تبدیلی اور بقا
فردوس عاشق اعوان کو وزیراعظم کی معاون خصوصی بننے پر جس انداز میں خیرمقدم کیا گیا وہ پنجاب میں ان کئی لوگوں کو عمومی طور پر نصیب ہوتا ہے جو شریف مخالف کیمپوں سے اپنی سیاست کرتے ہیں، وہی محاذ جو پہلے ریلوے روڈ لاہور تھا اور اب رائونڈ ہے۔
سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والی یہ سیاستدان مشرف حکومت کے دوران ابھر کر سامنے آئیں۔ آج کل ان پر اقتداری سیاست میں اپنی موجودگی برقرار رکھنے کی کوشش میں ایک سے دوسری سیاسی جماعت میں شامل ہونے کو لے کر مذاق اڑایا جاتا ہے۔ دوسری طرف، وہ خود کو ایک ایسی ہی شخصیت کے طور پر ثابت کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔ اسی دور میں جن متعدد افراد نے سیاسی میدان میں قدم رکھا تھا، ان میں سے کئی شخصیات کو سیاسی فن کا زبردست تجربہ رکھنے والوں نے زیادہ آگے بڑھنے ہی نہیں دیا۔
یہاں مشرف دور کی یاد تازہ کرنے کی ایک خاص وجہ ہے۔ لکھی گئی کہانی کے مطابق جنرل کو سیاستدانوں کی ایک نئی کھیپ تیار کرنی تھی۔ اس نئی کھیپ کو نہ صرف ریزہ ریزہ ہوچکی سیاسی اشرفیہ کے ملبے میں اپنے قدم جمانے تھے بلکہ معاشرے کے دیگر افراد کو بھی سیاست کو کریئر کے طور پر اختیار کرنے کے لیے حوصلہ افزائی بھی کرنی تھی۔
کہا جاتا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے قیام کے لیے بیج اسی دور میں بوئے گئے تھے۔ سرسری نظر سے دیکھیں تو مشرف کا تجربہ شاید ناکام نظر آئے کہ اس سے اتنی بڑی سطح پر لوگ تیار ہی نہیں ہوپائے جو اپنا قبضہ جما پاتے۔ مگر ان دنوں میں میدان میں اتارے گئے کئی افراد کو کڑی راہوں سے گزرنا پڑا ہے۔ انہوں نے اپنا پرانا نعرہ برقرار رکھا ہے، تبدیلی کا نعرہ، اور انہوں نے عمران خان کے نصب العین کے ساتھ خود کو منسلک کردیا ہے۔
سیاستدانوں کی نئی کھیپ کو پنجاب میں ایک خاص حیثیت حاصل تھی۔ صوبے میں شریفوں کے پرانے حریف یعنی پیپلزپارٹی بارہا انتخابی ناکامیوں کے باعث ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی۔ اس کے ووٹرز کے درمیان ایک ایسی جماعت کے ساتھ کھڑے رہنے پر کافی زیادہ محتاط رہنے لگے کہ جس کے بارے میں انہیں معلوم تھا کہ وہ مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں بیلٹ گنتی میں دوسرے نمبر آنے والی ہے۔ اس کے باوجود مشرف کے اصلاحاتی دور کے دوران سیاسی منڈی میں لائے گئے ناموں میں سے ایک اچھی خاصی تعداد نے پیپلزپارٹی کو اپنی جائے پناہ بنائی۔
بعدازاں جب اس تبدیلی کے تالاب میں سب سے بڑی نہر عمران خان کی لہر میں شامل ہوئی تو اس بڑی نہر نے خود کو سونپے گئے کام کو قطع شدہ پایا۔ مسلم لیگ (ن) جیسے ثابت قدم سیاسی حریف کا مقابلہ کرنے کے لیے نئے سیاستدانوں پر مشتمل ایک نئے چہرے والے سیاسی کلچر کی تعمیر کا کام، یا پھر ایک نئی اشرافیہ کی تخلیق کا کام کہ جس میں نئے امیدوار بھی شامل ہوں۔
پنجاب کے سیاستدانوں کے لیے یہ ایک انتہائی کٹھن کام رہا ہے، خاص طور پر ان کے لیے جو بہت ہی زیادہ طاقتور شریفوں کی دائیں طرف اپنے لیے جگہ تلاش نہیں کر پائے تھے۔ پیپلزپارٹی کے بارہا استعمال شدہ اور گھسے پٹے نصب العین کی جگہ پی ٹی آئی کے نئے نعرے نے شاید تھوڑی سی آسانی پیدا کی ہو لیکن اس کے باوجود بھی مسلم لیگ (ن) کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنا ایک طویل مدتی منصوبہ ہے جو بہت زیادہ پرعزم شخصیات کے صبر اور وسائل کا امتحان لے سکتا ہے۔
