں کچھ لوگ ہر روز مرغی کھاتے نہیں تکھتے وہیں کچھ مرغیوں کے بارے میں بدگوئی کرنے والے بھی ہیں۔ عوام میں مقبول بدگوئی کرنے والے ہیں۔
آپ کو کچھ ایسے بھی انکلز مل جائیں گے جو قسم کھا کر کہتے ہیں کہ مرغیوں کو ہر روز ہارمون انجیکشن لگائے جاتے ہیں۔ وہ دعوے کریں گے کہ انہوں نے خود اپنی آنکھوں سے مرغیوں کو انجیکشن لگتا ہوا دیکھا ہے جو کہ سراسر غلط عمل ہے۔ پولٹری میں ڈوپنگ یا مرغیوں کو دواؤں دینے کے اس عمل کا سن کر آپ سوچنے لگتے ہیں کہ اگر یہ مرغی ٹؤر ڈی فرانس کی سائیکل دوڑ میں حصہ لیتی تو پکا جیت جاتی۔
انکلز آپ کو بتائیں گے کہ برائلر مرغی کے استعمال سے سوائن فلو، ایس اے آر ایس، کانگو وائرس، ممپس (ایک بیماری جس میں گلا سوج جاتا ہے) اور سب سے بدترین مہاسوں کا خطرہ رہتا ہے۔ ایک انکل یہ دعوی کریں گے کہ انہیں یہ تمام بیماریاں ایک ہی وقت میں لاحق ہوئیں مگر اب وہ صرف مچھلی کھاتے ہیں اور صحتیاب بھی ہوچکے ہیں۔
پھر کچھ ایسے بریڈرز (نسل بڑھانے والے) بھی ہیں، جو اپنی مرغی کی نسلوں میں ایسی سلیکٹو بریڈنگ کا دعوی کرتے ہیں کہ جس کی مدد سے مرغیاں گزشتہ سائز کے مقابلے میں نصف وقت کے اندر ہی دگنی بالغ ہوجاتی ہیں۔ تو کیا ہوگا اگر وہ 3 آنکھیں اور آگے کے دو دانت بھی پیدا کرنے لگیں یا پھر اتنی موٹی ہونے لگیں کہ ان کی وزن سے ان کی ٹانگیں ٹوٹ جاتی ہوں۔ مصنوعی فیڈ سے تو اس کا کوئی تعلق نہیں۔
بریڈرز کے ساتھ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار بھی کھڑے نظر آئے، جنہوں نے گزشتہ سال کے ابتدائی دنوں میں یہ واضح کیا تھا کہ پاکستان میں برائلر مرغی نہایت لذیذ اور کھانے کے لیے محفوظ ہے۔
تو اس مرغی پر اس بحث پر کون جیتتا ہے؟ مرغی اچھی ہے یا بُری؟
2 ڈبل روٹیوں کے درمیان موجود ایک عمدہ زنگر پیٹی کی طرح حقیقت بھی کہیں بیچ میں موجود ہے۔
پراسس شدہ گوشت برائلر مرغی کے مقابلے میں کہیں زیادہ وارننگ کے ساتھ ہم تک پہنچتا ہے۔ یہاں تک کہ ہارمون سے عاری سرخ گوشت کو سرطان کی بیماری کا ممکنہ موجب تصور کیا جاتا ہے جبکہ سفید گوشت یا برائلر مرغی کے زرد گوشت کو تو تصور نہیں کیا جاتا۔ تاہم سائنس سے خطا ہو بھی سکتی ہے۔ اگر پراسس شدہ، مائیکرو ویو شدہ، سرخ، تلا ہوا اور بچا کچھا گوشت سب کے سب کینسر کا باعث بنتے ہیں تو پھر میرے حساب کتاب کے مطابق مجھے 5 سال قبل ہی مجھے مرجانا چاہیے تھا اور میں یہ مضمون قبر میں بیٹھ کر لکھ ہو رہا ہوتا۔
اگر مرغی میں پیداواری ہارمون کی انجیکشن لگائی بھی جاتی ہے تو بھی کم از کم یہ گدھے یا کتے کا گوشت تو نہیں ہے۔ مذہبی جکھاؤ رکھنے والوں کے لیے یہ کسی مثبت پہلو سے کم نہیں ہونا چاہیے۔
چاہے مرغی کا ہو، بکرے کا یا پھر گدھے کا، پاکستان میں گوشت کی صنعت ترقی کر رہی ہے۔ اگر میری بات پر یقین نہیں ہے تو حمرہ شہباز سے پوچھ لیں۔ حمزہ پولٹری وہ واحد کاروبار ہے جو کسی شریف کی قید کا باعث نہیں بنا ہے۔
یہ مضمون ابتدائی طور پر ہرالڈ میگزین کے مارچ 2019 کے شمارے میں شائع ہوا۔
تبصرے (8) بند ہیں