وزیر اعظم نے قائد حزب اختلاف کو الیکشن کمیشن اراکین کے نام تجویز کر دیے
وزیر اعظم عمران خان نے اپنی حکمت عملی کا ازسرنو جائزہ لیتے ہوئے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف سے مشاورت شروع کرتے ہوئے انہیں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سندھ اور بلوچستان کے اراکین کے لیے خالی عہدوں کے لیے خط کے ذریعے تین نام تجویز کر دیے ہیں۔
الیکشن کمیشن اراکین کے تقرر کے لیے 45دن کی آئینی مدت گزر چکی ہے لیکن ابھی تک اراکین کا تقرر نہیں ہو سکا جس کی بنیادی وجہ وزیر اعظم عمران خان اور قائد حزب اختلاف کے درمیان مشاورت نہ ہونا ہے۔
مزید پڑھیں: وزیر اعظم مشاورت کے بغیر الیکشن کمیشن اراکین کا انتخاب چاہتے ہیں، شہباز
وزیر اعظم کی جانب سے شہباز شریف کو لکھے گئے خط کی ایک نقل ڈان کو مل گئی جس میں انکشاف کیا گیا کہ حکومت وزارت خارجہ کے دفتر کے ذریعے کی گئی اپنی سابقہ نامزدگیوں سے دستبردار ہوتی ہے اور الیکشن کمیشن میں خالی دو آئینی عہدوں کے لیے نام اب تجویز کیے جا رہے ہیں۔
وزیر اعظم نے بلوچستان سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے رکن کے تقرر کے لیے سابق ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج امان اللہ بلوچ، کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے وکیل منیر کاکڑ اور کاروباری شخصیت و صوبائی حکومت میں سابق نگراں وزیر میر نوید جان بلوچ کے نام تجویز کیے ہیں ۔
انہوں نے سندھ سے الیکشن کمیشن رکن کے تقرر کے لیے وکیل خالد محمود صدیقی، سندھ ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس ریٹائرڈ فرخ ضیا شیخ سندھ کے ریٹائرڈ آئی جی اقبال محمود کے نام تجویز کیے ہیں۔
یہ اقدام ایک ایسے موقع پر کیا گیا ہے جب قائد حزب اختلاف سے مشاورت نہ کرنے پر وزیر اعظم کو اپوزیشن اور قانونی ماہرین کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا تھا ، آئین کے تحت الیکشن کمیشن اراکین کے تقرر کے لیے وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف کے درمیان مشاورت لازم ہے۔
حکومت کو اس وقت مزید تنقید کا سامنا کرنا پڑا جب جب وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے نامزدگیاں کردی تھیں اور یہ نامزدگیاں بھی وزارت خارجہ کے دفتر میں موجود ایڈیشنل سیکریٹری کے ذریعے کی گئی تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: 2 اراکین کی ریٹائرمنٹ کے باعث الیکشن کمیشن کا کام متاثر
اس سے قبل حکومت نے بلوچستان سے کمیشن کے رکن کے تقرر کے لیے سابق ایڈووکیٹ جنرل فار بلوچستان ڈاکٹر صلاح الدین مینگل، بلوچستان کے لیے سابق ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل محمد رضا خان اور قومی احتساب بیورو کے سابق ڈپٹی پرازیکیوٹر جنرل راجہ عامر عباسی کے نام تجویز کیے تھے۔
اس کے علاوہ سندھ سے الیکشن کمیشن کے رکن کے لیے سابق جوڈیشنل رکن محمد ندیم قریشی، سندھ ہائی کورٹ کے سابق رجسٹرار عبدالرسول میمن اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس ریٹائرڈ نور الحق قریشی کے ناموں کی تجویز دی گئی تھی۔
حکومت کی جانب سے وزارت خارجہ کو اس عمل کا حصہ بنانے پر مسلم لیگ ن نے تعجب کا اظہار کیا تھا کیونکہ وہ بظاہر شہباز شریف سے مشاورت سے کترا رہے تھے اور اسی وجہ سے قائد حزب اختلاف نے خط لکھ کر وزارت خارجہ کی جانب سے نام بھیجنے کے عمل پر سوالات اٹھائے تھے۔
اس خط کے جواب میں عمران خان نے کہا تھا کہ ان کے خط کو غلط تصور کیا گیا اور وضاحت کی گئی کہ وزارت کارجہ نے ان کی جانب سے قائد حزب اختلاف سے ناموں پر مشاورت کی تھی لیکن اب آئینی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے دوبارہ آپ سے براہ راست مشاورت کا فیصلہ کیا ہےلہٰذا آپ کو نئے امیدواروں کو فہرست ارسال کی جا رہی ہے ۔
مزید پڑھیں: 2 اراکین کی ریٹائرمنٹ کے باعث الیکشن کمیشن کا کام متاثر
جب اس سلسلے میں مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے تصدیق کی کہ قائد حزب اختلاف کو وزیر اعظم کی جانب سے خط موصول ہو گیا ہے اور شہباز شریف دیگر اپوزیشن جماعتوں سے مشاورت کے بعد خط کا جواب دیں گے ۔
تاہم انہوں نے واضح کیا کہ خط کی قانونی حیثیت کا آج مسلم لیگ ن کے اندرونی اجلاس میں جائزہ لیا جائے گا۔
یہ خبر 28مارچ 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