اینیمل فارم اور عوام
علامت نگاری فکشن میں ایک خاص اہمیت کی حامل ہے۔ یہ ایک ایسا فن ہے جس کے ذریعے مصنف اپنے نظریات، جذبات اور ذہنی حالات کو مختلف علامتی معنٰی دے کر بیان کرتا ہے۔ یہ علامتی معنی لفظی معنوں سے کہیں زیادہ گہرے ہوتے ہیں۔ گوکہ علامت نگاری ایک دشوار کام ہے لیکن یہ انداز مصنف اور اس کی تصنیف کو اگلی کئی دہائیوں تک دوام بخشتا ہے۔
برطانوی مصنف جارج آرویل کا شہرۂ آفاق ناول ’اینیمل فارم‘ بھی علامت نگاری پر مبنی ہے جس میں ایک فارم میں بسنے والے جانور اپنے استحصال سے بیزار ہوکر اپنے مالکان کو بھاگنے پر مجبور کردیتے ہیں اور پھر فارم پر قبضہ کرلیتے ہیں۔
بغاوت کے بعد اسنوبال اور نیپولیئن نامی دو سؤر فارم کو برابری کی بنیادوں پر چلانے میں جانوروں کی قیادت کرتے ہیں۔ فارم میں پَن چکی بنانے کے معاملے پر دونوں میں شدید اختلافات ہوجاتا ہے اور نیپولیئن اپنے 9 پالتو کتّوں سے اسنو بال پر حملہ کروا دیتا ہے۔ جس کے نتیجے میں اسنو بال جان بچا کر بھاگ جاتا ہے۔ اس کے بعد فارم میں ہونے والی ہر ہر حرکت کا الزام اسنو بال کے سَر ٹھہرایا جاتا ہے۔
نیپولیئن اپنے خون خوار کتوں کے ساتھ جانوروں کے لیے ایک دہشت کی علامت بن جاتا ہے۔ وہ کسی بہانے پڑوسی فارم کے مالکان کے ساتھ تجارتی روابط استوار کرکے انقلاب کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ چند روز بعد نیپولیئن جانوروں کے باڑے کے بجائے فارم ہاؤس میں منتقل ہوجاتا ہے اور اپنی دھاک بٹھانے کی خاطر نافرمان جانوروں کا قتل کرکے فارم کے قوانین توڑتا ہے۔ اکثر جانوروں کو ڈرا کر رکھنے کے لیے فارم پر دشمنوں کے حملے کی افواہیں بھی پھیلائی جاتی ہیں ۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سؤر طاقت کے نشے میں چُور بدعنوان ہوتے جاتے ہیں اور نیپولیئن کی قیادت میں ظلم و جبر پر مبنی ایک آمرانہ حکومت قائم کرلیتے ہیں۔ فارم میں سؤروں کی اہمیت بڑھتی جاتی ہے۔ سؤر اور کتّے کوئی کام نہیں کرتے لیکن سب جانوروں کو باور کروایا جاتا ہے کہ قیادت اور ذہنی کام کا بوجھ سؤروں کے شانوں پر ہے۔ عام جانوروں سے غلاموں کی طرح کام لیا جاتا ہے۔ ان کے کام کے اوقات کار بڑھا دیے جاتے ہیں اور راشن میں بھی بتدریج کمی کی جاتی ہے۔ جانوروں کی دن رات محنت کی وجہ سے فارم ترقی کرتا جاتا ہے اور آمدنی بھی بڑھتی جاتی ہے لیکن جانوروں کے حالات بد سے بد ترین ہوتے جاتے ہیں، جبکہ سؤروں اور کتوں کا وزن بڑھتا جاتا ہے۔
آخر کار سؤر اپنے آپ کو دوسرے سب جانوروں پر برتر ثابت کرتے ہیں۔ فارم کا آخری اصول ’سب جانور برابر ہیں‘ کو تبدیل کرکے ’سب جانور برابر ہیں لیکن کچھ جانور باقیوں سے زیادہ برتر ہیں‘ کردیا جاتا ہے۔
اس ناول کی اشاعت کو 70 سال سے زائد عرصہ گزر گیا ہے لیکن آج بھی یہ ناول ہر صورتِ حال پر پورا اترتا ہے۔ ناول کے اہم دلائل میں
- دشمن بنانا (اگر کوئی دشمن نہیں تو اس کا مفروضہ قائم کرکے عوام کو خوفزدہ کرنا)،
- دشمن کے ارادوں کے بارے میں عوام میں افواہیں پھیلانا۔
انہی دونوں عوامل کی مدد سے عوام کا استحصال کرتے رہنا ہی بنیادی پالیسی ہے۔
یہ ظلم، جبر و استبداد دنیا کے ہر ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ملک میں ہوتا ہے۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ کا آغاز کرنے کے لیے امریکا کو کوئی دشمن چاہیے تھا تو اس نے افغانستان اور عراق کو دشمن بنا لیا۔ کولن پاول کی اقوامِ متحدہ میں جھوٹ پر مبنی 2 گھنٹے کی عراق مخالف تقریر کی وجہ سے امریکی عوام کی اکثریت نے عراق کو دشمن مان لیا۔ میڈیا کے ذریعے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی جھوٹی افواہیں پھیلا کر عراق پر حملہ کیا گیا۔
سیاسی سربراہ ملکی سلامتی، قومی ترقی، انقلاب اور سونامی کے نام پر عوام سے زیادہ سے زیادہ کام لینے اور ہر قربانی لینے کی خواہش رکھتے ہیں۔ محنت کش عوام سے ملکی معیشت میں ہاتھ بٹانے کی اپیلیں اور معیشت کے غلط اشاریے بتا کر ہر وقت پِستی ہوئی عوام کو امیدوں کا سہارا دینا عام ہوگیا ہے۔ عوام کو بہلانے کے لیے مختلف قومی گیت، قومی یادگار، قومی دنوں پر جھوٹ پر مبنی کہانیاں سنا کر عوام کو قومی پرچم کو ہمیشہ بلند رکھنے کے عزم کے بہانے صدیوں سے استحصال کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
ملک دشمن عناصر، غیر ملکی ہاتھ اور عوام کی جانوں کی حتیٰ الامکان حفاظت جیسے اسٹیریو ٹائیپ بیانات ہر لمحہ لکھے رکھے ہوتے ہیں۔ حکمران صرف انہیں پڑھنے کی تکلیف کرتے ہیں۔ پھر عوام ان جذبات سے لبریز حالات سے متاثر ہوکر اپنے سب مسائل بھول کر بغلیں بجاتی پھرتی ہے۔
مختصر طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ دنیا بھر میں حکومتیں بدلتی رہتی ہیں، اور مجھے یہ کہنے دیجیے کہ انقلاب، جمہوریت اور آزاد میڈیا کے نعرے عوام کو بے وقوف بنانے کے سوا کچھ نہیں۔ حکمران خوش حال سے خوش حال تر اور غریب کے حالات بد سے بد ترین ہوتے جاتے ہیں اور یہ خواص اور عوام کی تفریق حکمران خود ہی صدیوں سے قائم رکھے ہوئے ہیں۔
تبصرے (3) بند ہیں