• KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm
  • KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm
فوٹو شٹر اسٹاک

تیسر ٹاؤن اسکیم: 'قبضے میں سیاسی افراد ملوث،صوبائی ادارے مدد نہیں کررہے'

قبضہ مافیا کے بااثر ہونے کی وجہ سے ہمارے خلاف ہی مقدمات قائم اور قاتلانہ حملے ہوئے، ڈائریکٹر لینڈ ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی
شائع March 10, 2019 اپ ڈیٹ March 11, 2019

کراچی میں موٹر وے (سپر ہائی وے) اور بحریہ ٹاؤن کے قریب ایک بہت بڑی ہاؤسنگ اسکیم کا اعلان کرکے فارم کا اجرا شروع کر دیا گیا ہے، تاہم اس اسکیم کے آغاز کے ساتھ ہی سوشل میڈیا اور ملکی ذرائع ابلاغ میں مختلف آرا سامنے آرہی ہیں۔

سوشل میڈیا پر کراچی کے شہری مسلسل یہ بات کررہے ہیں کہ سندھ حکومت کی ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایم ڈی اے) کو تیسر ٹاون میں نئی اسکیم شروع کرنے سے قبل اسی علاقے میں گزشتہ اسکیم کو مکمل کرنا چاہیے تھا جبکہ تیسر ٹاؤن میں تجاوزات کا خاتمہ کرکے قابضین سے زمین اصل مالکان کے حوالے کرنے کی ضرورت ہے، دوسری جانب ایم ڈی اے حکام دعویٰ کر رہے ہیں کہ زمین پر قبضہ سیاسی پشت پناہی کی وجہ سے ہوا ہے۔

ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر لینڈ ایوب فضلانی کہتے ہیں کہ تیسر ٹاؤن رہائشی اسکیم کی زمین پر قبضے میں سیاسی شخصیات ملوث ہیں، جن سے اراضی واگزار کرانے میں سندھ حکومت کے ادارے مدد نہیں کررہے، دوسری جانب جب زمین واگزار کروانے کے لیے آپریشن کیا جاتا ہے تو ایم ڈی اے کے افسران یا عملے کے خلاف ہی مقدمات بنا دیئے جاتے ہیں۔

خیال رہے کہ مارچ 2019 میں ایم ڈی اے نے تیسر ٹاؤن میں نئی رہائشی اسکیم کا اعلان کیا ہے، جس میں 4 مختلف مراحل میں قرعہ اندازی کے ذریعے رہائشی پلاٹ دیئے جائیں گے۔

متوسط طبقے کے لیے کم قیمت رہائشی منصوبے 'تیسر ٹاؤن اسکیم-45' کے نئے مرحلے کے محل وقوع کے حوالے سے ایوب فضلانی نے بتایا کہ یہ اراضی اسکیم کے پہلے اور دوسرے مرحلے کی زمین سے متصل ہے۔

واضح رہے کہ ایم ڈی اے کا قیام 1993 میں عمل میں آیا تھا، اس اتھارٹی کے قیام کے بعد تیسر ٹاؤن کی اعلان کردہ یہ چوتھی ہاؤسنگ اسکیم ہے ، قبل ازیں نیشنل ہائی وے کے ساتھ ایم ڈی اے کی اسکیم 25-اے (شاہ لطیف ٹاؤن ) میں گھر تیزی سے آباد ہوئے ہیں، تاہم اس علاقے کو ابھی تک پانی میسر نہیں جبکہ ایم ڈی اے کی جانب سے اس اسکیم میں کوئی قبرستان بھی نہیں بنایا گیا، جس کی وجہ سے مکینوں کو مستقل پریشانی کا سامنا ہے، دوسری جانب کے-الیکٹرک نے بھی یہاں بجلی کی ترسیل نہیں کی بلکہ ٹھیکے داری نظام کے ذریعے بجلی فراہم کی جا رہی ہے، علاقے میں کوئی ایک سڑک بھی ایسی نہیں جو ایم ڈی اے نے بنائی ہو، جس کی وجہ سے اس اسکیم کے تمام راستے اور سڑکیں انتہائی خستہ حال ہیں.

