ریزہ ریزہ ہوتا حیدرآباد کا پکا قلعہ
تحریر و تصاویر: اختر حفیظ
بچپن میں اپنے بڑوں سے جب بھی کہانیاں سنا کرتے تو ان میں محل کا ذکر ضرور ہوتا تھا، جہاں کوئی رانی رہتی تھی، کوئی بادشاہ حکم صادر کرتا تھا یا پھر شہزادی کو کوئی جن قید کرلیتا تھا اور کوئی بہادر نوجوان اسے آزاد کرانے کے جتن کرتا تھا۔
بچپن میں ہمارے لیے یہ ایک تصوراتی دنیا تھی۔ مگر محل اور قلعے کیسے ہوتے ہیں، انہیں جب اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھا تو وہ ہمارے بچپن کے تصور کی حقیقی تصویر ہی معلوم ہوئے۔
آج قلعے بادشاہوں اور ملکاؤں سے خالی ہیں مگر پھر بھی یہ ہمیں اس زمانے کی یاد ضرور دلاتے ہیں جب یہ آباد تھے اور یہاں سے حکم صادر کیے جاتے تھے یا کسی فریادی کی فریاد سنی جاتی تھی۔
انسانی تہذیب کی کہانی کو پڑھا جائے تو اس میں قلعے، محل اور دیگر عالیشان عمارتیں دنیا کے ہر خطے میں نظر آجاتے ہیں۔ اپنے اپنے ادوار میں عوام پر حکمرانی کرنے والے بادشاہوں نے جہاں ان قلعوں میں رہ کر راج کیا ہے، وہاں انہوں نے خود کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے بھی مختلف مقامات پر قلعے بنوائے۔ مگر آج ان قلعوں کی حالت دن بدن بگڑتی جا رہی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ وقت کے زور کے آگے یہ قلعے اپنے گھٹنے ٹیک چکے ہیں۔ قلعوں کی دنیا جہاں رنگینیوں سے پھرپور ہوا کرتی تھی وہیں محلاتی سازشوں کے قصے بھی انہیں قلعوں کی اونچی دیواروں اور حرم کے اندر پنپتے رہتے تھے۔ پھر ایک روز ایسا بھی آتا ہے کہ تخت گرائے جاتے ہیں اور تاج اچھالے جاتے ہیں۔ لہٰذا یہ قلعے ایسے ویران ہوجاتے ہیں جیسے کبھی آباد تھے ہی نہیں۔ مگر ہر حکمران کے عروج و زوال کی اپنی اپنی کہانی ہوتی ہے۔
آج ذکر کرتے ہیں ایک ایسے ہی قلعے کا، جس کی شان و شوکت کے قصے کئی کتابوں میں درج ہیں۔ اس قلعے سے جڑے کئی تاریخی واقعات بھی تاریخ کے ان اوراق میں درج ہیں، جن کے بغیر سندھ کی تاریخ نامکمل ہے۔ یہ قلعہ سندھ کے شہر حیدرآباد میں قائم ہے، جسے پکا قلعہ کہا جاتا ہے۔
آج جس جگہ حیدرآباد شہر آباد ہے، اسی مقام پر ماضی میں نیرون کوٹ تھا، موجودہ حیدرآباد کی بنیاد میاں غلام شاہ کلہوڑہ نے رکھی، انہوں نے 1768ء میں اس قلعے کی بنیاد رکھی اور درالخلافہ خدا آباد سے حیدرآباد کو بنایا۔
’اے اللہ اس شہر کو امن کا گہورہ بنا‘
یہ وہ الفاظ تھے جو یہاں سے ملنے والے ایک کتبے پر درج تھے۔ شہروں کے لیے دعائیں تو کی جاسکتی ہیں مگر شہروں کو اجاڑنے والے بھی اسی دنیا میں جنم لیتے ہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ آج دنیا میں کئی اجڑے ہوئے شہر ہمیں مدفون حالت میں نظر آتے ہیں۔ برطانوی ڈاکٹر ہیڈل نے حیدرآباد کے حوالے سے تفصیلات دیتے ہوئے لکھا کہ ’حیدرآباد کا قلعہ 40 گز کشادہ کھائی کے ذریعے شہر سے کٹا ہوا تھا اور یہی قلعے کے دفاع کا واحد وسیلہ تھا۔ مذکورہ کھائی چٹان کے باہر جنوبی علاقے کو الگ رکھتی تھی، جس پر قلعہ تعمیر کیا گیا تھا۔ اس لیے آمد و رفت پل کے ذریعے برقرار رکھی جاتی تھی۔ قلعے کے مرکزی دروازے کے آگے جو دفاع کی خاطر ایک نیم گھومتی ہوئی دیوار تھی، اس کے دونوں اطراف ایک گلی تھی جسے اب شاہی بازار کہا جاتا ہے۔'
