فاٹا کے عوام اب بھی مرکز کی توجہ کے منتظر ہیں
لوگ پوچھتے ہیں کہ فاٹا ملک کا سب سے پسماندہ علاقہ کیوں ہے؟ عام طور پر غیر ترقی یافتہ دُور دراز کے علاقوں میں ترقی کی سُست رفتاری کا الزام مرکزی یا ترقی یافتہ علاقوں کے ساتھ تعلقات پر ڈالا جاتا ہے، وہی مرکز جو عالمگیریت کے کئی فوائد پر قبضہ کرلیتے ہیں اور یوں وہ تیزی سے ترقی کرتے ہیں جبکہ دیگر دُور دراز موجود ممالک کا حصہ غیر منصفانہ انداز میں ہڑپ کرلیا جاتا ہے۔ اگر وہ شکایت کرتے ہیں تو مرکز قوت کا استعمال کرتا ہے۔ یہ غالب گروہ نہ صرف تیزی سے ترقی کرتا ہے بلکہ اپنی زبان و ثقافت کو بھی فروغ دیتا ہے بلکہ یوں کہیے کہ انہیں دیگر پر تھوپتا چلا جاتا ہے۔
پروفیسر اکبر ایس احمد نے مرکز اور دُور دراز غیر ترقی یافتہ خطوں کے درمیان تعلقات پر اپنی کتاب 'دی تھسل اینڈ دی ڈرون' (The Thistle and the Drone) میں روشنی ڈالی ہے۔ وہ اپنا نکتہ درست ثابت کرنے کے لیے 40 ملکوں کی مثالیں دیتے ہیں اور اس غیر منصفانہ تعلقات کو ہی دہشت گردی کے مسئلے کی جڑ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
پاکستان کے معاملے میں مرکز اور کنارے کے درمیان تعلقات میں خلیج کافی حد تک واضح ہے: ترقی کے اعتبار سے نہ صرف کنارہ پیچھے ہے بلکہ اسے مرکز کی جانب سے استعمال کردہ ظالمانہ قوت کے زور پر بے تحاشہ مشکلات سے بھی گزرنا پڑا ہے۔
آج پاکستان 2 اہم حصوں میں بٹا ہوا ہے، پہلا مرکز سے قریب ترقی یافتہ علاقے اور دوسرا پسماندہ کنارہ۔ یہ مخصوص علاقے سماجی طور پر ویسے ہی الگ ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ امن و امان کی صورتحال اور ان کی طرف حکومتی رویہ بہت ہی زیادہ مختلف نظر آتا ہے۔
ترقی یافتہ مرکز کو جن چند مسائل کا سامنا ہے ان میں،
- کاروبار کرنے کے لیے لاگت میں کمی اور اس میں آسانیاں،
- قرضوں کا مسلسل بڑھنا،
- توانائی،
- کم پیسوں والی تربیت یافتہ افرادی قوت،
- خام مال تک آسان رسائی اور بہترین طریقوں کے معیار اور دستیابی کو بہتر بنا کر ایک زیادہ مسابقتی معیشت کو وجود میں لانا،
- ٹیکس جمع کرنے کے طریقوں کو آسان بناکر اس کے حصول کو ممکن بنانا، اور
- پاکستانی معیشت کی جانب بین الاقوامی برادری میں مثبت جذبات پیدا کرنا۔
دوسری طرف کنارے پر واقع علاقے ان مسائل سے غافل رہتے ہیں۔ 70 برسوں سے فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن کے سیاہ قوانین کے زیرِ سایہ فاٹا زوال پزیر، جابرانہ اور سرمایہ کاری مخالف اور ترقی مخالف تھا۔
’اجتماعی ذمہ داری‘ کے قانون کے تحت ایک سیاسی ایجنٹ ایک پورے قبیلے کو گرفتار کرسکتا تھا، بندشیں نافذ کرسکتا ہے اور اقتصادی رکاوٹیں حائل کرسکتا تھا، اور ’منحرف‘ قبال کی ذاتی ملکیت ضبط یا اپنے قبضے میں لے سکتا تھا۔ وہاں کوئی عدالت نہیں تھی کہ جہاں سیاسی ایجنٹ کے احکامات کے خلاف درخواست دی جاسکتی۔ یوں وہاں کے لوگوں میں قابلِ احترام لوگوں کو ان کے ناکردہ غلطیوں پر بلاوجہ حراست میں لیے جانے پر شرمندگی اور غصہ محسوس ہوتا۔
