کراچی سے دُور جانا اور نئے کھیل کے بارے میں جاننا اچھا لگا
تحریر / تصاویر : فہیم پٹیل
شہر اور خصوصاً کراچی میں مشکل ترین زندگی گزارنے کی وجہ سے، جب بھی کہیں بھی یہاں سے باہر نکلنے کا موقع میسر آتا ہے، تو بغیر تاخیر کیے نکل جاتا ہوں، کیونکہ ایسے نکل جانے میں کچھ دن کا آرام بھی میسر آتا ہے، اور زندگی کے بارے میں منفی خیالات بھی کم ہوجاتے ہیں، کیونکہ یہاں سے باہر نکلنے کے بعد معلوم چلتا ہے، نہ تو زندگی اتنی مشکل ہے اور نہ یہ دنیا اتنی بُری ہے۔
یہ کوئی 23 یا 24 مارچ کی بات ہے، جب مجھے ایک دوست کا فون آیا ہے اور کہا کہ بیگ پیک کرو، ہمیں 2 دن بعد خانیوال جانا ہے، وہاں نیزہ بازی کے مقابلے ہورہے ہیں اور پاکستان عالمی ریکارڈ بنانے جارہا ہے، تو اس کی کوریج کرنی ہے۔
پہلے تو عالمی ریکارڈ کا سن کر حیرانی ہوئی، اور پکا یقین ہوگیا کہ یہ جھوٹ بولا جارہا ہے، کیونکہ اتنا بڑا کام ہونے والا ہے، لیکن مجال ہے کہ کہیں ایسی کوئی خبر سنی ہو، لیکن اس کے باوجود چونکہ شہر سے باہر نکلنے کا موقع تھا، اس لیے کچھ پوچھے بغیر کہا، ’یس باس‘۔
یہ نیزہ بازی کے مقابلے کیا ہوتے ہیں؟ اس میں ہوتا کیا ہے؟ یہ کھیلے کس طرح جاتے ہیں؟ کون سی ٹیمیں اس میں شرکت کرتی ہیں؟ کتنے گول اور کتنے رنز بنتے ہیں؟ ان میں سے کسی بھی سوال کا جواب میرے پاس نہیں تھا۔ سچ پوچھیے تو مجھے تو یہ بھی لگ رہا تھا کہ اس کھیل کی کوریج بھی نہیں ہونی چاہیے۔
لیکن منزل مقصود پر پہنچنے کے بعد میں بہت حد تک غلط ثابت ہوا۔ وہاں پہنچنے کے بعد مجھ پر کیا کیا راز کھلے، آئیے میں آپ کو بھی بتاتا ہوں۔
یہ صرف دیسی کھیل نہیں ہے، بلکہ اس کے عالمی مقابلے حتٰی کہ ورلڈ کپ بھی ہوتا ہے۔ اگرچہ وہاں ہماری کارکردگی بہت نمایاں تو نہیں ہے، مگر 2018ء میں ہونے والے ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم نے کوالیفائنگ راونڈ میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ پاکستانی ٹیم نے کل 8 سونے، 15 چاندی اور 1 کانسی کا تمغہ اپنے نام کیا تھا۔
پچاس یا ساٹھ کی دہائی میں جب یہ کھیل کھیلا جاتا تھا تو ایک دوڑ کے 12 پوائنٹس ہوا کرتے تھے۔ ان 12 پوائنٹس کو 3 حصوں میں تقسیم کیا جاتا تھا۔ جیسے جو گھڑ سوار ہے وہ کس طرح گھوڑے کو بھگا رہا ہے؟ اس کا اعتماد کیسا ہے؟ اس کے 4 پوائنٹس ہوا کرتے تھے۔ پھر 4 پوائٹس گھوڑے کے ہوتے تھے۔ وہ کس طرح دوڑ رہا ہے؟ اس میں کوئی کمی تو نہیں ہے؟ ابتدا سے آخر تک اس کا ردھم کیسا تھا؟ آخری 4 پوائنٹس ہدف یعنی کلے کو نشانہ بنانے کے ہوتے تھے۔
لیکن اب یہ صرف 4 پوائٹس کا کھیل بن گیا ہے، اور ان پوائنٹس کے ملنے یا نہ ملنے کا دار و مدار اس بات پر ہوتا ہے کہ کلے کو نشانہ بنایا یا نہیں۔ اس حوالے سے 2 باتیں اہم ہیں۔ پہلی یہ کہ نیزے کو کلے میں ڈالا یا نہیں، اگر ایسا نہیں ہوسکا مگر کلے نے آگے بنائی گئی لکیر کو کراس کرلیا، تب بھی پورے 4 پوائٹس ملیں گے، لیکن اگر کلے کو نیزہ لگا مگر کلا لکیر سے پیچھے رہ گیا تو صرف 2 پوائنٹس ملیں گے۔
یہ فارمولہ دیسی نیزہ بازی کا ہے۔ جو انٹرنیشنل نیزہ بازی ہوتی ہے، اس میں اگر نیزے نے کلے کو چُھو بھی لیا، تب بھی نمبر مل جاتے ہیں۔
