40 کروڑ روپے کی عدم ادائیگی: 5 ہسپتالوں میں کینسر مریض دوا سے محروم
لاہور: پنجاب حکومت کی جانب سے ملٹی نیشنل کمپنی کے لیے 40 کروڑ روپے کی ادائیگی روکنے کے بعد کینسر کے مریضوں کے لیے حال ہی میں تیار کردہ ادویات اسکریپ کی نظر ہوسکتی ہے کیونکہ 5 برسوں کے لیے خریدی گئی اس دوا کے پروجیکٹ کے تحت اسے ’تیسرے فریق کی توثیق‘ سے مشروط کردیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ڈی ٹی ایل رپورٹس میں دوا کی منظور کے فوری بعد ادائیگی کو روک دیا گیا تھا، اس دوا کو ’پنجاب سی ایم ایل پروجیکٹ‘ کے تحت چلنے والے 5 سرکاری ہسپتالوں کے 5 ہزار رجسٹر مریضوں میں تقسیم کرنے کے لیے اکتوبر 2018 میں سوئٹزرلینڈ سے منگوایا گیا تھا۔
اس حوالے سے محکمہ صحت کے ایک سینئر عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ ’اس کے بعد سے جناح ہسپتال لاہور کے اسٹور میں غیر استعمال شدہ اسٹاک موجود ہے اور ہسپتال کی انتظامیہ نے اسے مریضوں میں تقسیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ یہ دوا جناح ہسپتال لاہور سمیت 5 ہسپتالوں، میو ہسپتال لاہور، الائیڈ ہسپتال فیصل آباد، نشتر ہسپتال ملتان اور ہولی فیملی ہسپتال راولپنڈی میں رجسٹر مریضوں میں تقسیم کی جانی تھی۔
مزید پڑھیں: کینسر کے خطرات کم کرنے والی غذائیں
عہدیدار نے بتایا کہ بدقسمتی سے مریضوں کے لیے مقامی مارکیٹ میں کوئی متبادل دوا موجود نہیں اور ان میں سے اکثر بستر پر ہیں یا ان کی حالت خراب ہے کیونکہ وہ دوا پر انحصار کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ پنجاب حکومت کی جانب سے نورٹس سوئٹزرلینڈ کے ساتھ دستخط کی گئی مفاہمت کی یادداشت کے مطابق سوئٹزرلینڈ سے دوا ’تیار شکل‘ میں آنی تھی اور اس پر یہ انتباہ تحریر ہونا تھا کہ ’یہ حکومتی ملکیت ہے فروخت کے لیے نہیں‘۔
کمپنی کا دعویٰ ہے کہ اگر حکومت اس اسکیم سے پیچھے ہٹتی ہے تو یہ دوا کا خاتمہ اسکریپ کی صورت میں ہوگا کیونکہ کمپنی کی پالیسی کے مطابق فراہمی کے عمل کو مکمل کرنے کے بعد اسے کسی دیگر مقصد کے لیے استعمال یا واپس نہیں کیا جاسکتا۔
عہدیدار کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ مسئلہ یہ ہے کہ محکمہ خزانہ نے اسی فنڈز کو یا تو صحت کارڈ اسکیم یا کسی اور مقصد کے لیے منتقل کیا ہے۔
دوسری جانب سیکریٹری صحت ثاقب ظفر نے واضح کیا کہ کمپنی کے ساتھ گزشتہ 5 سال کا معاہدہ ختم ہونے کے بعد خریداری میں جلدی کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ اس حقیقت کے باوجود کے آئندہ 5 برسوں کے لیے کنٹریکٹ کی مدت بڑھانے کے لیے محکمہ صحت کی وزیراعلیٰ کو سمری ارسال نہیں کی گئی اور علامہ اقبال میڈیکل کالج کے پرنسپل نے بورڈ آف منیجمنٹ کی منظوری سے دوا خرید لی۔
انہوں نے کہا کہ حال ہی میں محکمے کی جانب سے پالیسی فیصلہ کیا گیا کہ چونکہ کینسر دوا کی خریداری سنگل سورس (بغیر کسی مدمقابل) کے کی گئی، لہٰذا کمپنی کے ساتھ کنٹریکٹ بڑھانے سے قبل تھرڈ پارٹی کی توثیق کی جانی چاہیے۔
دوسری چیز یہ کہ 4 ہزار کینسر مریضوں کے لیے ادویات کی خریداری کے لیے ایک بڑی رقم 1 ارب روپے تک کی ضرورت ہے جبکہ گزرتے وقت کے ساتھ اس کی لاگت میں مزید اضافہ ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: کینسر جیسے جان لیوا مرض کی 15 ابتدائی نشانیاں
سیکریٹری صحت کا کہنا تھا کہ اسی طرح محکمہ صحت کے حکام مزید فیصلوں کے لیے پروگرام کے تھرڈ پارٹی آڈٹ کی روشنی میں کنٹریکٹ کا جائزہ لینا چاہتے ہیں۔
ادھر سرکاری ذرائع کا کہنا تھا کہ کمپنی کی جانب سے کینسر مریضوں کے لیے ادویات کا بڑا خرچ خود برداشت کرنے پر رضامندی کے بعد 2014 میں گزشتہ حکومت کی جانب سے نورٹس سوئٹزرلینڈ کے ساتھ معاہدہ کیا تھا۔
اس معاہدے کے مطابق کینسر ادویات کی تیاری پر کل اخراجات کا 91 فیصد کمپنی برداشت کرے گی جبکہ باقی 9 فیصد پنجاب حکومت کی جانب سے ادا کیے جائیں گے۔