اسی طرح گلشن حدید سے آگے نیو ملیر ہاوسنگ اسکیم شروع کی گئی، لیکن یہ علاقہ آج تک غیر آباد ہی ہے، جبکہ تیسر ٹاون میں پہلی اسکیم 1986 میں شروع ہوئی، 1996 میں یہ اسکیم ایم ڈی اے کو دی گئی البتہ یہ علاقہ ڈیولپمنٹ سے آج تک محروم ہے اور دو دہائیوں بعد بھی یہاں سرمایہ لگانے والے غریب، متوسط طبقے کے شہری اپنے گھر سے محروم ہیں، ایسے میں ایم ڈی اے کی جانب سے ایک نئی اسکیم کے آغاز پر کئی سوالات اٹھ رہے ہیں۔

تیسر ٹاؤن میں شروع ہونے والی نئی اسکیم کے حوالے سے ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر لینڈ ایوب فضلانی بتاتے ہیں کہ ایم ڈی اے کی اس اراضی سے متعلق ماضی میں کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی تھی، جس کے باعث اسے اسکیم کے پہلے اور دوسرے مرحلے میں منصوبے کے لیے پیش نہیں کیا گیا تھا، لیکن اب اسے سندھ حکومت کی منظوری کے بعد رہائش کی سستی سہولت فراہم کرنے کے لیے پیش کیا جارہا ہے جبکہ اس سلسلے میں تمام تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں۔

تیسر ٹاون کی نئی اسکیم میں 80 گز، 120 گز، 240 گز اور 400 گز کے رہائشی پلاٹس قرعہ اندازی کے بعد شہریوں کو دیئے جائیں گے۔

اس حوالے سے ایوب فضلانی کا کہنا تھا کہ 30 مارچ کو درخواستوں کی وصولی کا مرحلہ مکمل ہوگا تاہم سندھ بھر سے عوام کی بڑی تعداد درخواست فارم کی وصولی اور جمع کرانے کے لیے سِلک بینک کا رخ کر رہی ہے، جس کو مدنظر رکھتے ہوئے فارم جمع کرانے کی تاریخ میں توسیع کی جاسکتی ہے۔

اسکیم کے نئے مرحلے کے اجرا کا اشتہار
اسکیم کے نئے مرحلے کے اجرا کا اشتہار

خیال رہے کہ ایم ڈی اے نے اخبارات میں شائع کیے گئے اشتہار میں یہ واضح نہیں کیا تھا کہ وہ فارم جمع ہونے کے بعد کتنے عرصے میں قرعہ اندازی کرے گی، تاہم فارم جمع کرنے کے لیے ایک مہینہ مقرر کیا گیا۔

قرعہ اندازی کے حوالے سے سوال پر ایم ڈی اے کے ڈائریکٹر لینڈ نے کہا کہ قرعہ اندازی شفاف بنانا اولین ترجیح ہے، فارم وصولی کا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد اپریل میں ہی قرعہ اندازی ہو سکتی ہے، تاہم قرعہ اندازی کی حتمی تاریخ کا اعلان نادرا کی مشاورت سے کیا جائے گا۔

ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے اپنی ویب سائٹ یا اشتہار میں یہ بھی واضح نہیں کیا کہ اس اسکیم میں کتنے پلاٹ ہوں گے جبکہ اس کے لیے کتنی زمین مختص ہے، اس حوالے سے انہوں نے کہا کہ ایم ڈی اے کے کم قیمت رہائشی منصوبے کے تحت تقریباً 30 ہزار پلاٹ دستیاب ہوں گے، جن میں سے لگ بھگ 80 فیصد پلاٹس 80 اور 120 گز کے ہوں گے۔

ایوب فضلانی نے مزید بتایا کہ شہری تمام کیٹیگریز میں پلاٹ کے حصول کے لیے قسمت آزما سکتے ہیں، اگر کسی کا ایک سے زائد کیٹیگریز میں پلاٹ نکلا تو اسے کسی ایک کیٹیگری کا انتخاب کرنا ہوگا، دیگر کامیاب پلاٹوں کی درخواست واپس لینی ہو گی، ان پلاٹوں کے حوالے سے بعد ازاں دوبارہ قرعہ اندازی کی جائے گی۔

قرعہ اندازی کے بعد وہ امیدوار جن کے نام پلاٹ نہ نکلا ہو، ان کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ناکام امیدواروں کو قرعہ اندازی کے ایک ماہ بعد رقوم کی واپسی شروع کردی جائے گی جبکہ انہیں یہ رقم بینک کی اسی شاخ سے ملے گی جہاں انہوں نے اپنے فارم جمع کروائے ہوں گے۔

واضح رہے کہ سوشل میڈیا پر شہری اس حوالے سے سوال اٹھا رہے تھے کہ ایم ڈی اے نے 10 لاکھ فارم شائع کیے ہیں، اگر ہر فارم کی پراسیسنگ فیس 1000 روپے بھی لگائی جائے تو سِلک بینک کے ذریعے ایم ڈی اے کے پاس ایک ارب روپے جمع ہوں گے جبکہ ایم ڈی حکام امید ظاہر کر رہے ہیں کہ اس سے تین گنا زیادہ فارم جمع ہوں گے، یوں فارم جمع کروانے کی مد میں ایک بڑی رقم ایم ڈی اے کو مل جائے گی، جبکہ بینک میں ایک ماہ کے لیے کئی ارب روپے جمع ہوں گے، کیونکہ کم سے کم 80 گز کے پلاٹ کے لیے ہی 10 ہزار روپے وصول کیے جارہے ہیں۔