فردوس عاشق اعوان ایک ایسی ہی مثال ہیں۔ گزشتہ 2 انتخابات کے دوران جب انہوں نے ایک بار پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر اور دوسری مرتبہ پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر انتخاب لڑا تب وہ اپنے ضلع میں مسلم لیگ (ن) مخالف مضبوط امیدواروں میں سے ایک ثابت ہوئیں۔ ہر بار ہی انہیں بھاری فرق کے ساتھ ناکامی کا سامنا کرنا پڑا مگر اس کے باوجود ان کی ساکھ اور ان کے کام نے انہیں ہزاروں ووٹ دلوائے۔ ان سے سیاست ترک کرنے کی توقع نہیں کی جاسکتی اور انہیں پرانی حکمران اشرافیہ کو بدلنا نہ بھی صحیح مگر اس پر وسعت دینے کے اپنے حقیقی مشن پر کاربند رہنا چاہیے۔
دوسری جانب پی ٹی آئی کو شریف مخالف جو بھی حلقہ موجود ہے اس میں سے تجربہ کار شخصیات کی تلاش جاری ہے، تاکہ ایسے پکے کھلاڑیوں کو ساتھ ملایا جائے جنہیں فردوس عاشق اعوان کی ہی طرح سہولت ملنے یا پھر سہولت نہ ملنے پر مذاق کا نشانہ بنانا آسان ہوتا ہے کہ جب وہ جماعت بدلتے وقت دھوکہ دیتے ہیں۔
حال ہی میں فردوس عاشق اعوان کے پیپلز پارٹی میں سابقہ ساتھی سیاستدان پیر صمصام بخاری کو جب کا پنجاب کا وزیر اطلاعات مقرر کیا گیا تو انہیں اسی طرح کی بھاری تنقید اور مذاق کا نشانہ بنایا گیا۔
جس طرح فردوس عاشق اعوان کو اپنے سابقہ رہنماؤں کی تعریف میں بولے گئے جملوں کو یاد دلایا جاتا ہے ٹھیک اس طرح پیر بخاری کے آگے ماضی سے تعلق رکھنے والے ہر قسم کے شواہد کا ڈھیر لگا دیا گیا۔ اس عمل کا مقصد سیاستدانوں کو شرمندہ کرنا تھا، وہ بھی پنجاب میں کہ جہاں اس پیشے کو جاری رکھنے کی طرف تھوڑا بہت جھکاؤ رکھنے والے سیاستدانوں کے لیے خود کو بحال رکھنے کا واحد راستہ پیپلزپارٹی سے پی ٹی آئی میں منتقلی رہا ہے۔ جس جگہ آصف زرداری اور ان سے پہلے بینظیر بھٹو جیسی شخصیات ناکام ہوگئی تھیں وہاں ان لوگوں کو سیاسی میدان میں اپنی جگہ بنائے رکھنے کی خواہش رکھنے پر کیا مورد الزام ٹھہرایا جاسکتا ہے؟
ہمیشہ تبدیلی کی تلاش میں رہنے والے بھلے انسانوں کے اذہان کو شاید اس سے بھی زیادہ مشکل سوال نے زیادہ پریشان کیے رکھا ہے۔ وہ ان سیاستدانوں کے زوال کو لے کر فکرمند ہیں جو بیڑیاں توڑنے کے لیے دلچسپی نہ رکھنے والوں اور الگ تھلگ رہنے والوں میں تحریک پیدا کرسکتے ہیں۔ ان کے لیے ہر طرح سے بہترین ماڈل کا دور دور تک اس دنیا سے تعلق نہیں جس میں رہ کر صمصام بخاری اور فردوس عاشق اعوان نے اپنا ہنر پکا کیا بلکہ اس ماڈل کا تعلق کسی وقت میں پی ٹی آئی تشکیل دینے والے لوگوں سے تھا۔
جہانگیر ترین، اسد عمر، عمران خان اور کسی حد تک چوہدری سرور جو مسلم لیگ (ن) کے ساتھ کام کرنے کے تجربے سے بیزار آچکے تھے۔ ان چند حضرات کو ان لوگوں میں امید جگائے رکھنے کے لیے مناسب حد تک بہتر حال میں ہونا تھا جو سیاست کی پرانی انسانی علامات سے تنگ آچکے ہیں۔ جس انداز میں یہ امید افزا تبدیلی ساز مشکل حالات کا سامنا کر رہے ہیں وہ پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کو فکر میں مبتلا کردے گا جو روایتی وسائل کے ساتھ ازراہ مجبوری مطمئن رہنے کے بجائے گونا گونیت چاہتے ہیں۔
بہت زیادہ منفی شہرت حاصل کرنے والا عثمان بزدار ماڈل بھی ایک آپشن ہے کہ جس نے لوگوں کو حکومت کی تشکیل کے دوران مختلف آپشنز کی دستیابی کے حوالے سے حقیقی طور پر امید جگائی تھی۔
سردار بزدار کا تعلق جاگیردارانہ پس منظر سے تھا، کہ جن کا سیاسی سفر جانے پہچانے مشرف کیمپ کے تبدیلی سازوں کے ساتھ شروع ہوتا دیکھا جاسکتا ہے۔ مگر شہباز شریف کے دنوں میں بننے والے حد سے زیادہ مرکزیت والے اقتداری سیٹ اپس کے پیش نظر اس لو پروفائیل وزیراعلیٰ سے افراد پر منحصر نظام سے زیادہ ایک زیادہ مشاورتی نظام کی تعمیر کی توقع وابستہ کی گئی۔ بزدار پروجکیٹ کی اچانک موت ان تبدیلی کے خواہاں افراد کے لیے ایک بڑا دھچکا ثابت ہوگی جو اسد عمر کی قبل از وقت رخصتی پر پریشان ہیں۔ ان کے لیے آپشنز کم ہوتے جا رہے ہیں۔
یہ مضمون 26 اپریل 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
تبصرے (1) بند ہیں