بغیر نگران حکومت بھارت میں شفاف انتخابات کیسے ہوجاتے ہیں؟
بھارت میں لوک سبھا کے چناؤ کے لیے شیڈول کا اعلان ہوچکا ہے۔ نریندر مودی کی حکومت برقرار ہے اور الیکشن نتائج کے بعد نئی حکومت کی تشکیل تک کام کرتی رہے گی۔ پاکستان میں نئی نسل کے لیے یہ تصور کچھ الگ سا ہے کہ آخر عبوری یا نگران حکومت بنائے بغیر عام انتخابات کس طرح ممکن ہے؟ تاہم بھارت میں عبوری یا نگران حکومت کا تصور ہی انجانا ہے۔
آزادی کے بعد بھارت نے 26 نومبر 1949ء کو آئین منظور کیا۔ یہ آئین عبوری پارلیمنٹ اور کابینہ کے تحت منظور ہوا جو اعلان آزادی کے ساتھ تشکیل دی گئی تھی۔ نئے آئین میں عبوری حکومت کا کوئی تصور نہیں دیا گیا۔ نہرو کی کابینہ نے ہی الیکشن کرائے۔ کابینہ میں شامل کئی وزیر مستعفی ہوکر نئی جماعتیں تشکیل دے کر میدان میں اترے۔
لوک سبھا کے پہلے الیکشن کے لیے 25 اکتوبر 1951ء سے 21 فروری 1952ء کے عرصے کے دوران مرحلہ وار ووٹنگ ہوئی۔ اس کے بعد سے جب کبھی بھی حکومت نے مدت پوری کی یا عدم اعتماد پر ٹوٹ گئی تو وہی کابینہ الیکشن کراتی آئی ہے۔
اس کی مثال اپریل 1999ء میں اٹل بہاری واجپائی حکومت کا تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے خاتمہ ہے۔ حکومت ختم ہوگئی لیکن عبوری عرصے کے لیے وہی کابینہ کام کرتی رہی۔ اس سے پہلے 98ء-1997ء میں آئی اے گجرال کی حکومت عدم اعتماد کا شکار ہوئی لیکن اسی انتظامیہ نے نئی حکومت کی تشکیل تک روزمرہ کے امور چلائے۔ اس عرصہ کے دوران انتظامیہ کو اجازت نہیں ہوتی کہ وہ کوئی ایسا فیصلہ کرے جو اگلے الیکشن میں اس کی مقبولیت کا باعث بنے یا ووٹروں کو اس کی جانب متوجہ کرنے میں مدد دے۔
عبوری یا نگران حکومت کے بغیر انتخابات میں جانبداری اور سرکاری سطح پر دھاندلی کا الزام لگ جانا ہمارے ملک میں عام ہے۔ بھارتی آئین میں بھی ان امکانات کو مدنظر رکھا گیا اور الیکشن کمیشن کو اس قدر وسیع اختیارات دیے گئے کہ انتظامی طور پر دھاندلی کے امکانات ہی معدوم ہوگئے۔ وہاں انتخابی شیڈول جاری ہونے کے بعد صورتحال کچھ ایسی ہوجاتی ہے کہ حکومتیں تھانے اور ضلع کی سطح پر بھی کوئی افسر بدلنے کا اختیار نہیں رکھتیں۔ الیکشن کمیشن اگر محسوس کرے کہ کہیں کوئی افسر کسی امیدوار یا جماعت کے لیے اثر انداز ہو رہا ہے تو وہ اسے تبدیل اور معطل کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔
انتظامی طور پر حکومت کس حد تک محدود ہوجاتی ہے اس کی مثال مئی 2014ء میں بھارتی آرمی کے نئے چیف آف سٹاف جنرل دلبیر سنگھ کا تقرر ہے، جس کے لیے بھارتی حکومت نے الیکشن کمیشن سے اجازت لی۔ بھارتی حکومتوں کی طرف سے الیکشن کمیشن کی عملداری تسلیم کرنا ایک معمول رہا ہے۔
وہاں انتخابی شیڈول جاری ہونے کے بعد صورتحال کچھ ایسی ہوجاتی ہے کہ حکومتیں تھانے اور ضلع کی سطح پر بھی کوئی افسر بدلنے کا اختیار نہیں رکھتیں