اگر گھوڑے کی بات کی جائے تو دیسی نیزہ بازی میں عام طور پر دیسی گھوڑے ہی زیادہ کامیاب ہوتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ جب دوڑتے ہیں تو یہ بہت حد تک ہموار ہوتے ہیں، اس میں زیادہ جھٹکے نہیں آتے، جس کی وجہ سے ہدف کو نشانہ بنانا آسان ہوتا ہے۔
سب سے اہم ترین بات جو ہمیں یہاں معلوم چلی وہ یہ کہ باقی کھیلوں خصوصاً کرکٹ میں جس طرح ہوم سائیڈ کو فائدہ حاصل ہوتا ہے، بالکل اسی طرح اس کھیل میں بھی جو عالمی کپ ہوتے ہیں اس میں بھی ہوم سائیڈ کو سب سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔
وہ کیسے؟
- وہ ایسے کہ نیزہ بازی کی جو عالمی تنظیم ہے وہ ابھی اتنی مضبوط نہیں ہوئی کہ وہ کھلاڑیوں کے گھوڑوں کے سفری اخراجات برداشت کرسکے، اس لیے غیر ملکی کھلاڑیوں کو وہاں کے مقامی گھوڑے استعمال کرنے ہوتے ہیں، جن سے اچھے تعلقات بنانے میں کچھ وقت لگ جاتا ہے، لیکن مقامی گھڑ سواروں کے لیے فائدہ یہ ہے کہ وہ مقابلے کے لیے اپنے ہی گھوڑوں کا استعمال کرتے ہیں۔
- کلے کو نشانہ بنانے کے لیے گھوڑے کی رفتار پر بھی بہت توجہ دی جاتی ہے۔ یعنی یہ کہ دوڑ جہاں سے شروع ہوتی ہے، وہاں سے کچھ آگے سے لے کر کلے کو نشانہ بنانے کے بعد تک کیمرے بھی نصب ہوتے ہیں اور جج حضرات بھی بیٹھے ہوتے ہیں جو اس بات پر خاص توجہ دیتے ہیں کہ کلے کو نشانہ بنانے کے لیے کہیں گھوڑے کی رفتار تو کم نہیں کردی گئی۔ عام طور پر اس دورانیے کے لیے 7 سیکنڈ کا وقت دیا جاتا ہے۔ اگر اس سے تاخیر ہوجائے تو فی سیکنڈ آدھا نمبر کم کردیا جاتا ہے۔
جب ہم وہاں پہنچے تو علم ہوا کہ مقابلے میں حصہ لینے والی ٹیموں کا تعلق خیبر پختونخواہ، کشمیر اور پنجاب سے ہے۔ کچھ حیرانی ہوئی کہ بھلا بلوچستان اور سندھ کی ٹیمیں کیوں حصہ نہیں لے رہیں، تو ہمیں جواب یوں ملا کہ وہاں چونکہ اس کھیل کا رجحان نہیں ہے اس لیے وہاں سے شرکت نہیں ہورہی۔
عام طور پر آپ گاوں یا دیہی زندگی کو دیکھتے ہیں تو آپ کو انسانوں کے ساتھ ساتھ جو جاندار سب سے زیادہ نظر آتے ہیں، وہ گائے، بھینسیں، کٹے، بکرے اور بکریاں ہوتی ہیں، لیکن جس جگہ ہم گئے، وہاں گھوڑوں کا میلہ سجا ہوا تھا، جہاں ہر طرف اعلی سے اعلی گھوڑے موجود تھے، جو اپنے مالک کے ایک حکم پر دوڑتے اور ایک حکم پر رک جاتے۔
مجھ سمیت ہم شہر والے سمجھتے ہیں کہ کھیل تو صرف کرکٹ، ہاکی، فٹ بال، ٹینس ہی ہوتے ہیں، لیکن ان دیہی علاقوں میں لوگوں کی دلچسپی نے ہمیں بتایا کہ مقامی لوگوں کے لیے یہ دیسی کھیل کس قدر اہمیت کے حامل ہیں۔
اپنے اردگرد موجود اتنے گھوڑوں کو دیکھ کر خیال آیا کہ یہ کھیل صرف دیہی علاقوں میں کیوں رائج ہے؟ جس کا بہت اچھا جواب یوں ملا کہ چونکہ دیہی علاقوں میں لوگوں کے پاس بڑی بڑی زمینیں ہوتی ہیں، اس لیے گھوڑوں کو رکھنے اور ان کے گھاس کا مسئلہ کبھی بھی درپیش نہیں ہوتا، لیکن شہروں میں یہ مسئلہ بہت زیادہ ہے۔
اس جواب پر ہمارے ایک دوست نے میزبان کو ازراہ تفنن کہہ دیا کہ کیا ہوا، ہمارے یہاں فلیٹ ہوتے ہیں، ہم وہاں چڑھا لیں گے، جس پر سب ہنس پڑے۔
