سانحہ ماڈل ٹاؤن: جے آئی ٹی کو نواز شریف سے جیل میں تفتیش کی اجازت
اسلام آباد: پنجاب پولیس کی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم(جے آئی ٹی) سابق وزیر اعظم نواز شریف سے ماڈل ٹاؤن کیس میں تفتیش کرے گی۔
اسلام آباد کی احتساب عدالت نے تفتیشی افسر کو ماڈل ٹاؤن کیس کی تحقیقات کے سلسلے میں وزیر اعظم سے ملاقات کی اجازت دے دی۔
مزید پڑھیں: ’کیا ماڈل ٹاؤن سانحے میں دوسری جے آئی ٹی بنائی جاسکتی ہے؟‘
پنجاب پولیس کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ محمد اقبال نے اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک کو درخواست لکھ کر کوٹ لکھپت جیل میں قید سابق وزیر اعظم سے تفتیش کے لیے ملاقات کی اجازت طلب کی تھی۔
جج کی جانب سے نواز شریف پر العزیزیہ ریفرنس میں فرد جرم عائد کرنے اور 7سال کی سزا کے لیے کوٹ لکھپت جیل بھیجے جانے کے بعد قانون کے تحت تحقیقاتی ٹیم کے لیے یہ لازم تھا کہ وہ نواز شریف سے تفتیش سے قبل عدالت سے اجازت طلب کرے۔
دوسری جانب قومی احتساب بیورو کے پراسیکیوٹر مرزا عثمان نے درخواست کی مخالفت کی اور کہا کہ تفتیشی افسر اس طرح کی اجازت لینے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے بھی رجوع کر سکتے ہیں۔
البتہ معمولی جرح کے بعد جج نے ڈی ایس پی کو نواز شریف سے تفتیش کی اجازت دے دی ۔
یہ بھی پڑھیں: سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس: سپریم کورٹ کا لارجر بینچ تشکیل
پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ علامہ طاہر القادری کی رہائش گاہ کے باہر 17جون 2014 کو کیے انسداد تجاوزات آپریشن کے نتیجے میں کم از کم 14 افراد ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن
17 جون 2014 کو لاہور کے علاقے ماڈل ٹاون میں تحریک منہاج القران کے مرکزی سیکریٹریٹ اور پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ کے سامنے قائم تجاوزات کو ختم کرنے کے لیے آپریشن کیا گیا تھا۔
آپریشن کے دوران پی اے ٹی کے کارکنوں کی مزاحمت کے دوران ان کی پولیس کے ساتھ جھڑپ ہوئی جس کے نتیجے میں 14 افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ 90 کے قریب زخمی بھی ہوئے تھے۔
درخواست گزار بسمہ امجد نے اپنی والدہ کے قتل کے خلاف سپریم کورٹ کے انسانی حقوق سیل میں درخواست دائر کی تھی اور واقعے کی تحقیقات کے لیے نئی جے آئی ٹی بنانے کی استدعا کی تھی۔
مزید پڑھیں: ماڈل ٹاؤن کیس میں نواز شریف، شہباز شریف کی طلبی کی درخواست خارج
عدالت عظمیٰ کی جانب سے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کے لیے 5 رکنی لارجر بینچ میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار، جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس شیخ عظمت سعید، جسٹس فیصل عرب اور جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل پر مشتمل تھا۔
یہ بھی یاد رہے کہ 2014 میں ہونے والے ماڈل ٹاؤن سانحے کی تحقیقات کے لیے قائم کمیشن نے انکوائری رپورٹ مکمل کرکے پنجاب حکومت کے حوالے کردی تھی، جسے منظرعام پر نہیں لایا گیا۔
تاہم بعد ازاں عدالت نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی رپورٹ منظر عام پر لانے کا حکم دیا تھا، جس کے بعد حکومت جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ کو منظر عام پر لے آئی۔