بھارت میں جنرل الیکشن کا شیڈول جاری ہونے سے لے کر نئی حکومت بننے تک اہم انتظامی معاملات، تقرر و تبادلے کے لیے الیکشن کمیشن سے اجازت لازمی ہے۔ اس اصول پر کافی حد تک عمل ہوتا رہا ہے۔ اسی لیے بھارت میں نگران حکومت کا تصور نہ ہونے کے باوجود الیکشن کی شفافیت پر اس قدر سوالات نہیں اٹھتے، اور نہ ہی کسی جماعت کی جانب سے فکر مندی دیکھنے کو ملتی ہے۔
اب ایک بار پھر بھارت میں الیکشن کا موسم ہے۔ الیکشن کمیشن کا ماڈل اور کوڈ آف کنڈکٹ نافذ اور عملداری شروع ہوچکی ہے۔ لیکن اسی دوران یعنی الیکشن شیڈول کے اعلان کے بعد 27 مارچ کو بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی نے اینٹی سیٹلائٹ میزائل سے خلا میں سیٹیلائٹ کو نشانہ بنانے کے کامیاب تجربے کا اعلان کردیا۔
اس اعلان کے ساتھ ہی مودی نے ووٹروں کو لبھانے کے لیے بھارت کو سپر 4 کلب میں داخلے کی بڑ ہانکی اور بھارتی دفاع کو ناقابلِ شکست بنانے کے دعوے کیے۔ دوسری طرف اپوزیشن جماعتیں جو پہلے ہی انتخابی فوائد کے حصول کے لیے بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) کی پاک بھارت کشیدگی سے متعلق پالیسی پر معترض تھیں، اس تجربے کی ٹائمنگ اور مودی کی تقریر پر چونک گئیں، اور ظاہری طور پر دکھنے والی بھارت کی ایک بڑی کامیابی پر اپوزیشن نے سوالات اٹھا دیے۔ ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن سے بھی رجوع کیا گیا اور کہا گیا کہ یہ عمل ماڈل کوڈ آف کنڈکٹ (ایم سی سی) کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ بی جے پی نے الیکشن پوسٹرز پر بھی پاکستان میں جنگی قیدی بننے والے ونگ کمانڈر ابھی نندن کی تصویریں چھاپ دیں۔ بی جے پی کے جلسوں میں بھارتی سینا (فوج) کو مودی کی سینا کہا گیا۔ الیکشن کمیشن نے ابھی نندن کی تصویروں کے معاملے پر تو نوٹس لے لیا لیکن نریندر مودی کی تقریر کو ایم سی سی کی خلاف ورزی ماننے سے انکار کردیا۔ یہی نہیں بلکہ مودی کی سینا جیسے ریمارکس بھی نظرانداز کر دیے گئے۔
بی جے پی ایک بار پھر مذہب اور ذات پات کی سیاست کر رہی ہے۔ اس کے لیڈر کبھی کہتے ہیں کہ کانگریس کو ووٹ دینے والے مسلمان دہشتگرد اور بی جے پی کا ساتھ دینے والے اچھے مسلمان ہیں۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں کو کسی مخصوص ریاست میں انتخابی ٹکٹ اس لیے نہیں دیے کہ وہ بی جے پی پر اعتماد نہیں کرتے۔ نفرت انگیزی انتہا پر ہے اور ووٹروں کو ڈرانے دھمکانے کے واقعات بھی ہورہے ہیں۔ صورتحال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ بھارت نواز کشمیری سیاست دان عمر عبداللہ کو اس نفرت انگیزی پر سخت ردِعمل دیتے ہوئے کہنا پڑگیا کہ ہمارے کشمیر کا وزیرِاعظم الگ ہونا چاہئے۔
نریندر مودی پر ایم سی سی کی خلاف ورزی کے الزام میں 2014ء میں بھی مقدمات بنے تھے۔ اپریل 2014ء میں گجرات کے وزیراعلی کی حیثیت سے نریندر مودی نے پارٹی کا انتخابی نشان آویزاں کرکے میڈیا سے گفتگو کی۔ چونکہ یہ قانون کے خلاف تھا، اس لیے الیکشن کمیشن کے حکم پر ایف آئی آر درج ہوگئی، لیکن اسی دوران بی جے پی کے اس وقت کے سیکرٹری جنرل امت شاہ نے اترپردیش میں جاٹ برادری کو تشدد پر اکسایا اور نفرت کو ہوا دی، تو سب نے آنکھیں بند کرلیں۔ لیکن نریندر مودی کے خلاف جو مقدمے درج ہوئے تھے، ان کا وزیرِاعظم بننے کے بعد کیا ہوا؟ کسی کو کچھ خبر نہیں۔
