پاکستان میں کرکٹ کی واپسی اور پی ایس ایل سے امیدیں
آج سے ٹھیک 10 سال پہلے، 2009ء میں مارچ کے یہی ابتدائی ایام تھے جب سری لنکا کی قومی کرکٹ ٹیم پاکستان کے دورے پر تھی۔ کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں ایک یادگار ٹیسٹ میچ کے بعد جب ٹیمیں لاہور پہنچیں تو ایک سانحہ رونما ہوا۔ 3 مارچ کی صبح لبرٹی چوک، لاہور پر دہشت گردوں نے سری لنکا کے کھلاڑیوں کو اسٹیڈیم لے جانے والی بس پر فائر کھول دیے۔ پاکستانی محافظوں نے اپنی جان پر کھیل کر مہمان کھلاڑیوں کو تو بچا لیا لیکن کوئی کوشش پاکستان میں کرکٹ کو نہ بچا سکتی تھی اور نہ بچا پائی۔ اس واقعے کے بعد پاکستان میں امن و امان کی حالت بگڑتی چلی گئی اور ساتھ ہی کھیل کے میدان بھی ویران ہوگئے۔
پھر ہر گزرتے سال کے ساتھ کرکٹ کی وطن واپسی کی امیدیں بھی دم توڑتی جا رہی تھیں، یہاں تک کہ 2016ء میں پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کا آغاز ہوا، جس کا پہلا سیزن بھی متحدہ عرب امارات میں منعقد ہوا کیونکہ ملک میں تو کرکٹ ممکن ہی نہیں تھی لیکن پہلے سیزن کے کامیاب انعقاد نے روشن کی ایک کرن دکھائی۔
مزید پڑھیے: پاکستان سپر لیگ آئی پی ایل سے بہتر کیوں؟
پی ایس ایل نے ایک طرف جہاں پاکستان کرکٹ کے لیے نئے امکانات کھولے، وہیں وطنِ عزیز میں بھی کرکٹ کی واپسی کی راہ ہموار کردی کیونکہ 2017ء میں دوسرے سیزن کے فائنل کے لیے لاہور کا انتخاب کیا گیا۔ بلاشبہ یہ بہت بڑا خطرہ تھا جو مول لیا گیا اور یہی وجہ تھی کہ اس فیصلے کی بڑے پیمانے پر مخالفت بھی ہوئی، یہاں تک کہ آج کی حکمران جماعت نے، جو اس وقت حزبِ اختلاف میں تھی، لاہور میں فائنل کے انعقاد کی سخت مخالفت کی۔ لیکن پی ایس ایل انتظامیہ نے کسی کی رائے پر کان تک نہ دھرا اور بہت اچھا کیا کیونکہ ان کے فیصلے کے نتیجے میں ہم نے دیکھا لاہور میں ایک یادگار فائنل ہوا اور ساتھ ہی پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کا دروازہ بھی کھل گیا۔
پھر ورلڈ الیون نے پاکستان کا یادگار دورہ کیا، ویسٹ انڈیز کی کرکٹ ٹیم بھی آئی، یہاں تک کہ اس سری لنکن ٹیم نے بھی پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھے کہ جو 2009ء میں دہشت گردوں کے حملوں کا براہِ راست نشانہ بنی تھی۔
گزشتہ سال یعنی 2018ء میں پی ایس ایل کے فائنل سمیت 3 میچز کا انعقاد پاکستان میں ہوا اور اس بار فائنل کے لیے روشنیوں کے شہر کراچی کا انتخاب کیا گیا۔ یہ 2009ء کے بعد پہلا موقع تھا کہ کراچی میں کرکٹ کی کوئی بڑی سرگرمی دیکھنے کو ملی۔ ایک زبردست فائنل کے ساتھ ہی شہرِ قائد پر بھی کرکٹ کے دروازے کھل گئے۔ اب نئے سیزن میں ایک نہیں، 2 نہیں بلکہ پورے 8 میچز کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں کھیلے جائیں گے جس کے لیے اسٹیڈیم کو نیا روپ کے ساتھ ساتھ اسٹینڈز کو نئی اور خوبصورت چھت بھی دی گئی ہے۔
پاکستان کرکٹ کا صدر مقام اصل میں لاہور ہے اور اس مرتبہ یہاں 3 میچز طے کیے گئے تھے لیکن پاک-بھارت سرحدی کشیدگی کے سبب فلائٹ آپریشنز میں تاخیر کے بعد پی ایس ایل انتظامیہ نے یہی بہتر سمجھا کہ تمام میچز کا انعقاد کراچی ہی میں کیا جائے۔
