'افغانستان میں امن، بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات ہماری ترجیح ہے'
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات اور افغانستان میں قیام امن ہماری حکومت کی 2 اہم ترین ترجیحات ہیں۔
روسی نشریاتی ادارے ’آر ٹی‘ ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہم خطے میں تنازع کی جانب دیکھنے کے بجائے مسائل کے پر امن حل کی جانب توجہ مرکوز رکھنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے بھارت کے ساتھ کشیدگی پر عالمی برادری کے ردِ عمل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو دنیا بھر سے حمایت حاصل ہوئی، جس میں روس کی جانب سے ثالثی کی پیشکش اور امریکی صدر کی جانب سے تحمل سے کام لینے کا مطالبہ شامل ہے جبکہ یورپی یونین نے براہِ راست بھارت کو مخاطب کرتے ہوئے کشیدگی میں اضافہ نہ کرنے کی ہدایت کی۔
یہ بھی پڑھیں: 'بھارت امن کی پالیسی کو کمزوری نہ سمجھے، پوری قوم پاک فوج کے ساتھ ہے'
چین کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ معاشی بنیادوں پر پاکستان اور چین کے تاریخی تعلقات قائم ہیں جبکہ چین اقتصادی راہداری منصوبے (سی پیک) کے تحت پاکستان میں بڑی سرمایہ کاری کررہا ہے جس کے لیے ہم دیگر ممالک کو بھی مدعو کرچکے ہیں۔
لہٰذا معاشی بنیادوں پر چین اور دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کے فروغ کے لیے ہم پائیدار امن کا حصول چاہتے ہیں۔
امریکا کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ امریکا اور پاکستان کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ جاری رہتا ہے، جب امریکا کو ہماری ضرورت ہوتی ہے تو وہ دوست اور جب ضرورت نہیں ہوتی تو وہ دشمن یا اجنبی بن جاتا ہے۔
لیکن اب ہم امریکا کے ساتھ ساتھ روس سے بھی معاشی بنیادوں پر اچھے تعلقات استوار کرنا چاہتے ہیں اور سلسلے میں آنے والے تمام مسائل کو حل کرنے کے لیے تیار ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان ایک خود مختار ملک ہے اور دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ آزادنہ تعلقات چاہتا ہے اور یقینی طور پر ان تعلقات میں سب سے اہم چیز دو طرفہ مفاد ہوتا ہے، جسے مدِ نظر رکھا جائے گا۔
بھارت کی جارحیت کے خلاف ایف 16 طیارے کے استعمال کے معاملے پر ان کا کہنا تھا کہ ہم ایف 16 کی مکمل ادائیگی کرچکے ہیں اور جہاں تک معاہدے کی خلاف ورزی کی بات ہے تو ہم نے کوئی خلاف ورزی نہیں کی اس کارروائی میں ایف-16 طیاروں کو استعمال ہی نہیں کیا گیا۔
مزید پڑھیں: ’بھارت کو امن کے جواب میں امن اور گولی کا جواب گولی سے دیں گے‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم امن کے لیے کوشش کررہے ہیں اور ایف-16، ایف-17 اور بموں کا سہارا لیے بغیر مسائل حل کرنا چاہتے ہیں لیکن اگر ہم پر جنگ مسلط کی گئی تو ہمیں معلوم ہے کہ جنگ کس طرح لڑی جاتی ہے۔
پاکستان کی جانب سے کی جانے والی امن کی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے حلف اٹھانے سے پہلے ہی بھارت کو پیش کش کردی تھی کہ اگر آپ ایک قدم اٹھائیں گے تو ہم 2 قدم آگے بڑھائیں گے۔
اور عمران خان نے اپنی یہ پالیسی تبدیل نہیں کی اسی لیے ہم نے کرتار پور سرحد کھولنے کا اعلان کیا اور خطے میں امن کے لیے اقدامات کیے لیکن ہماری کوششوں پر بھارت کی جانب سے مثبت ردِ عمل نہیں دیا گیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اب یہ تاثر عام ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی انتخابات کے لیے جنگ کا ماحول پیدا کررہے ہیں جس کی وجہ سے امن کا راستہ نہایت دشوار ہوتا جارہا ہے اس لیے ان کوششوں کے دوبارہ آغاز کے لیے ہم بھارتی انتخابات ختم ہونے کا انتظار کررہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بھارتی آرمی چیف امن کیلئے بھی جنرل باجوہ کو فالو کریں، ڈی جی آئی ایس پی آر
انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تین راستے موجود ہیں 70 سال میں دونوں ممالک 3 جنگیں لڑ چکے ہیں اور مزید ایک اور بھی لڑ سکتے ہیں، دوسرا راستہ ایک دوسرے کو کمزور کرنا ہے، جیسا کے بھارت کی جانب سے پاکستان میں دہشت گردی اسپانسر کی جارہی ہے اور کلبھوشن سے لیکر لطیف محسود اس کی مثال ہے، ہم بھی انہیں کمزور کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔
لیکن تیسرا راستہ یہ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات ہوں اور مل کر دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی جائے اور ہم بھارت کو اس کی پیشکش کررہے ہیں، اس سے زیادہ ہم کیا کرسکتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کشمیر دنیا کا سب سے زیادہ ملٹرائزڈ ریاست بن چکا ہے جہاں ہر 10 کشمیریوں پر ایک بھارتی فوجی تعینات ہے یہ وہ ماحول ہے جو بھارت نے کشمیر میں پیدا کیا ہے لہٰذا ہم چاہتے ہیں کہ بھارت ہمارے ساتھ تعاون کرے تاکہ ہم اپنے مسائل حل کریں۔