سی پیک کی طرز پر پیٹرولیم ذخائر کیلئے بھی سیکیورٹی فورس بنانے کی منظوری
اسلام آباد: وزیر اعظم عمران خان نے پاک-چین اقتصادی راہداری منصوبے (سی پیک) کے سیکیورٹی انتظامات کی طرز پر پیٹرولیم کی کھوج لگانے والی کمپنیوں کے لیے خصوصی سیکیورٹی فورس کے قیام کی منظوری دے دی ہے، جس سے مقامی تیل اور گیس کے ذخائر کی پیداوار بڑھانے کے لیے پرکشش سہولتیں فراہم کی جا سکیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق توانائی کے شعبے سے متعلق ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیر اعظم نے پیٹرولیم ڈویژن کی پالیسی کو اجازت لینے کے نقطہ نظر سے تبدیل کر کے اطلاع دینے کی سطح پر لانے کی تجویز کی بھی منظوری دی، جس سے تیل اور گیس کمپنیوں کو دریافت کے مرحلے کے بعد بھی بہت آزادی ملے گی۔
مزید پڑھیں: اوگرا نے گیس کی قیمتوں میں 22 فیصد تک اضافہ کردیا
ان سب سے بڑھ کر وزیر اعظم نے تیل اور گیس کی کھوج لگانے والی درمیانی سطح کی کمپنیوں کو کھوج کے شعبے میں داخل کرنے کی منظوری دیتے ہوئے پراسیسنگ کے وقت اور اس کے درجات میں کمی کردی اور تمام سرمایہ کاروں کے لیے اس کی منظوری دی تاکہ وہ جارحانہ طریقے سے مقامی سطح پر پائے جانے والے ہائیڈرو کاربن کے ذخائر کی تلاش اور اس کی ترقی کے لیے کوششیں کریں۔
یہ پیٹرولیم کی تلاش اور پیداوار کی نئی مجوزہ پالیسی کا حصہ ہے جس کے تحت وزیر اعظم کو مطلع کیا گیا تھا کہ درآمد شدہ تیل، گیس اور ایل این جی ممنوع حد تک مہنگی اور غیر مستحکم ہے اور حال میں گیس کی قیمتوں میں جس اضافے نے عوام کو حیران و پریشان کردیا تھا وہ دراصل محض مشکل وقت کا آغاز ہے، صرف اس سال استعمال کی جانے والی درآمد شدہ ایل این جی 3 سے 4 ارب ڈالر کی ہو گی، اس کے مقابلے میں گیس کی پیداوار کی مقامی لاگت بڑھی ہوئی ہو گی جبکہ تیل کی درآمدات 13 سے 14ارب ڈالر ہے۔
ایک بیان میں کہا گیا کہ ملک میں سیکیورٹی کے موجودہ ماحول کو دیکھتے ہوئے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ ذخائر کی کھوج لگانے والی کمپنیوں کو فول پروف سیکیورٹی فراہم کی جائے گی تاکہ مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو مطمئن کیا جا سکے۔
یہ بھی پڑھیں: ٹیکس دہندگان کی فہرست میں کراچی سب سے آگے
ایک عہدیدار نے کہا کہ وزیر اعظم جارحانہ مارکیٹنگ کے ذریعے دوسری یا تیسری سہ ماہی میں نظرثانی شدہ پالیسی کی مشترکہ مفادات کونسل سے باقاعدہ منظوری سے قبل، اس میں کچھ تبدیلیاں چاہتے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ 50 ہزار اہلکاروں کی خصوصی فورس کی تشکیل کے لیے مزید تفصیلات درکار ہوں گی تاکہ ملک کے مصیبت زدہ علاقوں خصوصاً بلوچستان میں بلاتعطل تیل و گیس کے ذخائر کی کھوج ممکن بنائی جا سکے جہاں چیلنجنگ سیکیورٹی صورتحال کے سبب چند علاقوں تک اب بھی رسائی ناممکن ہے۔
پیٹرولیم کی پیداواری فیلڈ کی حامل موجودہ کمپنیوں کو ایک خاص عرصے کے بعد خصوصی مراعات کی پیشکش کی جائے گی جہاں کمپنیز سرمائے کو مزید موزوں نہ جانتے ہوئے پیداوار کرنا چھوڑ دیتی ہیں، جس کے سبب مجموعی ذخائر کی 60 فیصد پیداوار کے بعد بقیہ 40 فیصد وسائل کو اسے عمال نہیں کیا جاتا۔
ایک عہدیدار کے مطابق نئی پالیسی کا مقصد پیٹرولیم (کھوج اور پیدوار) پالیسی 2012 کو اپ گریڈ کرنا ہے تاکہ زیادہ خطرات کے حامل فرنٹیئر ریجن کے لیے مکمل نیا کھوج کا زون بنایا جا سکے اور جس سے بہتر نتائج حاصل ہو سکیں تاکہ ہائیڈرو کاربن کی کھوج اور پیداوار کے امکانات کو بڑھایا جا سکے۔
موجودہ پالیسی کے تحت خطرات اور سرمایہ کاری کے مواقع کی بنیاد پر 3 اون شور (onshore) زون کی نشاندہی کی گئی ہے۔
زون ایک مغربی بلوچستان، پشین اور پوٹوہار کا احاطہ کرتا ہے، زون ٹو کیرتھر، مشرقی بلوچستان، پنجاب اور سلیمان طاس پر مشتمل ہے جبکہ زیر سندھ طاس کو زون تھری قرار دیا گیا ہے۔
سرمایہ کاروں کو زون تھری کے لیے 6 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو، زون 2 کے لیے 6.3 ڈالر ایم ایم بی ٹی یو اور زون ون کے لیے 6.6 ڈالر ایم ایم بی ٹی یو کی پیشکش کی گئی ہے۔
اب ایک نیا زون تشکیل دیا گیا ہے جسے زون ایک (ایف) کا نام دیا گیا جو بلوچستان میں پشین اور کھاران کے ساتھ ساتھ خیبرپختونخوا کے چند سرحدی علاقوں کے ساتھ ساتھ قبائلی اضلاع کا بھی احاطہ کرتا ہے جس میں 20 ٹریلین کیوبک فٹ سے زیادہ ہائیڈرو کاربن کی موجودگی کا امکان ہے۔
پیٹرولیم ڈویژن نے کھوج لاگنے والی کمپنیوں کی درخواست پر اس زون کو خصوصی توجہ دینے کی درخواست کی ہے اور اس کے لیے 7 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو کے ریٹ کی پیشکش کی گئی ہے۔