اس سب کے باوجود بھارت میں انتخابات سے متعلق انتظامات کئی حوالوں سے خطے کے دیگر ملکوں سے بہت بہتر ہیں۔ یہ بات اس لیے کہی جارہی ہے کیونکہ
- الیکشن میں بہترین ٹرن اوور کے لیے بوتھ کی سطح کا افسر ذاتی طور پر ایک ہزار ووٹروں تک پہنچ کر انہیں ووٹ کی اہمیت بتانے کا پابند ہے۔
- الیکشن کمیشن کا عملہ کئی مقامات پر خود ووٹروں کو پولنگ بوتھ تک لاتا ہے۔
- ووٹر آئی ڈی کارڈ بھی ڈاک کے بجائے ذاتی طور پر پہنچائے جاتے ہیں۔
- الیکشن سے متعلقہ تمام نوٹسز کے لیے یہی طریقہ کار ہے تاکہ یقین ہوسکے کہ متعلقہ فرد تک کارڈ اور نوٹس پہنچ گیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ بھارت میں ووٹنگ کی شرح امریکا سے بھی 12 فیصد زیادہ ہے۔
الیکشن فراڈ سے نمٹنے کے لیے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا استعمال
بھارت میں بھی خطے کے دیگر ملکوں کی طرح الیکشن فراڈ، پولنگ بوتھ پر قبضے اور زبردستی ٹھپے لگوانے کی شکایات عام تھیں۔ بیلٹ بکس جعلی ووٹوں سے بھر دیے جاتے تھے۔ جس کے توڑ کے لیے 1990ء کے اواخر میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں (ای وی ایم) کا تجربہ کیا گیا۔ جب یہ تجربہ کامیاب ہوا تو 1998ء سے مرحلہ وار الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں مختلف ریاستوں میں متعارف کرائی جاتی رہیں اور 2001ء سے پورے ملک میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں ووٹنگ کے لیے استعمال ہو رہی ہیں۔
بھارت کے الیکشن کمیشن نے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے مرحلہ وار استعمال کے دوران انتخابی مبصرین تعینات کیے اور انتخابات کے بعد بھی سروے کیے جاتے رہے تاکہ ووٹنگ مشینوں کے استعمال سے فوائد اور نقصانات کا موازنہ بہتر طور پر سامنے آسکے۔ بیلٹ پیپرز والی ریاستوں اور ای وی ایم کے استعمال والی ریاستوں کا موازنہ کیا گیا۔ ای وی ایم کے استعمال سے پہلے انہی حلقوں میں کاغذ کے بیلٹ کے استعمال کا بھی جائزہ لیا گیا جس سے دلچسپ حقائق سامنے آئے۔
ابتدائی عرصے میں یہ بات سامنے آئی کہ ای وی ایم کے استعمال سے ووٹروں کی تعداد میں 3.5 فیصد اور مجموعی ٹرن آؤٹ میں 3.18 فیصد کمی آئی۔ 1976ء سے 1997ء کے دوران ہونے والے انتخابات میں کامیابی کا اوسط مارجن 15.8 فیصد تھا۔ ووٹروں کی تعداد میں 3.8 فیصد کمی انتخابی نتائج پر بڑا اثر ڈال سکتی تھی، اس لیے یہ چونکا دینے والی بات تھی۔
ووٹروں کی تعداد میں کمی کا مزید جائزہ لینے پر پتہ چلا کہ یہ کمی ان ریاستوں یا حلقوں میں ہوئی جہاں کے سیاستدان مجرمانہ ریکارڈ کے حامل ہیں اور وہاں انتخابی فراڈ معمول رہا ہے۔ یہ اہم حقیقت بھی سامنے آئی کہ ای وی ایم کے استعمال سے معاشرے کے پسے ہوئے طبقات، خواتین، شیڈول کاسٹ اور قبائل، سینئر شہریوں اور ان پڑھ افراد کے ووٹ ای وی ایم کے استعمال سے بڑھے ہیں اور یہ شرح 6.4 فیصد ہے۔ ان حقائق سے واضح ہوا کہ ووٹروں اور ٹرن اوور میں کمی کی وجہ انتخابی فراڈ میں کمی ہے، لیکن ایک وجہ لمبی قطاروں اور ووٹروں کی ای وی ایم کے ساتھ ناواقفیت بھی بتائی گئی۔
