• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm

امریکا-طالبان مذاکرات: افغان حکومتی نمائندوں کی بڑے وفد میں شمولیت کا امکان

شائع April 3, 2019
امریکی نمائندہ خصوصی نے افغان حکومتی عہدیداروں سے ملاقات کی—فائل فوٹو: اے پی
امریکی نمائندہ خصوصی نے افغان حکومتی عہدیداروں سے ملاقات کی—فائل فوٹو: اے پی

واشنگٹن: امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں ممکنہ طور پر شرکت کرنے والے افغان سیاستدانوں کے بڑے وفد میں افغان حکومت کے نمائندوں کی شرکت کا امکان ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سفارتی ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ افغان حکومت کے نمائندے افغان سیاستدانوں کے اس بڑے وفد میں شامل ہوسکتے ہیں، جو ممکنہ طور پر اپریل کے وسط میں دوحہ میں طالبان اور امریکا کے مذاکرات میں شرکت کرے گا۔

اس حوالے سے طالبان کے ساتھ امریکی مذاکرات کے سربراہ زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ امن عمل میں افغان حکومت کا شامل ہونا لازمی ہے۔

مزید پڑھیں: امریکا سے مذاکرات کیلئے طالبان کی 14رکنی ٹیم کا اعلان

تاہم طالبان مسلسل افغان حکومت کے ساتھ براہ راست بات چیت سے انکار کرتے آرہے ہیں۔

ادھر واشنگٹن میں سفارتی مبصرین کہتے ہیں کہ اس معاملے کو حل کرنے کا ایک طریقہ ہے کہ افغان سیاستدانوں، قبائلی عمائدین، خواتین اور دیگر کے بڑے وفد میں حکومتی نمائندے شامل ہوں۔

دوسری جانب ذرائع کا کہنا تھا کہ افغان حکومت کی جانب سے اب بھی طالبان کے ساتھ براہ راست بات چیت کا اصرار کیا جاسکتا ہے لیکن لگتا ایسا ہے کہ امریکا کی طرف سے طالبان کو اس بات پر قائل کرنا کامیاب نہیں ہوسکتا۔

علاوہ ازیں فارن پالیسی نیوز ویب سائٹ پر شائع ایک مضمون میں افغانستان کے سابق نائب وزیر خارجہ حکمت خلیل کرزئی نے بھی افغان حکومت کو تجویز دی ہے کہ وہ افغان عوام کے واحد نمائندہ ہونے پر اصرار نہ کریں۔

انہوں نے لکھا کہ ’ افغان حکومت اپنے طور پر طالبان کے ساتھ امن قائم نہیں کرسکتی، پورے افغانستان کی نمائندگی کرنے والے ایک جامع گروپ جس میں صرف سینئر سیاستدان شامل نہ ہوں وہ ہی دیرپا معاہدے تک پہنچنے کا واحد طریقہ ہے‘۔

خیال رہے کہ سابق نائب وزیر خارجہ نے گزشتہ ہفتے کابل میں امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد سے بھی ملاقات کی تھی۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ افغان صدر اشرف غنی کی حکومت’سینئر افغان سیاستدانوں کی اکثریت سے دور ہوئی اور کنارہ کشی اختیار کرلی‘ ساتھ ہی ’ملک میں اقتصادی اور سیکیورٹی صورتحال میں بہتری میں بھی یہ ناکام ہوگئی‘ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا اور طالبان تمام اہم معاملات پر رضامند ہوگئے، زلمے خلیل زاد

سابق نائب وزیر خارجہ نے لکھا کہ افغان حکومت کو چاہیے کہ اب وہ ’قومی مذاکرات ٹیم کے قیام اور امن اور مفاہمت کے لیے اجتماعی کوششوں کو مضبوط کرنے‘ کے اقدامات کی حمایت کرے۔

قبل ازیں رواں ہفتے امریکی سفیر زلمے خلیل زاد نے کئی اہم افغان سیاست دان اور حکومتی حکام سے ملاقات کی اور ان سفارشات کے ساتھ ساتھ دیگر پر بھی تبادلہ خیال کیا۔

صدر اشرف غنی، سی ای او عبداللہ عبداللہ اور دیگر اہم شخصیات سے ملاقات کے بعد مختلف ٹوئٹس میں زلمے خلیل زاد نے جامع اور بین الافغان مذاکرات کی ضرورت پر روشنی ڈالی۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024