موجودہ دور میں بچوں کے ساتھ والدین کو بھی تربیت درکار ہے
تربیت کی جتنی زیادہ ضرورت بچے کو ہوتی ہے، بطور والدین اتنی ہی تربیت کی ضرورت خود آپ کو ہوتی ہے۔ موجودہ دور کے والدین کو جن نئے اور انوکھے مسائل کا سامنا ہے اسے دیکھتے ہوئے والدین کے لیے پیرنٹنگ گائیڈ پہلے سے زیادہ اہم بن چکی ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ ہمیں خوش رہنا چاہیے لیکن کیا ہم ہر دن خوش ہوتے ہیں؟ جس طرح کوئی دوست ہمیں ہیلو کہہ دے یا کوئی خوبصورت سا پیغام ارسال کردے تو ہمیں خوشی کے لیے ترغیب مل جاتی ہے۔ ٹھیک اسی طرح ہم جانتے ہیں کہ ہم سب کو اچھا والد یا اچھی والدہ بن کر رہنا ہے، مگر ہمیں بھی وقتاً فوقتاً ترغیب اور یاد دہانی درکار ہوتی ہے۔
بچے کی سنیے
ہم بچوں کو پالنے میں اس قدر مصروف اور انہیں اپنے اصولوں کے مطابق یہ دنیا دکھانے میں اتنے مشغول ہوتے ہیں کہ بچوں کے وجود سے اپنے فائدے کا سبق حاصل کرنا بھول جاتے ہیں۔ شاید آپ کو یہ بات عجیب سی لگے کہ بھلا ایک یا 2 سال کا بچہ بھلا کیا ہدایت دیتا ہوگا جو انہیں پالنے جیسے الجھے موضوع کے لیے مفید ثابت ہوتی ہوں۔
مزید پڑھیے: دودھ پلانے والی ماؤں کو کھانے کی کن چیزوں سے احتیاط کرنی چاہیے؟
مگر ان کے وجود سے حاصل ہونے والی ہدایات ہی آپ کے لیے بچوں کو پالنا آسان اور آپ کو دباؤ سے آزادی کا باعث بنتی ہیں۔ آپ کو چاہیے کہ آپ بچوں کی جسمانی چال ڈھال یا باڈی لینگویج نوٹ کریں، یہ نظر رکھیں کہ آپ کا 4 سالہ بچہ کس کردار کی نقل کرتا رہتا ہے؟ اور اگر آپ کا بچہ بڑا ہے تو اس کے ساتھ بیٹھیے اور اس کے ساتھ دن بھر کی مصروفیات اور احساسات کا احوال معلوم کریں۔ اس طرح بچہ خود آپ کو یہ ہدایات دے گا کہ وہ آپ سے کیا چاہتا ہے۔ بچوں سے حاصل ہونے والی ان باتوں کی مدد سے آپ انہیں پالنے کے انداز کو مزید مؤثر بناسکتے ہیں۔
گلاب کی خوشبو سونگھنے رُک جائیں
مصروف زندگی کی بھاگ دوڑ میں چھوٹی چھوٹی خوشیوں اور لمحات کے لیے وقت نکالتے رہیں۔ اگر آپ بچے کو بازو سے پکڑ کر خریداری کرنے گئے، پھر اسے کھینج کر گھر لائے، پھر اسے جلدی جلدی دیگر کلاسز کے لیے لے گئے، تو اس طرح آپ پائیں گے کہ بچے سستی و کاہلی کا شکار بنتے چلے جائیں گے۔
درحقیقت یہ سستی یا کاہلی نہیں بلکہ وہ اپنے آس پاس کے ماحول یا مختلف چیزوں کو اپنی نظر اور اپنے تخیل کے ساتھ دیکھ رہے ہوتے ہیں، مثلاً جب آپ اور آپ کا بچہ گاڑی میں بیٹھ کر خریداری کرنے بازار کی طرف جارہے ہوں گے تب برسات کی بوندیں گاڑی کی کھڑکی پر گری ہوں گی اور وہ ان بوندوں میں اپنے اسکول کے ہم جماعت بچوں کو تصور کرتا ہوگا۔ جب کلاسز کے لیے آپ اسے لے جا رہے ہوں گے تب بچہ دیوار کی دراڑ سے نکلنے والے ایک ننھے پودے کو دیکھنا چاہتا ہوگا۔
