• KHI: Fajr 5:21am Sunrise 6:38am
  • LHR: Fajr 4:55am Sunrise 6:17am
  • ISB: Fajr 5:01am Sunrise 6:25am
  • KHI: Fajr 5:21am Sunrise 6:38am
  • LHR: Fajr 4:55am Sunrise 6:17am
  • ISB: Fajr 5:01am Sunrise 6:25am

23 سال بعد نیشنل اسٹیڈیم جانا کیسا لگا؟

شائع March 21, 2019

آج کل جدید ٹیکنالوجی کے دور میں کرکٹ کے کھیل کو دیکھنا اور دنیا بھر میں ہونے والے کرکٹ کے مقابلوں کے بارے میں معلومات رکھنا بہت آسان ہے۔ جب تک اس ٹیکنالوجی نے ترقی نہیں کی تھی اس وقت تک لوگوں کی ایک بڑی تعداد اپنے گھروں کے آرام دہ ماحول میں میچ دیکھنا پسند کرتی تھی، مگر اب صورتحال بدل چکی ہے۔

حال ہی میں اختتام پذیر ہونے والی پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے سیزن 4 کے آخری 8 میچ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں کھیلے گئے۔ کراچی کے عوام نے ان مقابلوں کو دیکھنے کے لیے جس جوش و خروش کا مظاہرہ کیا، یہ ناقابلِ بیان ہے۔ تقریباََ تمام ہی میچوں میں گراؤنڈ تماشائیوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔

مزید پڑھیے: پی ایس ایل 4: کئی خوبیاں بھی تھیں تو چند خامیاں بھی

کراچی کے دیگر شہریوں کی طرح میں بھی ان مقابلوں کے لیے بہت پُرجوش تھا لہٰذا میں نے 15 مارچ کو پشاور زلمی اور اسلام آباد یونائیٹڈ کے درمیان ایلیمینیٹر 2 کا میچ دیکھنے کے لیے اسٹیڈیم جانے کا پروگرام بنایا اور اس کے لیے ٹکٹ خرید لیے۔

جس وقت میں اپنی نشست پر بیٹھ کر میچ شروع ہونے کا انتظار کر رہا تھا تو اس وقت میں ٹھیک 23 سال پیچھے چلا گیا، کیونکہ آخری مرتبہ میں نیشنل اسٹیڈیم 3 مارچ 1996ء کو گیا تھا، جب کرکٹ ورلڈ کپ کے سلسلے میں پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان میچ اس میدان میں کھیلا گیا تھا۔ یہ میچ پاکستان کے مایہ ناز کھلاڑی جاوید میانداد کا کراچی کے اس تاریخی میدان میں آخری میچ تھا۔

میدان میں بیٹھ کر جہاں میں کرکٹ کے کھیل سے لطف اندوز ہو رہا تھا وہیں ماضی کی بہت سی یادیں اور موجودہ دور کی تبدیلیوں پر غور کرتے ہوئے میں تذبذب کا شکار تھا۔ ماضی میں کرکٹ میچ دیکھنے جانا ایک بھرپور سرگرمی ہوا کرتی تھی۔ لوگ اپنے گھروں سے اپنا پانی اور کھانا لے کر آتے تھے اور اسٹیڈیم کے گیٹ کے بہت قریب اپنی سواریوں سے اتر کر سیکیورٹی کی رسمی کارروائی پوری کرکے اسٹیڈیم میں داخل ہوجاتے تھے۔

لیکن آج کے دور میں سیکیورٹی کی سختی کے باعث شائقین کو اسٹیڈیم میں داخل ہونے کے لیے ایک طویل فاصلہ پیدل طے کرنا پڑتا ہے اور متعدد مقامات پر سخت چیکنگ کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ ویسے تو سیکیورٹی کے انتظامات بہت سخت تھے لیکن اتنے سخت انتظام کے باوجود میدان میں بغیر ٹکٹ والے شائقین کی موجودگی اس بات کی طرف اشارہ کر رہی تھی کہ مستقبل میں سیکیورٹی کے انتظامات کو مزید بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔

سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے — فوٹو: اے ایف پی
سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے — فوٹو: اے ایف پی

سیکیورٹی کے باعث شائقین اپنے ساتھ کھانے پینے کی اشیا بھی نہیں لا سکتے تھے اس لیے ان کو اسٹیڈیم کے اندر بنائے گئے عارضی فوڈ اسٹالز سے ہی استفادہ کرنا پڑ رہا تھا۔ لیکن ایک اچھی بات یہ تھی کہ ان اسٹالز پر مختلف انواع و اقسام کے کھانے مناسب قیمت پر دستیاب تھے۔

کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم کی تزین و آرائش کرکے اس میں بہت سی جدید سہولیات کا اضافہ کیا گیا ہے۔ ماضی میں اسٹیڈیم کی چھت سیمنٹ کی بنی ہوئی ہوتی تھی اور اکثر منچلے میچ کے دوران اس چھت پر چڑھ جاتے تھے۔ کچھ اسٹینڈ ایسے بھی ہوتے تھے جن میں شائقین کی سہولت کے لیے شامیانے لگائے جاتے تھے اور شائقین سیمنٹ کی سیڑہیوں پر بیٹھ کر میچ دیکھتے تھے۔ آج کے نیشنل اسٹیڈیم کے تمام اسٹینڈز کے اوپر جرمنی سے درآمد کی گئی Teflon شیٹس کی چھت موجود ہے۔ ان شیٹس پر آگ کا اثر نہیں ہوتا اور بارش کی صورت میں یہ شیٹ گیلی نہیں ہوتی۔ یہ شیٹس 25 سال تک قابل استعمال ہیں۔ نیشنل اسٹیڈیم پاکستان میں کھیلوں کا پہلا میدان ہے جہاں ٹیفلون شیٹس نصب کی گئی ہیں۔

کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں نصب قوی ہیکل الیکٹرانک اسکور بورڈ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ ماضی میں ایسے اسکور بورڈ ہوتے تھے جن پر اسکور کو ہاتھوں سے آگے بڑھایا جاتا تھا۔ اسکور بورڈ کو چلانے کے لیے ایک فرد مستقل موجود رہتا تھا۔ ویسے ماضی میں کرکٹ میچوں کے دوران اسکورنگ کی ایک کتاب بھی ہوتی تھی، مجھے نہیں معلوم کے اب وہ کتاب موجود ہوتی ہے یا تیزی سے ترقی کرتی ٹیکنالوجی نے اس روایت کو بھی ختم کردیا۔

نیشنل اسٹیڈیم کی تزین و آرائش کرکے اس میں بہت سی جدید سہولیات کا اضافہ کیا گیا ہے—تصویر سوشل میڈیا
نیشنل اسٹیڈیم کی تزین و آرائش کرکے اس میں بہت سی جدید سہولیات کا اضافہ کیا گیا ہے—تصویر سوشل میڈیا

نیشنل اسٹیڈیم پاکستان میں کھیلوں کا پہلا میدان ہے جہاں ٹیفلون شیٹس نصب کی گئی ہیں—تصویر سوشل میڈیا
نیشنل اسٹیڈیم پاکستان میں کھیلوں کا پہلا میدان ہے جہاں ٹیفلون شیٹس نصب کی گئی ہیں—تصویر سوشل میڈیا

ماضی میں کرکٹ کے کھیل کے مداح خود کو میچ کی صورتحال سے ہر لمحہ باخبر رکھنے کے لیے اپنے ساتھ ریڈیو لے کر آتے تھے۔ لیکن آج ٹیکنالوجی کے اس دور نے ریڈیو پر میچ سننے کی روایت کو تقریباََ ختم ہی کردیا ہے۔ ویسے بھی گراؤنڈ میں موجود الیکٹرانک اسکور بورڈ کی بدولت اب شائقین ہر وقت بیٹسمین اور باؤلر کے ناموں، ان کے بنائے گئے رنز، ان کی جانب سے حاصل کی گئی وکٹوں کے ساتھ ساتھ میچ جیتنے کے لیے درکار رنز اور جیت کے لیے درکار رن ریٹ سے بھی باخبر رہتے ہیں۔

مزید پڑھیے: پاکستان سپر لیگ کے دلچسپ اور سنسنی خیز مقابلوں پر ایک نظر

اکثر لوگ میچ دیکھنے کے لیے اس لیے اسٹیڈیم نہیں جاتے کہ گراؤنڈ میں ری پلے نہیں دیکھ سکتے، لیکن اب تو یہ مسئلہ بھی حل ہوچکا ہے کیونکہ اچھی خبر یہ ہے کہ میدان میں نصب الیکٹرانک اسکور بورڈ کے درمیان ایک اسکرین بھی نصب ہے جس پر ہر اچھے اسٹروک اور ہر گرنے والی وکٹ کا ایکشن ری پلے دکھایا جاتا ہے۔ ٹیکنالوجی کی اس ترقی کے باعث میدان میں میچ دیکھنے کا لطف سمجھیے دوبالا ہوگیا ہے. پھر اس کے علاوہ میدان میں ڈرون کیمرے سے ہونے والی میچ کی کوریج بھی اپنی مثال آپ ہے۔

آج سے23 سال قبل جب میں کرکٹ میچ دیکھنے گیا تھا تو تقریباََ 8 گھنٹے تک میرے پاس اپنے گھر والوں سے رابطہ کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا لیکن آج سے چند روز قبل جب میں کرکٹ میچ دیکھنے گیا تو اپنے پاس موجود موبائل فون کی بدولت میں ناصرف پل پل اپنے گھر والوں سے رابطے میں تھا بلکہ ان کو میدان میں بیٹھ کر اپنی اور کھلاڑیوں کی تصویریں بھی بھیج رہا تھا۔