اس وقت کراچی کے چوک چوراہے خاص طور پر اسٹیڈیم کی طرف جانے والے تمام راستے سجے ہوئے ہیں اور شہر کے باسیوں کو انتظار ہے اپنی ٹیم کراچی کنگز کو پہلی بار اپنے ہی میدان پر کھیلتے ہوئے دیکھنے کا۔ کنگز کے علاوہ لاہور قلندرز، ملتان سلطانز، کوئٹہ گلیڈی ایٹرز، اسلام آباد یونائیٹڈ اور پشاور زلمی بھی ایکشن میں نظر آئیں گے۔
سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ پہلے مرحلے کے آخری 4 مقابلوں اور پھر کوالیفائرز اور 17 مارچ کو فائنل کے لیے تمام ٹیمیں اپنے مضبوط ترین اسکواڈز کے ساتھ آئی ہیں۔ اکّا دکّا غیر ملکی کھلاڑی ہی ایسے ہیں کہ جو اس مرتبہ پاکستان نہیں آئے اور تقریباً تمام ہی بڑے نام اس وقت پاکستان میں موجود ہیں جیسے شین واٹسن، ڈیرن سیمی، کیرون پولارڈ، ڈیوین براوو، لیوک رونکی، وین پارنیل، کولن منرو اور کولن انگرام، یہی وجہ ہے کہ ہمیں آخری میچز بہت زیادہ دلچسپ نظر آ رہے ہیں۔
پی ایس ایل 4 کے کامیاب انعقاد سے اگلا پورا سیزن پاکستان میں منعقد کرنے کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔ تصور کیجیے کہ کراچی اور لاہور کے درمیان کانٹے کا مقابلہ قذافی اسٹیڈیم میں کھیلا جا رہا ہو یا پھر کراچی کنگز نیشنل اسٹیڈیم میں لاہور کی میزبانی کر رہے ہیں، ذرا سوچیں کہ اس وقت میدان میں کیسا ماحول ہوگا؟ بے شک ناقابلِ یقین!
بات یہ ہے کہ پاکستان پی ایس ایل سے اصل فائدہ بھی تبھی اٹھا سکتا ہے جب لیگ وطنِ عزیز میں کھیلی جائے۔ بیرونِ ملک انعقاد کی وجہ سے آمدنی کا بہت بڑا حصہ وہاں میدانوں کے حصول اور دیگر معاملات پر صَرف ہوجاتا ہے جبکہ اتنی بھاری رقوم خرچ کرکے بھی تماشائیوں کی بہت بڑی تعداد میچز دیکھنے نہیں آتی۔
مزید پڑھیے: پی ایس ایل سیزن 4: امارات کی چند خوبصورت یادیں
لیکن اگر میچوں کا انعقاد پاکستان میں ہو تو یہاں کے تمام اسٹیڈیمز پاکستان کرکٹ بورڈ کی اپنی ملکیت ہیں، یہاں ہوٹلز اور دیگر سہولیات عرب امارات کے مقابلے میں بہت سستی ہیں اور میچ ٹکٹوں کی تو بات ہی نہ کریں، ٹکٹس کم پڑ جائیں گے لیکن تماشائی کم نہ ہوں گے۔ اس پوری صورتحال کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ پی ایس ایل 4 کے تمام میچوں کے تمام ٹکٹس فروخت ہوچکے ہیں لیکن اب بھی ہر کوئی یہی پوچھتا نظر آرہا ہے کہ یار کہیں سے کوئی ٹکٹ مل سکتا ہے؟
پھر پی ایس ایل کا پاکستان میں انعقاد ملک میں سیاحت کی ایک نئی قسم کو بھی فروغ دے گا، یعنی کھیلوں کی سیاحت کو۔ کراچی-لاہور مقابلہ دیکھنے کے لیے جہاں شہرِ قائد سے بہت سارے لوگ ضرور لاہور جانا چاہیں گے، وہیں زندہ دلانِ لاہور بھی ایسے میچز کے لیے کراچی کا رُخ کریں گے۔ یوں سفری و رہائشی سہولیات فراہم کرنے والے اداروں سمیت کئی دیگر صنعتوں کو زبردست فائدہ حاصل ہوگا۔
ہمیں پوری امید ہے کہ اس بار پی ایس ایل کا اختتام بہت ہی یادگار انداز میں اور بھرپور کامیابی کے ساتھ ہوگا اور اگلے سال سے پوری لیگ پاکستان میں منتقل ہوجائے گی۔ یوں پی ایس ایل اپنے اصل مقام پر اور اصل رنگ و روپ میں نظر آئے گی۔ کراچی کا یہ مرحلہ اس سلسلے میں ایک بڑا قدم بن سکتا ہے۔