پاکستان میں 2018 میں آن لائن اظہار رائے پر قدغن رہی، رپورٹ
پاکستان میں 2018 میں انٹرنیٹ کے استعمال کے حوالے سے شائع ہونے والی تازہ رپورٹ میں مقامی ڈیجیٹل اداروں سمیت ملک میں انٹرنیٹ تک رسائی میں دشواری، آزادی اظہار پر وسیع پیمانے پر ریاستی کنٹرول اور ڈیٹا پرائیوسی کو لاحق خطرات کی نشان دہی کی گئی۔
کراچی کے مقامی ہوٹل میں ایک تقریب میں پاکستان انٹرنیٹ لینڈ اسکیپ رپورٹ 2018 میں انٹرنیٹ تک رسائی، سینسرشپ اور پرائیوسی، سائبر کرائم اور ہیکنگ، چائلڈ پورنوگرافی، گستاخانہ (مواد)، جعلی خبریں، ای کامرس سمیت دیگر مسائل پرتفصیلی اعداد وشمار پیش کیے گئے۔
انسانی حقوق کی تنظیم بائیٹس فار آل پاکستان کے زیراہتمام شائع ہونے والی رپورٹ کے تخلیق کار چیف ڈیجیٹل اسٹریٹجسٹ اور ایڈیٹرڈان ڈاٹ کام جہانزیب حق ہیں۔
رپورٹ کے چیدہ چیدہ نکات پیش کیے جانے کے بعد تقریب کا باقاعدہ آغاز کیا گیا جہاں پینل میں رپورٹ کے تخیلق کار جہانزیب حق سمیت سینئر صحافی اور ٹی وی شو کے میزبان ضرار کھوڑو، وومن ایڈوانسمنٹ حب کی شریک بانی عائشہ سروری اور انسانی حقوق کی رہنما ماروی سرمد شامل تھیں۔
سالانہ رپورٹ میں آن لائن سے متعلق امور میں متعدد منفی اشاریے ریکارڈ کیے گئے جس میں ’ریاستی عناصر اور ان کی جانب سے انٹرنیٹ پر کنٹرول سے مسائل پیدا ہوئے‘۔
بائیٹس فار آل کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں مزید کہا گیا کہ 2017 کے مقابلے میں گزشتہ برس ای کامرس اور بینکنگ کے شعبے میں فنانشل ٹیکنالوجی کے رحجانات میں مثبت اشاریے نوٹ کیے گئے۔
رپورٹ کے مصنف نے کہا کہ ’بعض مثبت اقدامات کے باوجود وسیع پیمانے پر ملک میں انٹرنیٹ کے فروغ میں مربوط، ترقی پسند اور سنجیدہ رویے میں کمی دیکھنے میں آئی‘۔
بائیٹس فار آل کی بورڈ چیئرمین ماروی سرمد نے کہا کہ ’اس سے قبل شائع ہونے والی رپورٹ کے بعد سے پاکستان میں آزادی اظہارپر وسیع پیمانے پر قدغن رہی، سینسرشپ میں اضافہ ہوا، پبلک پالیسی سے متعلق فیصلے سازی کے عمل کو خفیہ رکھا گیا اور آزادی سے متعلق شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی‘۔
رپورٹ کے چند اہم نکات مندرجہ ذیل ہیں:
- پاکستان میں مجموعی طورپر انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا، صرف موبائل فون کے ذریعے انٹرنٹ تھری جی/ فور جی کے صارفین کی تعداد 6 کروڑ 20 لاکھ رہی جو کہ 29.55 فیصد بنتی ہے۔
انٹرنیٹ تک رسائی کے تناظر میں دیہی اور شہری علاقوں میں بنیادی چینلج رہا، سماجی و اقتصادی تقسیم بہرحال اپنی جگہ ایک مسئلہ ہے۔
سیکیورٹی کے نام پر موبائل فون کمپنیوں کی سروسز معطل کرنے کا رحجان تاحال جاری ہے۔
ریاست نے قانون نافذ کرنے والے اداروں سمیت انٹرنیٹ کے ذریعے ریاستی امور میں بہتری لانے کے لیے محدود پیمانے پر کوششیں کیں۔
سائبر کرائم بل میں پہلے سے شامل گشاخانہ شق کو غلط استعمال کر کے آن لائن اور آف لائن صارفین کے لیے مسائل پیدا ہونے کے خطرات اپنی جگہ موجود ہیں۔
چائلڈ پورنوگرافی کی روک تھام کے لیے متعدد اقدامات اٹھائے گئے جس میں آگاہی سمیت گرفتاریاں بھی عمل میں لائی گئیں تاہم ملک میں چائلڈ پورنوگرافی کے موجودہ اعداد و شمار پریشان کن ہیں۔
پاکستان میں ڈیٹا اور پرائیوسی کو سنگین نوعیت کے خطرات کا سامنا رہا اور آن لائن سروس کریم سمیت بینک اسلامی کی ایپلیکیشن کو ہیکرز نے نشانہ بنایا، عام انتخابات میں بھی صارفین کی تفصیلات سیاسی مقاصد کے لیے تقسیم کی گئیں۔
ریاستی اور دیگر غیرریاستی عناصر کی جانب سے سماجی کارکنوں اور صحافیوں کی نگرانی کا سلسلہ جاری رہا اور انہیں ہراساں کیا گیا اور دھمکایا گیا۔
روایتی میڈیا اور اس سے منسلک صحافیوں کو دھمکی، ہراساں، تشدد اور مالی نقصان کے پیش نظر خودساختہ سینسرشپ کا سامنا رہا جس میں آن لائن بھی شامل ہے۔
- انتخابات کے دوران سیاسی جماعتوں نے آن لائن اسپیس کے ذریعے کامیابی حاصل کرنے کی جان توڑ کوشش کی جس کے نتیجے میں نفرت آمیز رویہ اور سیاسی مخالفین کے خلاف جعلی خبروں کا غیرمعمولی تناسب ریکارڈ کیا گیا۔
سوشل میڈیا پر مشتمل صارفین خصوصاً واٹس ایپ اور فیس پر جعلی خبروں کی تشہیر بڑے پیمانے پر چینلج بنی رہی۔
شاید سب سے بڑی اور قابل ذکر مثبت پیش رفت فنانشل ٹیکنالوجی/ آن لائن بینکنگ اور ای کامرس فرنٹ پر رہی۔