ان عوامل کا مزید جائزہ لینے کے لیے بہار، جھاڑ کھنڈ، مہاراشٹرا اور اترپردیش کی ریاستوں میں ای وی ایم کے استعمال کے بعد اور پہلے کے نتائج کا موازنہ کیا گیا۔ اس سے یہ بات سامنے آئی کہ سنگین مجرمانہ ریکارڈ والے سیاستدانوں کے ووٹوں میں کمی آئی۔ یوں واضح ہوگیا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں سے مجموعی ٹرن آؤٹ پر فرق الیکشن فراڈ میں کمی کی وجہ سے پڑا۔
ای وی ایم کے باوجود پولنگ بوتھ پر قبضے کا خدشہ برقرار تھا جس کے لیے ای وی ایم میں کلوز کا بٹن دیا گیا ہے۔ یہ بٹن دبتے ہی پولنگ کا عمل رک جاتا ہے۔ فراڈ روکنے کے لیے الیکشن کمیشن آف انڈیا نے ایک اور انتظام مبصرین کی صورت میں کر رکھا ہے۔ مبصرین کی طرف سے منفی رپورٹس سامنے آنے پر الیکشن کمیشن پولنگ کالعدم قرار دے کر دوبارہ پولنگ کا حکم دے سکتا ہے۔
الیکٹرانک مشین لگنے سے یہ بات سامنے آئی کہ سنگین مجرمانہ ریکارڈ والے سیاستدانوں کے ووٹوں میں کمی آئی۔ یوں واضح ہوگیا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں سے مجموعی ٹرن آؤٹ پر فرق الیکشن فراڈ میں کمی کی وجہ سے پڑا۔
ای وی ایم کی وجہ سے مسترد ووٹوں کی تعداد میں بھی نمایاں کمی آئی ہے کیونکہ بیلٹ پیپر پر غیر واضح نشان ووٹ مسترد ہونے کا سبب بنتے تھے۔ ووٹوں کا مسترد ہونا اب نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے جس سے مجموعی شمار کردہ ووٹ بڑھانے میں مدد ملی۔
ووٹر فراڈ اور ڈبل ووٹ سے بچنے کے لیے بھارت میں انمٹ روشنائی استعمال ہوتی ہے اور 3 ماہ تک اس کا نشان نہیں جاتا۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں صرف سرکاری فرم تیار کرتی ہے۔ ووٹر بٹن دبا کر پسند کے امیدوار کا انتخاب کرتا ہے۔ مشین سے ایک آواز سنائی دیتی ہے جس سے یقین ہوجاتا ہے کہ ووٹ شمار ہوگیا ہے۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے ایک پرچی بھی نکلتی ہے جس سے پتہ چل جاتا ہے کہ ووٹر کی پسند کے امیدوار کو ووٹ مل گیا ہے۔ پولنگ کے اختتام پر مشینیں اور پرچیاں سیل کرکے اسٹرانگ روم میں رکھ دی جاتی ہیں ۔
ایک ماہ تک ووٹنگ کا عمل مرحلہ وار جاری رہتا ہے لیکن گنتی ایک ہی وقت میں ہوتی ہے جس سے ایک علاقے کے نتائج دوسرے علاقے پر اثرانداز ہونے کے امکانات معدوم ہوجاتے ہیں۔ مشینوں اور بیلٹ کی حفاظت کے لیے سرکاری گارڈز کے ساتھ سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کو بھی اسٹرانگ روم کے باہر موجود رہنے کی اجازت ہوتی ہے۔ اسٹرانگ روم کی نگرانی کے لیے کلوز سرکٹ کیمرے بھی نصب ہوتے ہیں جن کی فوٹیج باہر نصب اسکرین پر ہر شہری دیکھ سکتا ہے۔