اس قلعے کے اندر جو رہائش بنی ہوئی تھی، اس میں صاحبزادوں کے محل، دیوان خاص، دیوان عام، میروں کے دربار، ملازموں کے کمرے، مسجدیں اور حرم خانے شامل تھے۔
پٹالا
کئی تاریخ دان اس علاقے کو پٹالا بھی کہتے ہیں۔ دریائے سندھ کی موج مستی اور تبدیل ہوتے ہوئے بہاؤ کو دیکھ کر کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ پٹالا والا دہرا بہاؤ بھی حیدرآباد کے پاس سے گزرتا تھا۔
پٹالا کا سب سے پہلا ذکر سکندر کے ساتھ آئے یونانی جغرافیہ دانوں و تاریخ دانوں کی تحریروں میں ملتا ہے۔ نامور لکھاری اریئن اپنی کتاب ’سکندر کی مہمات‘ میں لکھتے ہیں کہ ’سکندر نے جہلم میں کشتیاں بنوا کر فوج کو ساتھ لیکر سندھ پر حملہ کیا۔ حملے کے وقت سندھ پر سامبا نسل کا راجا سامبس راج کیا کرتا تھا۔ پٹالا، سیوستان اور دیبل پر چھوٹے چھوٹے راجاؤں کی حکمرانی تھی جو سامبس کے ماتحت تھے۔ سکندر کے ساتھ مصری اور فنیقی ملاحوں کے دستے تھے۔ راجا سامبس نے تو سکندر سے مقابلہ کیا مگر پٹالا کے راجا موکریس نے بنا مقابلے ہی شکست قبول کرلی۔ پھر تیسرے روز سکندر کو علم ہوا کہ پٹالا کے راجا نے اپنی رعایا کو حکم دیا ہے کہ شہر خالی کرکے بھاگ جاؤ، پھر جب سکندر پٹالا پہنچا تو شہر ویران تھا۔‘
ماہرین لسانیات کے مطابق پٹالا کا لفظ پاتال سے نکلا ہے، جو ایک قسم کا پھول بھی ہے۔ چند کا خیال ہے کہ پٹالا دراوڑی زبان کا لفظ ہے، جب سفید جلد والے آریا خشک اور ٹھنڈے وسطی ایشیا سے سندھ آئے تو یہاں آب و ہوا نمی والی تھی، اس لیے اسے پاتال کہنے لگے۔
قلعے کا نام اور بناوٹ
اس قلعے کے نام کے حوالے سے بھی کافی روایات ہیں، مگر تاریخ میں روایات نہیں بلکہ ٹھوس شواہد اہم ہوتے ہیں۔ اس میں سے ایک یہ بھی ہے کہ یہاں کسی زمانے میں راجا نیرون ہوا کرتا تھا، جس کی بیٹی نگار تھی۔ محب اللہ بکھری لکھتے ہیں کہ ’حیدرآباد دراصل نیرون کے نام سے مشہور ہے، مغلوں کی فتح کے بعد یہ شہر حیدرآباد کہلانے لگا'۔
یہ قلعہ حیدرآباد ریلوے اسٹیشن کے برابر میں موجود ہے۔ جس کا قطر ایک میل اور اونچائی 80 فٹ ہے۔ اس کی چوڑائی 26 ایکڑ بتائی جاتی ہے، جبکہ لطف اللہ مالوی سندھ کے سفر میں لکھتے ہیں کہ 'شاہی قلعہ بیضوی شکل کا ہے جو پکی اینٹوں اور کیچڑ سے بنا ہوا ہے'۔
