ملکی معیشت مزید سست روی کا شکار ہوگی، گورنر اسٹیٹ بینک
اسلام آباد: گورنر اسٹیٹ بینک (ایس بی پی) طارق باجوہ نے کہا ہے کہ قرضوں سے بچنے کے لیے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) سے بیل آؤٹ پیکیج کی مانگ موجود ہے اس لیے معیشت ایک معتدل درستگی کے عمل سے گزرنے کے لیے تیار ہے جس کے دوران معیشت مزید سست روی کا شکار ہوگی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بلومبرگ ایل پی کی جانب سے منعقدہ پاکستان اکناملک فورم سے خطاب کرتے ہوئے گورنر اسٹیٹ بینک طارق باجوہ کا کہنا تھا کہ نئے بیل آؤٹ پیکیج کے تحت پالیسی سمت کا تعین کرنے کے لیے پاکستان اور آئی ایم ایف کے دمیان معاہدہ پہلے سے ہی موجود ہے، تاہم دونوں کے درمیان اختلافات صرف مستحکم پالیسیوں کے وقت اور رفتار میں ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان نے آئی ایم سے گزشتہ برس اکتوبر کے مہینے میں مالی معاونت طلب کی تھی تاہم طویل عرصے سے جاری مذاکرات بے نتیجہ رہے جس کی وجہ سے زرمبادلہ کی مارکیٹ افرا تفری کا شکار تھی۔
مزید پڑھیں: ملکی معیشت 8 سال کی بدترین سطح پر پہنچ گئی
اپنے خطاب کے دوران گورنر اسٹیٹ بینک نے امید کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ترسیلاتِ زر میں اضافے کی وجہ سے درآمدات میں کمی واقع ہوئی ہے جس کے ساتھ ہی موجودہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی آئے گی۔
انہوں نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ برس کے مقابلے میں رواں برس فروری کے مہینے میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں 72 فیصد کمی آئی، جو روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے بیلنس آف پیمنٹ کی ادائیگی میں ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔
گورنر اسٹیٹ بینک کا کہنا تھا کہ معیشت کو مستحکم کرنے کی مشق کے دوران بحالی کی راہ پر گامزن ہونے سے قبل ابتدائی طور پر معیشت سست روی کا شکار ہوتی ہے
انہوں نے واضح کیا کہ مجموعی طور پر مالی معاملات میں سختی کے باوجود ای ایف ایف اور ایل ٹی ایف ایف کے لیے شرح سود 10 سال کی کم ترین سطح پر ہی رکھی گئی ہے تاکہ برآمدات کرنے والے سیکٹر کو مراعات دی جاسکیں۔
یہ بھی پڑھیں: معیشت کی بہتری کیلئے حکومت کا وفاقی بجٹ میں تبدیلی کا فیصلہ
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ برآمدات میں ابھی اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا، اور سالانہ بنیادوں پر راوں برس فروری میں اس میں کمی ہی دیکھنے میں آئی ہے، اور اس کمی کی وجہ بین الاقوامی عوامل ہیں۔
طارق باجوہ کا کہنا تھا کہ اس وقت معاشی ترقی سست روی کا شکار ہے جس کی وجہ سے آمدن میں اضافہ بھی مسئلے کا شکار ہے، یہاں حکومت کے کئی اخراجات غیر اختیاری نوعیت کے ہیں بالخصوص ان میں قرض سروس اور دفاعی اخراجات میں اضافہ ہے۔
واضح رہے کہ دفاعی اخراجات کا تخمینہ 19-2018 کے دوران 16 کھرب 75 ارب روپے تک ہونے کا امکان ہے جبکہ رواں برس ستمبر میں یہ 11 کھرب روپے مقرر کیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان مالی بحران سے نکل گیا ہے، گورنر اسٹیٹ بینک
اس کے بر عکس پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام پر 5 سو 75 ارب روپے خرچ ہوسکیں گے جبکہ اس کے لیے تخمینہ 8 سو ارب روپے لگایا گیا تھا۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے وزیرِ خزانہ اسد عمر نے عزم کا اظہار کیا کہ آئندہ مالی سال کے دوران نان فائلرز کے لیے بھی کاروباری لین دین پر ود ہولڈنگ ٹیکس ختم کردیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ جب ٹیکس نافذ کیا جاتا ہے تو کیش جمع کروانے کی شرح (سی ڈی آر) بڑھتی ہے، اور جب ٹیکس کی شرح کو بڑھایا جاتا ہے تو سی ڈی آر میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ہم نے گزشتہ برس فائلرز پر سے یہ ٹیکس ختم کردیا تھا اور ممکنہ طور پر رواں سال پیش کیے جانے والے بجٹ میں اسے نان فائلرز پر سے بھی ہٹا دیا جائے گا۔