پھر اتنے سارے گھوڑے دیکھ کر ان کے بارے میں معلومات جاننے کا بھی شوق ہوا کہ کس عمر میں یہ گھوڑے دوڑ کے لیے تیار ہوتے ہیں اور کتنی عمر تک یہ ساتھ دیتے ہیں؟ تو ہمیں بتایا گیا کہ عام طور پر 3 سال کی عمر میں گھوڑا مقابلے کے لیے تیار ہوجاتا ہے اور 12 سے 15 سال تک یہ مقابلوں کا حصہ رہتا ہے۔ یہ 12 سے 15 سال کا فرق اس لیے ہوتا ہے کیونکہ گھوڑے کی صحت اور فٹنس کی بنیاد پر فیصلہ کیا جاتا ہے کہ کب تک اس کو اس کھیل کا حصہ بنائے رکھنا ہے۔
بہرحال ہم نے 2 دن مستقل اس ایونٹ کی کوریج کی اور اس کھیل کے حوالے سے بہت کچھ جاننے کے ساتھ ساتھ ہمیں سب سے بڑی خوش خبری یہ ملی کہ پاکستان نے ایک، 2 یا 3 نہیں بلکہ 6 عالمی ریکارڈ قائم کیے۔ سلطان نیزہ بازی ٹورنامنٹ میں سلطان اعوان کلب نے 21 دیگر کلبز کی معاونت کے ساتھ یہ ریکارڈ قائم کیے ہیں جن میں کل ٹیموں کی تعداد 30 تھی۔ جس میں مختلف دستوں میں ان ٹیموں کو تقسیم کیا گیا تھا۔ ان ریکارڈز کی تفصیلات کچھ یوں ہیں
- 166 سیکنڈز میں 120 گھوڑے فنش لائن پر پہنچنے کا عالمی ریکارڈ
- 166 سیکنڈز میں 90 کلوں کو نشانہ لگایا گیا ہےجن میں سے 70 کلے نیزے کے ساتھ گئے ہیں باقی جن 20 کلوں کو نشانہ لگا، وہ وہیں گرے
- ٹریک پر بیک وقت 24 گھوڑوں کے دوڑنے کا عالمی ریکارڈ
- بیک وقت 6 مختلف ٹیموں کا مل کر ہدف کو نشانہ بنانے کا عالمی ریکارڈ
- 166 سیکنڈز میں 30 ٹیموں کے دوڑنے کا عالمی ریکارڈ
- سنگل لائن میں ایک ساتھ 6 گھوڑے بھاگنے کا عالمی ریکارڈ
مقابلے سے ہٹ کر گاوں کی زندگی کا مزہ
جب بھی کسی ایونٹ کی کوریج کے لیے کہیں بھی جانا ہوتا ہے تو صرف کام، کام اور کام والی کہانی تو ہرگز نہیں ہوتی، بلکہ آنکھیں اور ذہن کھول کر مقامی مقامات کی سیر کا بھی پورا انتظام ہوتا ہے۔ اس بار اگرچہ سیر تو بہت نہیں ہوسکی کیونکہ وقت کم اور مقابلہ سخت تھا، لیکن میاں چنوں کے چھوٹے سے شہر تلمبہ میں رہنا اس لیے تازگی سے بھرپور رہا کیونکہ ہمارے میزبان نے ہماری ہی خواہش پر ہمیں گیسٹ ہاؤس کے بجائے اپنے ہجرے میں ٹھہرانے کا انتظام کیا۔ جہاں ہم نے کم و بیش 2 دن بالکل ویسے زندگی گزاری جیسے زندگی گزارنی چاہیے، لیکن شہروں میں ایسا ممکن کہاں۔
جب آپ 2 دن تک کھیتوں کے درمیان ایک ہجرے میں رہیں، جہاں نہ انٹرنیٹ ہو، نہ ٹی وی ہو، نہ گاڑیوں اور بسوں کا دھواں اور شور، تو اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ زندگی کتنی اچھی گزر رہی ہوگی۔
یہ بات بھی کسی حد تک ٹھیک ہے کہ ہم شہر والوں کے لیے اب ایسی زندگی کچھ دنوں کے لیے تو اچھی ہوسکتی ہے، لیکن شاید مستقل طور پر ایسا وقت گزارنا ممکن نہیں ہو، لیکن یہ تو ممکن ہے کہ سال میں ایک یا 2 مرتبہ ایسے علاقوں کا رخ کرلیا جائے، جہاں کام بھی ممکن ہو، اور سکون بھی میسر ہو۔
چلیے، اپنی کہانی کا اختتام اس دعا کے ساتھ کرتے ہیں کہ جو ریکارڈ پاکستان نے بنایا ہے، اسے گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ والے تسلیم کرلیں، تاکہ یہ کھیل اور اس کھیل سے متعلق دلچسپی زور پکڑے اور باقی کھیلوں کی طرح ہمارے دیسی کھیل بھی ترقی کریں۔
فہیم پٹیل ڈان کے بلاگز ایڈیٹر ہیں۔ آپ کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔
تبصرے (8) بند ہیں