جعلی اکاؤنٹس ریفرنس: احتساب عدالت میں 19 اپریل کو سماعت ہوگی
اسلام آباد: احتساب عدالت 19 اپریل سے جعلی اکاؤنٹس کیس میں قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے دائر کردہ ریفرنس کی سماعت کرے گی جس میں سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور بھی شامل ہوں گے۔
ابتدائی سماعت میں احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے اس کیس میں نامزد 9 ملزمان کو طلب کرلیا جن میں کراچی میونسپل کارپوریشن (کے ایم سی) کے حاضر سروس، ریٹائرڈ افسران اور اومنی گروپ کے عہدیدار شامل ہیں۔
نیب کی جانب سے دائر ریفرنس میں جن ملزمان کو نامزد کیا گیا وہ کراچی میونسپل کارپوریشن (کے ایم سی) کے سابق ایڈمنسٹریٹر محمد حسین سید، کے ایم سی کے سابق میٹروپولیٹن کمشنر متانت علی خان اور شمس الدین صدیقی، کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی(کے ڈی اے) کے سابق ڈائریکٹر نجم زماں، ایڈیشنل ڈائریکٹر سید جمیل احمد، عبدالرشید، عبدالغنی اور یونس کڈواوی ہیں۔
اس سلسلے میں 19 اپریل کو احتساب عدالت میں ہونے والی سماعت میں ملزمان کو ریفرنس کی نقول فراہم کی جائیں گی جس کے بعد عدالت ملزمان پر فردِ جرم عائد کر کے ان کے خلاف باقاعدہ سماعت کا آغاز کرے گی۔
یہ بھی پڑھیں: جعلی اکاؤنٹس کیس میں پہلا ریفرنس دائر، 60 کروڑ روپے کا پلاٹ نیب کے حوالے
نیب نے اپنے ریفرنس میں الزام عائد کیا کہ ملزمان نے سرکاری افسران ہوتے ہوئے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا اور غیر حقدار لوگوں کو غیر قانونی طور پر رفاحی پلاٹ الاٹ کردیے ۔
نیب کے ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا کہ ملزمان کتب خانوں(لائبریریز) اور مندر کے لیے مختص پلاٹ کی غیر قانونی الاٹمنٹ میں بھی ملوث ہیں جس سے قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان ہوا، استغاثہ کے مطابق ان غیر قانونی الاٹمنٹ کے لیے جعلی اکاؤنٹس سے ادائیگیاں کی گئیں۔
دوسری جانب احتساب عدالت نے کراچی کی بینکنگ کورٹ سے منتقل ہونے والے جعلی اکاؤنٹس اور منی لانڈرنگ کیس میں پی پی پی رہنماؤں آصف علی زرداری اور فریال تالپور، پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے سابق چیئرمین حسین لوائی، امنی گروپ کے چیئرمین انور مجید اور دیگر کو 8 اپریل کو طلب کر رکھا ہے۔
مزید پڑھیں: جعلی اکاؤنٹس سے متعلق اومنی گروپ کے سی ای او کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی منظوری
خیال رہے اس حوالے سے از خود نوٹڑس لیتے ہوئے سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے جعلی اکاؤنٹس کیس کی تحقیقات کے لیے ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم(جے آئی ٹی) تشکیل دی تھی۔
جے آئی ٹی میں یہ بات سامنے آئی کہ تحقیقات کے دوران بادی النظر میں سامنے آنے والے شواہد اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہی کہ زرداری اور اومنی گروپ نے حکومتی فنڈز، رشوت، قرضوں کے غلط استعمال اور دیگر جرائم کے ذریعے بھاری اثاثے بنائے۔
جے آئی ٹی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ دونوں کمپنیوں کا آغاز بالترتیب 1981 میں 600 روپے اور 2001 میں 6000 روپے سرمایے کی ادائیگی سے ہوا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کا جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں 'جے آئی ٹی' بنانے کا حکم
جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی کہ 12 جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے پرتھینن کمپنی کے اکاؤنٹ میں 35 کروڑ 70 لاکھ روپے منتقل کیے گئے۔
جے آئی ٹی میں یہ بھی کہا گیا کہ پرتھینن کمپنی، پارک لین کی فرنٹ کمپنی تھی اور جب اس نے پارک لین کے ساتھ اشتراک کیا تو اس وقت اس کمپنی کا کوئی آزاد بزنس نہیں تھا۔
یہ خبر 5 اپریل 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