چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی قائم مقام صدر بننے کیلئے اہل قرار
اسلام آباد ہائیکورٹ نے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی نااہلی کے لیے دائر درخواست کو مسترد کردیا، جس کے بعد وہ قائم مقام صدر بننے کے لیے قانونی طور پر اہل ہیں۔
عدالت عالیہ کے جسٹس عامر فاروق پر مشتمل سنگل بینج نے فیصلہ سناتے ہوئے صادق سنجرانی کے بطور چیئرمین سینیٹ ’کم عمر‘ ہونے پر دائر کی گئی نااہلی کی درخواست کو خارج کیا۔
جسٹس عامر فاروق کی جانب سے کھلی عدالت میں بہت مختصر فیصلہ سناتے ہوئے کہا گیا کہ ’اس درخواست کو مسترد کیا جاتا ہے‘۔
مزید پڑھیں: ‘چیئرمین سینیٹ کی رولنگ پر وزیراعظم اور کابینہ کو افسوس ہوا‘
قبل ازیں اختتامی دلائل میں ڈپٹی اٹارنی جنرل راجا خالد محمود خان کی جانب سے کہا گیا تھا کہ آئین میں قائم مقام صدر کے لیے کوئی مقررہ عمر نہیں اور چیئرمین سینیٹ، صدر کی غیر موجودگی میں ان کا دفتر سنبھال سکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا تھا کہ ایوان بالا کے رکن کے لیے عمر کی حد کم سے کم 30 سال ہے اور سینیٹ اپنے اراکین میں سے ہی چیئرمین کا انتخاب کرتا ہے۔
واضح رہے کہ عدالت میں دائر درخواست میں موقف اپنایا گیا تھا کہ صادق سنجرانی کی عمر 40 برس ہے اور وہ صدر مملک ڈاکٹر عارف علوی کی غیر موجودگی میں ان کے دفتر کو سنبھالنے کی بنیادی ضرورت پر پورا نہیں اترتے۔
درخواست گزار کے مطابق قائم مقام صدر کی عمر 45 سال سے کم نہیں ہونی چاہیے اور آئین نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر کے عہدے کے لیے عمر کی حد کی وضاحت کی ہے۔
اس درخواست پر چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے عدالت کے سامنے اپنے جواب میں کہا تھا کہ ’درخواست گزار نے مذموم مقاصد کے ساتھ یہ درخواست دائر کی‘۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ درخواست بغیر کسی مقصد کے صرف کارروائی کے لیے دائر کی گئی اور اسی طرح کی ایک درخواست کو بلوچستان ہائیکورٹ پہلے ہی مسترد کرچکی ہے۔
اس کے علاوہ درخواست گزار نے اس معاملے پر کوئی صحیح موقف بھی پیش نہیں کیا۔
صادق سنجرانی کا اپنے جواب میں کہنا تھا کہ ’آئین سب سے اعلیٰ ہے اور اس میں بتائے گئے طریقے کے ذریعے صرف پارلیمنٹ کی جانب سے ترمیم کی جاسکتی ہے، درخواست گزار کی جانب سے آئینی اسکیم کو چیلنج کرنا بدنیتی ہے اور اس پر فیصلہ حاصل کرنے کی کوشش موجودہ اسکیم کے برعکس ہوسکتی ہے‘۔
یہ بھی پڑھیں: صادق سنجرانی چیئرمین، سلیم مانڈوی والا ڈپٹی چیئرمین سینیٹ منتخب
اس تحریری جواب میں دعویٰ کیا گیا کہ ’یہ درخواست گزار کی بظاہر عادت لگتی ہے اور وہ بغیر کسی مقصد یا زمینی حقائق کے آئینی عہدہ رکھنے والوں کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں‘، لہٰذا عدالت سے استدعا ہے کہ وہ اس درخواست کو مسترد کرے۔
دوسری جانب وزارت قانون نے اپنے تحریری جواب میں کہا تھا کہ درخواست قابل سماعت نہیں اور اس میں درخواست گزار کا موقف درست نہیں، ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا یہ دائرہ اختیار نہیں کیونکہ آئین کے آرٹیکل 199 کی روشنی میں درخواست گزار کوئی متاثرہ شخص نہیں۔
چیئرمین سینیٹ کی عمر کے حوالے سے وزارت قانون کا کہنا تھا کہ عوامی عہدہ رکھنے کے لیے منتخب ہونے یا تقرر کیے جانے والے شخص کی اہلیت اور عارضی طور پر یہ عہدہ سنبھالنے والے کی اہلیت میں ہمیشہ فرق موجود ہے۔