نیشنل اسٹیڈیم کے اندر ویسے تو بہت سی تبدیلیاں آگئی ہیں لیکن اسٹینڈز کے درمیان لگے لوہے کے جنگلے پر کسی نے توجہ نہیں دی اور ان جنگلوں پر موجود لوہے کی جالیاں زنگ آلود ہوگئی ہیں۔ جہاں اسٹیڈیم کی مکمل تزین و آرائش کی گئی تھی، وہیں کیا ہی اچھا ہوتا کہ ان جنگلوں پر موجود جالیوں کو بھی تبدیل کردیا جاتا۔

جنگلوں پر موجود لوہے کی جالیاں زنگ آلود ہوگئی ہیں—تصویر سوشل میڈیا
جنگلوں پر موجود لوہے کی جالیاں زنگ آلود ہوگئی ہیں—تصویر سوشل میڈیا

نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں فلڈ لائٹس میں کرکٹ میچ دیکھنے کا یہ میرا پہلا تجربہ آس پاس بیٹھے شائقین کی رنگ میں بھنگ ڈالنے کی کوشش کے باوجود بہت اچھا رہا۔ کچھ شائقین تمباکو نوشی کی وجہ سے اپنے اطراف بیٹھے لوگوں کے لیے تکلیف کا باعث بن رہے تھے جبکہ کچھ شائقین مختلف کمپنیوں کی جانب سے تقسیم کئے گئے چوکوں اور چھکوں کے کارڈز کے کاغذی ہوائی جہاز بنا کر اور ان کو اپنے اطراف بیٹھے لوگوں پر پھینک کر اپنے غیر تربیت یافتہ ہونے کا ثبوت دے رہے تھے۔

چند منچلے تو کچھ اس انداز سے کرسیوں پر بیٹھے تھے کہ ان کی ٹانگیں آگے بیٹھے ہوئے لوگوں کو چُھو رہی تھیں۔ میچ کے اختتام کے بعد جس طرح لوگ کرسیوں پر پاؤں رکھتے ہوئے میدان سے باہر جا رہے تھے وہ ان کی کم علمی کا ایک ثبوت تھا۔ ایسے افراد شاید اس حقیقت سے نابلد ہیں کہ اسٹیڈیم کی تزین و آرائش عوام کی جانب سے جمع کروائی گئی ٹیکس کی رقم سے ہی ہوئی ہے اور اسٹیڈیم کو نقصان پہنچا کر وہ دراصل اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں۔

میچ کے بعد لوگ کرسیوں پر پاؤں رکھتے ہوئے باہر جا رہے تھے—تصویر سوشل میڈیا
میچ کے بعد لوگ کرسیوں پر پاؤں رکھتے ہوئے باہر جا رہے تھے—تصویر سوشل میڈیا

فلڈ لائٹس میں میچ دیکھنے کا میرا پہلا تجربہ بہت اچھا رہا—تصویر سوشل میڈیا
فلڈ لائٹس میں میچ دیکھنے کا میرا پہلا تجربہ بہت اچھا رہا—تصویر سوشل میڈیا

نیشنل اسٹیڈیم میں اس وقت لگ بھگ 33 ہزار افراد کی گنجائش ہے جو کراچی کی آبادی کے تناظر میں بہت کم ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کو اس جانب توجہ دینی چائیے اور اسٹیڈیم میں کم از کم 50 ہزار شائقین کے لیے گنجائش پیدا کرنے کے لیے اقدامات کرنے چائیے۔

مزید پڑھیے: نو-بال کی وجہ سے پی ایس ایل کے بدلتے نتائج کا احوال

اسی کے ساتھ ساتھ ہم یہ امید بھی کرتے ہیں کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نیشنل اسٹیڈیم کی دیکھ بھال کے لیے ایماندار اور محنتی لوگ تعینات کرے گا تاکہ یہ اسٹیڈیم سال کے 12 مہینے ہر وقت غیر ملکی ٹیموں کی میزبانی کے لیے تیار رہے۔

خرم ضیاء خان

خرم ضیاء خان مطالعے کا شوق رکھنے کے ساتھ ساتھ کھیلوں کے معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: KhurramZiaKhan@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (4) بند ہیں

Raja kamran Mar 21, 2019 06:21pm
خرم بھائی آپ کی بہت اچھی تحریر ہے خصوصا عوامی سطح پر تمباکو نوشی اور دیگر آس پاس کے لوگوں سے بد تہزیبی کے واقعات شرمناک ہیں
Nadeem Akhter Mar 21, 2019 10:35pm
بہت عمدہ تحریر۔
Khurram Khan Mar 22, 2019 12:27am
@Raja kamran Thank you janab for your praise
Khurram Khan Mar 22, 2019 12:28am
Thank you Raja bhai for your appreciation

کارٹون

کارٹون : 30 اکتوبر 2024
کارٹون : 29 اکتوبر 2024