ناتھن کرو 1799ء میں سندھ آئے اور یہاں 17 ماہ رہے۔ انہوں نے لکھا 'حیدرآباد کے کوٹ کی ایک بڑی دیوار ہے جس میں چند بھاری توپیں رکھی ہوئی ہیں، دیوار پتلی ہے، مگر اندر مٹی بھری ہوئی ہے۔ کچھ مٹی اصلی اور کچھ مصنوعی ہے۔ لہٰذا دیوار کو توڑنا مشکل ہے'۔ والٹر ہیملٹن نے 1820ء میں لکھا کہ 'یہ قلعہ ایک چٹان پر قائم ہے اور ایک ہزار قدم لمبا ہے۔ جس کی ایک جانب پھلیلی اور دوسری جانب 3 میل کے فاصلے پر دریائے سندھ ہے'۔
میاں غلام شاہ کہلوڑا کو یہ قلعہ اتنا پسند تھا کہ ایک روز انہوں نے قلعے کی تعریف میں لوگوں کو مدعو کیا اور قصیدے پڑھوائے۔ انہوں نے شعرا کو انعام و اکرام سے بھی نوازا اور اسی مجلس میں انہوں نے نیرون کوٹ کے لیے حیدرآباد نام تجویز کیا اور ایک سنگِ مرمر کی تختی بنوا کر قلعے کے مرکزی دوازے پر لگوائی۔
دیوان خاص اور دیوان عام
قلعے میں 2 اہم ترین دیوان تھے۔ قلعے کے اندر میر نصیر نے ایک عمارت بنوائی تھی، جس میں میر صاحب دربار کیا کرتے تھے۔ جس کے آنگن کے ستونوں اور اندر کی چھت پر نقش نگار بنے ہوئے تھے۔ دیواروں پر بھی رنگین تصاویر تھیں، جن میں کچھ رستم سہراب کی تھیں اور چند میں میروں کی دربار کو دکھایا گیا تھا۔ اس عمارت کو دیوان خاص کہا جاتا تھا۔
جبکہ ایک دیوان عام تھا، جو دیوان خاص کے شاہی دروازے کے سامنے تھا۔ جمیس برنس لکھتے ہیں کہ 'دیوان عام کی عمارت کی دیواریں ہر طرف سے بہت ہی خوبصورت تصاویر سے سجائی گئی ہیں اور فرش پر رنگ برنگے غالیچے بچھے ہوئے تھے۔ ایک جانب سے 3 بلند محرابی دروازے تھے، جن پر سبز ریشمی رنگ کے پردے لٹک رہے تھے۔ بلوچ سردار خوبصورت ریشمی پھولدار تکیوں کو ٹیک لگا کر بیٹھے تھے۔'
مگر پکا قلعہ سندھ کے ان قلعوں میں سے ہے، جس سے تاریخی طور کئی واقعات منسلک ہیں۔ کہلوڑا حکمرانوں کے بعد یہ تالپور حکمرانوں کے زیرِ اثر رہا، جو اس قلعے پر تب تک رہے، جب تک انگریز سندھ کے اقتدار پر قابض نہیں ہوئے۔ یہ سندھ میں وہ دور تھا جب انگریز تالپوروں سے معاہدے کرتے چلے گئے اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ میانی اور ہالانی والی جنگوں میں تالپوروں کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔
انگریزوں کا قبضہ اور برطانوی پرچم
میر مراد علی کے علیل ہونے کے بعد 1824ء میں انگریز حکومت نے ڈاکٹر جیمس برنس کو حیدرآباد بھیجا، جنہوں نے میر صاحب کا علاج کیا۔ میر نور محمد خان کے دنوں میں انگریز سرکار نے حیدرآباد میں ایک ریزیڈنٹ مقرر کیا۔ 1824ء میں ہی سر چارلس نیپیئر یہاں آئے۔ اس زمانے میں ان کی سندھ کے حکمرانوں سے نہیں بنی اور ان پر الزام ہے کہ انہوں نے میان خان مری کو بے گناہ قتل کروایا تھا۔ 1839ء میں جنرل کین، جو کراچی سے لشکر لے کر شاہ شجاع کی مدد کے لیے جا رہے تھے، وہ کوٹڑی کے مقام پر اتر کر حیدرآباد شہر گھومنے آئے۔
مگر یہ 19 فروری 1843ء کا دن تھا جب سندھ پر برطانیہ قابض ہوگیا اور کیپٹن پیلے نے قلعے کے عملے کو آگاہ کیا کہ کل قلعے پر برطانوی پرچم لہرایا جائے گا۔ 20 فروری دوپہر 2 بجے کرنل پٹیل، گھڑ سواروں، پیادوں اور 2 توپوں کے ساتھ قلعے میں داخل ہوئے اور قلعے پر برطانیہ کا جھنڈا لہرا دیا۔