گنتی کا عمل بھی شفاف بنانے کے لیے موثر انتظام ہے۔ مشینیں اور بیلٹ پیپرز امیدواروں یا ان کے نمائندوں کے سامنے کھولے جاتے ہیں۔ 14 سے 21 تک میزیں لگی ہوتی ہیں جن پر مشینیں یا بیلٹ پیپرز تقسیم کردیے جاتے ہیں۔ تمام ووٹ گنے جاتے ہیں اور تمام امیدواروں کا اطمینان ہونے تک گنتی جاری رکھی جاتی ہے۔ بعض اوقات 20، 20 بار تک گنتی ہوتی ہے لیکن یہ گنتی ایک ہی دن میں مکمل کی جاتی ہے۔
گنتی کے بعد مشینیں اور بیلٹ پیپرز دوبارہ سیل کرکے اسٹرانگ روم پہنچا دیے جاتے ہیں جہاں انہیں 45 دن رکھا جاتا ہے۔ معمولی مارجن سے ہار جیت یا کسی تنازع کی صورت میں اس عرصہ میں دوبارہ گنتی کرلی جاتی ہے۔ نتائج کے اعلان کے بعد پارلیمنٹ وجود میں آجاتی ہے اور یوں الیکشن کمیشن کا کام اور اختیارات ختم ہوجاتے ہیں۔
الیکشن کی شفافیت کے لیے انتظامات اپنی جگہ، مگر اس بار بھارتی عام انتخابات میں ایک خطرناک عنصر ڈر اور خوف کا بھی ہے۔ بین الاقوامی خبر ایجنسی رائٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق انگریزی جاننے والے انٹرنیٹ صارفین میں ایک سروے کیا گیا جس میں 55 فیصد نے رائے دی کہ وہ انٹرنیٹ پر کوئی بھی سیاسی رائے دینے سے ڈرتے یا جھجکتے ہیں کیونکہ ایسا کرنے سے انہیں دفتر میں ساتھ کام کرنے والوں اور دیگر جاننے والوں کی اپنے بارے میں رائے بدل جانے کا خوف محسوس ہوتا ہے۔
سوشل میڈیا پر حکومتی کنٹرول اور سائبر قوانین بھی عام آدمی کو ڈرانے کے لیے کافی ہیں۔ 2012ء سے اب تک 17 افراد کو نریندر مودی، یوگی آدتیا ناتھ، ممتا بینرجی کے خلاف سوشل میڈیا پوسٹوں پر گرفتار کیا گیا۔ دسمبر 2018ء میں ایک صحافی کو بی جے پی اوور منی پور کے وزیراعلیٰ پر تنقید کی وجہ سے نیشنل سیکیورٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا۔
ایسا ہی خوف بھارتی میڈیا اور پبلشرز میں بھی ہے جس کی وجہ سے غلط معلومات کی تشہیر عام ہوچکی ہے۔ حقائق کو سیاسی جماعتوں کی من مرضی کے مطابق توڑ مروڑ کر پیش کیا جا رہا ہے۔ بھارتی میڈیا بھی الیکشن کمیشن سے متعلق رپورٹنگ میں احتیاط کا مظاہرہ کرنے کی کوشش میں اس کی کمزوریوں اور کوتاہیوں کو رپورٹ نہیں کر پا رہا۔
بھارتی وزیراعظم مودی نے مذہب اور ذات برادری کے استعمال سے خود کو بہت مضبوط بنا لیا ہے۔ پاکستان کے بارے میں سخت موقف اپنا کر وہ خود کو ہندوستان کا سپرمین ثابت کرنے میں لگے ہیں۔ بھارتی میڈیا کا ایک بڑا حصہ مودی کی پروپیگنڈا مشین میں ڈھل چکا ہے۔ آر ایس ایس اور کئی طرح کی سینا اور دل مودی کے خلاف بولنے والوں کو ڈرانے دھمکانے میں لگے ہیں۔ بھارت میں مضبوط حکمران کا نیا تصور پروان چڑھایا جا رہا ہے۔
ان تمام چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ سوال اپنی جگہ بہت اہم ہے کہ کیا پولنگ اور گنتی کا عمل شفاف ہونا تمام انتخابی عمل کی شفافیت کا ضامن ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو بھارت کو اس الیکشن میں درپیش ہے۔ یوں لگتا ہے کہ بھارت میں اب ادارے کمزور اور شخصیات مضبوط ہونے لگی ہیں۔ اگر ایسا ہی ہے تو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ کا اعزاز بھارت سے جلد چھن جانے والا ہے اور بھارت شخصی آمریت کی طرف بڑھتا نظر آرہا ہے۔