ظاہر ہے ان حالات میں کوئی بھی معقول شخص قبائلی علاقوں میں محنت سے کمائے گئے پیسوں سے سرمایہ نہیں کرتا، اور پھر وہ ایک شخص کے رحم و کرم پر رہتا کہ جہاں جبر کے خلاف انصاف کا کوئی راستہ ہی نہیں تھا۔ سیاسی ایجنٹ ایجنسی سے حاصل ہونے والی یا وہاں بھیجی جانے والی تمام تجارتی اجناس کے درآمدات اور برآمدات کے لیے پرمٹ جاری کرتا۔ پرمٹ کی ایک قیمت مقرر ہوتی تھی، یہی ذریعہ آمدن ہوتا تھا لیکن اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ کہ اسے منڈی اور کاروبار میں سازبازی کا حق حاصل ہوتا۔
اسی طرح بینک قرضے اور پاکستان انڈسٹریل کریڈٹ اینڈ انویسٹمنٹ کورپوریشن جیسے اداروں کی جانب سے سرمایہ کاری ملک کے صرف ایک ہی حصے تک محدود تھی۔
مرکز نے صرف ایک بار ہی اس وقت کنارے والے حصے میں سرمایہ کاری کی جب تیل، گیس اور دیگر معدنیات کو زمین سے نکالا جانا تھا، یوں قبائلی عوام کے مرکز سے مسائل بڑھتے گئے جو اپنے ذاتی فائدوں اور ممکنہ دولت کے حصول کے پیچھے لگا رہا۔
فاٹا کو کبھی پی ایس ڈی پی (PSDP) میں اس کا جائز حق نہیں ملا، بینکاری قوانین میں توسیع نہیں ہوئی، جی ایس ٹی اور وفاقی ریزرو پُول میں سے اس کا حصہ دینے سے انکار کردیا گیا، راہداری اور ٹِگا جیسے غیر قانونی ٹیکس کو تھوپ دیا گیا۔ لہٰذا فاٹا جن اضلاع پر مشتمل تھا وہاں یہ سوالات اٹھنے لگے کہ ہم اپنی اگلی تنخواہ کب اٹھانے جا رہے ہیں؟ ہماری جن زمینوں پر حکومت نے قبضہ کیا ان کا معاوضہ ملے گا یا نہیں؟ جو مائننگ جاری ہے اس میں سے کیا ہمیں حصہ ملے گا؟ وعدے کے مطابق لیویز کو پولیس میں ضم کیوں نہیں کیا جاتا؟
جہاں ملک کا ایک حصہ سائبر کرائم کی روک تھام پر بات کر رہا ہے جبکہ دوسرا حصہ انٹرنیٹ اور موبائل سروسز فراہم کرنے کے لیے التجائیں کر رہا ہے۔ ایک حصہ بلٹ ٹرینوں اور ایئر کنڈیشنڈ میٹرو بسوں کی بات کر رہا ہے تو اسی وقت ملک کا ایک حصہ 2 وقت کی روٹی کا مطلوب ہے۔ ایک حصے میں روبوٹک سرجریوں، دل اور گردے کی ٹرانسپلانٹ کی باتیں ہو رہی ہیں جبکہ دوسرا حصہ ایک اچھے انڈر گریجویٹ کالج کا منتظر بنا ہوا ہے۔
فاٹا تعلیم میں عمومی طور پر اور لڑکیوں کی تعلیم میں خصوصی طور پر پیچھے رہا، لیکن جب وہاں کے لوگوں کو عارضی نقل مکانی کرنی پڑی تو ان کی ایک پوری نسل تعلیم سے محروم ہوگئی۔
علاوہ ازیں، گزشتہ چند برسوں کے دوران افغان تجارت کا رخ شمالی اور مغربی افغانستان کی طرف موڑ دینے کی وجہ سے وہ لاکھوں افراد متاثر ہوئے ہیں جن کا ذریعہ معاش سرحدی تجارت سے جڑا ہے۔
اب جبکہ ایف سی آر کا خاتمہ ہوچکا ہے اور وزیرِاعظم ترقیاتی کاموں سے جڑی اپنی تقریباً ہر تقریر میں قبائلی علاقوں کا ذکر کرچکے ہیں، لہٰذا اب وقت ہے کہ بہتر اور زیادہ انسان دوست پالیسیاں مرتب کی جائیں۔
بدقسمتی سے ان کی صوبائی ٹیم سابقہ فاٹا کو مرکزی دھارے میں لائے جانے کی آئینی ترامیم کے باوجود اس کے ساتھ ایک خاص علاقے کے طور پر پیش آ رہی ہے۔ وہ اس حقیقت کو نہیں سمجھتے کہ اصلاحات پر عمل درآمد نہ ہونے کے باعث سماجی و اقتصادی ترقی کی ابتدا میں بھرپور انداز میں رکاوٹ پیش آتی ہے۔
ترقی یافتہ اور ترقی پذیر علاقوں کے درمیان حائل خلیج میں اضافہ ہوچکا ہے جسے جلد سے جلد ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ سابقہ فاٹا کے نوجوانوں میں ناراضگی کی فضا جائز ہے۔ اب اگر اس خلیج میں مزید اضافہ ہوا تو یہ ایک آفت کو دعوت دینے کے مترادف ہوگا۔
یہ مضمون 17 مارچ 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
تبصرے (3) بند ہیں