لیکن جب آپ جلدبازی چھوڑ کر بچوں کو ان چھوٹے چھوٹے لمحات کی آزادی دیں گے تو اس طرح آپ خود بھی کافی پُرسکون محسوس کریں گے۔ اس کے بعد خود آپ بھی ان چھوٹے چھوٹے لمحات میں بسی خوشی کو اپنانا چاہیں گے اور انہیں اہمیت دینا شروع کردیں گے۔
لہٰذا جب بھی بچوں کو کہیں لے جائیں تو 15 منٹ کا وقفہ لیں اور بچوں کو آس پاس کھلے گلابوں کو سونگھنے دیجیے، جلد بازی اور مصروفیت کی وجہ سے اپنے بچوں کو ان چھوٹے اور خوشی سے بھرے لمحات سے دُور نہ رکھیں۔
بچوں کو خود انحصاری سکھائیں
جس طرح آپ نے ٹی وی پر نشر ہونے والی شَیرنی پر ڈاکومینٹری تو دیکھی ہوگی۔ وہ بچوں کو کیا سکھاتی ہے؟ جی ہاں وہ اپنے بچوں کو شکار کرنا سکھاتی ہے۔ بطور والدین ہمیں اپنے بچوں کو اپنے طور پر زندگی گزارنے کا فن سکھانا ہوتا ہے۔
مثلاً، جب آپ کا بچہ 5 برس کا ہوجائے تو یہ ضروری ہے کہ آپ اسے کسی کی مدد کے بغیر اکیلے نہانا سکھائیں۔ جب بچہ 7 برس کی عمر کو پہنچے تو اس وقت تک بچے میں اسکول سے آکر آپ کی موجودگی کے بغیر اپنا ہوم ورک خود سے کرنے کی عادت شامل ہو، جب آپ کا بچہ 10 برس کی عمر کو پہنچے تو اسے کھانا پکانے کے حوالے سے بنیادی باتیں معلوم ہوں، جیسے چائے کیسے بنائی جائے یا سینڈوچ کس طرح بنایا جائے۔
تاہم اکثر دیکھا گیا ہے کہ بچوں کو گھر کے کاموں سے دُور ہی رکھا جاتا ہے، جبکہ ملازمہ یا مائیں گھروں پر 16 برس کی عمر کے بچوں کے بھی کپڑے دھونے کا کام کر رہی ہوتی ہیں، یا پھر کھانے کی ٹیبل پر ان کی پلیٹیں تک بھی اٹھا رہی ہوتی ہیں!
اگر آپ پُرسکون اور ہر قسم کے دباؤ سے آزاد والدین بننا چاہتے ہیں اور بچوں کو باہر کی سخت اور مشکل دنیا سے مقابلے کی تربیت دینا چاہتے ہیں تو یہ بہت ضروری ہے کہ انہیں شروع سے ہی خود کو صاف رکھنا سکھائیں، خود سے اپنے کھانے کا انتظام کرنا اور ابتدائی وقت سے اپنے گریڈز کا خیال رکھنا سکھائیں۔
مزید پڑھیے: گرمیوں میں بچوں کی نازک جلد کا خیال کیسے رکھیں؟
ہارورڈ کی ایک بزنس تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ جو بچے گھر کے کام کاج میں ہاتھ بٹاتے ہیں وہ آگے چل کر بہتر قائدانہ صلاحیتوں کے مالک بنتے ہیں۔
تحمل و برداشت سکھائیں
معاشرہ دن بدن بدلتا جا رہا ہے۔ ہمیں اپنے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کو بھی برداشت اور تحمل سکھانے کی ضرورت ہے۔ بڑی حد تک برداشت کا تعلق اپنی خواہشات کے برعکس مختلف آپشنز کو قبول کرنے سے ہے۔ ہمیں کس کے ساتھ محبت سے پیش آنا ہے، ہمیں کیا کھانا ہے، ہمیں کیا کہنا ہے یہ سب وہ اہم ترین عناصر ہیں جو ایک مہذب سماج کو وجود میں لاتے ہیں۔
عدم برداشت کا رجحان نفرت اور تشدد کو بڑھاوا دیتا ہے اور محدود اور تنگ نظر ذہنیت کی طرف دھکیل دیتا ہے۔ ہمیں بچوں کو ڈر یا خوف کے بجائے قبولیت کا درس دینا چاہیے، تبھی ہم میں یہ یقین پیدا ہوپائے گا کہ وہ ایک ایسے معاشرے کا حصہ بنیں جو ہمارے سماج سے زیادہ آگے بڑھ چکا ہوگا۔