یہ وہ تمام تر تاریخی واقعات ہیں جو ہمیں اس قلعے پر گزرنے والے نشیب و فراز کے بارے میں بتاتے ہیں، مگر آج اس قلعے کو دیکھ کر بے حد افسوس ہوتا ہے۔ ہندوستان کی تقسیم کے بعد ہنگامی بنیادوں پر جن لوگوں کو قلعے میں آباد کیا گیا تھا، وہ آج تک یہاں آباد ہیں۔
یہ قلعہ اب اپنے اندر ایک پورا شہر بن چکا ہے، جہاں لوگوں کے گھر ہیں، کھیل کا میدان ہے، پارک ہیں، گلیاں اور راہداریاں ہیں۔ لوگ چھوٹے چھوٹے گھروں میں یہاں رہائش پذیر ہیں۔ مگر اب قلعے کی دیواریں ان گھروں کے بوجھ تلے ہی دب رہی ہیں۔ وہاں کی دیواریں اب چُور چُور ہورہی ہیں۔ فصیلیں غائب ہوچکی ہیں اور اندر گٹر نالے بہہ رہے ہیں۔
گھروں کے بن جانے کی وجہ سے 3 اطراف سے اب قلعے کی دیوار دکھائی ہی نہیں دیتی جبکہ مشرق کی جانب برج والی دیوار اب بھی دکھائی دیتی ہے مگر اس کی اینٹیں بھی اکھڑ چکی ہیں۔ اسی دیوار کے نیچے کئی دکانیں بھی ہیں، جبکہ کئی بار تو قلعے کی دیواریں گرنے کے واقعات بھی پیش آچکے ہیں، مگر تمام تر مسائل کے باوجود لوگوں کو اس قلعے میں رہنے کی ایسی عادت پڑ چکی ہے کہ ان کے لیے کہیں اور آباد ہونا ناممکن سا لگتا ہے۔
کچھ عرصے پہلے تک اس قلعے میں میر حرم عمارت تھی، جس کا اب نام و نشان بھی نہیں ہے کیونکہ اسے حال ہی میں مسمار کردیا گیا ہے۔ میر حرم اس قلعے کی ایک یادگار عمارت تھی، جسے میروں کی دربار بھی کہا جاتا تھا۔
قلعے کی مرمت اور تحفظ کے لیے محکمہ آرکیالوجی نے 87 کروڑ مختص کیے ہیں مگر اس کے باوجود یہ قلعہ دن بدن زوال کا شکار ہو رہا ہے۔ بارشوں، موسم کی سختیوں اور وقت کی مار قلعے کو بتدریج تباہ حالی کی جانب دھکیل رہی رہے۔ قلعے کے مرکزی دروازے سے داخل ہوتے ہی اس کی تباہ حالی نظر آنی شروع ہوجاتی ہے۔
پکا قلعہ نہ صرف حیدرآباد بلکہ سندھ کی بھی ایک پہچان بنا ہوا ہے، مگر اس تاریخی ورثے کو سنبھالنے اور بہتر کرنے کے بجائے ہم اسے برباد کررہے ہیں۔ مگر کیا اس کی گرتی دیواروں کا غم یہاں آباد لوگوں یا وقت کی حکومت کو بھی ہے؟
مجھے نہیں معلوم کہ ریزہ ریزہ ہوتے حیدرآباد کے پکے قلعے کو بھی کراچی کی ایمپریس مارکیٹ کی طرح بحال کرنے کے بارے میں سوچا جائے گا یا نہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسا سوچنا اور اس پر عمل کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ سندھ کی تاریخ کے اہم ترین سیاسی واقعات اس قلعے سے ہی وابستہ ہیں۔
حوالاجات: سندھ جا کوٹ ائیں قلعا- اشتیاق انصاری حیدرآباد جی تاریخ- حسین بادشاہ
اختر حفیظ سندھی زبان کے افسانہ نگار اور صحافی ہیں، اور ایک سندھی روزنامے میں کام کر ریے ہیں۔ ان سے ان کے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
تبصرے (25) بند ہیں