ایم ڈی اے کے ڈائریکٹر لینڈ کہتے ہیں کہ بینکوں کے باہر عوام کے بے پناہ رش کو دیکھتے ہوئے 30 لاکھ سے زائد درخواستیں آنے کی امید ہے۔

سوشل میڈیا پر یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ فارم وصول کرنے کے لیے سندھ حکومت کے ماتحت ادارے ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے صوبے کے سرکاری بینک سندھ بینک کا انتخاب کیوں نہیں کیا، کیونکہ سلک بینک کی سندھ بھر 30 کے قریب شاخیں ہیں جبکہ سندھ بینک کی صرف کراچی میں ہی 64 جبکہ سندھ بھر میں 136 شاخیں ہیں، یوں ایک سرکاری اسکیم سے سندھ کے شہری آسانی سے فائدہ اٹھا سکتے تھے۔

مزید پڑھیں: سندھ ریوینیو ڈپارٹمنٹ کو اقلیتوں کی قبضہ کی گئی اراضی واگزار کرانے کا حکم

فارمز کی وصولی کے لیے سلک بینک کو منتخب کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے ایوب فضلانی نے کہا کہ اسکیم کے پہلے اور دوسرے مراحل میں ہمارا سلک بینک کے ساتھ تجربہ اچھا رہا اور اسی وجہ سے ہم نے سلک بینک کا پھر انتخاب کیا۔

واضح رہے کہ سلک بینک کے اکثریتی شیئر شوکت ترین کے پاس ہیں، جو پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے دور حکومت میں یوسف رضا گیلانی کی کابینہ میں 2008 سے 2010 تک وفاقی وزیر خزانہ رہے تھے، اسی زمانے میں انہوں نے سلک بینک کے اکثریتی شئیر حاصل کیے تھے، اور مفادات کا تصادم قرار دے کر بعد ازاں کابینہ سے مستعفی ہو گئے تھے۔

تیسر ٹاؤن کی نئی اسکیم میں اسٹیٹ ایجنٹس کی جانب سے پلاٹ دلانے کے لیے لوگوں کو گمراہ کرکے اضافی پیسے بٹورنے سے متعلق رپورٹس پر ڈائریکٹر ایم ڈی اے لینڈ کا کہنا تھا کہ ہمیں بھی اس طرح کی کچھ رپورٹس موصول ہوئی ہیں لیکن اتھارٹی کے پاس باضابطہ طور پر اب تک اس حوالے سے کوئی شکایت درج نہیں کروائی گئی۔

خیال رہے کہ حالیہ اعلان کی گئی اسکیم تیسر ٹاؤن اسکیم-45 کا نیا مرحلہ ہے، 2006 اور 2007 میں جب سندھ میں مسلم لیگ (ق) اور متحدہ قومی موومنٹ کی اتحادی حکومت تھی، جبکہ صوبے میں گورنر عشرت العباد کا تعلق بھی ایم کیو ایم سے تھا، اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف نے خود اس اسکیم کی قرعہ اندازی کی تھی، 58 ہزار سے زائد پلاٹوں کے لیے اس وقت 9 لاکھ سے زائد فارم جمع ہوئے تھے۔

ایوب فضلانی نے کہا کہ تیسر ٹاؤن اسکیم کے گزشتہ 2 مراحل کے اجرا کے وقت شہر میں امن و امان کی صورتحال مخدوش تھی جس کی وجہ سے الاٹیز اپنے اہل خانہ کے ہمراہ وہاں جانے کے لیے تیار نہ تھے جبکہ ہمارے کئی ٹھیکیدار اغوا ہوئے جس کے باعث وہاں ترقیاتی کاموں اور تعمیرات میں تاخیر ہوئی۔

یاد رہے کہ 2010 میں سندھ میں سیلاب آیا تھا، جس کے بعد صوبے کے کئی علاقوں سے شہری نقل مکانی کرکے کراچی آئے تھے جبکہ 2014 میں ملک کے سرحدی علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب شروع کیا گیا تھا، جس کے بعد متاثرہ خطے سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوئی، سیلاب اور آپریشن دونوں کے بعد شہریوں کی بڑی تعداد کراچی میں ٹول پلازہ کے قریب خالی علاقے میں رہائش پذیر ہوئی، لیکن یہ عارضی رہائش بعد میں یہاں سے ختم نہ ہو سکی۔

اس حوالے سے ایم ڈی اے کے افسر نے بتایا کہ اسکیم سے متعلق شہریوں میں بے یقینی کی کیفیت اس وقت پیدا ہوئی جب وہاں اندرون سندھ کے سیلاب زدہ علاقوں سے لوگ آکر آباد ہوئے جبکہ کئی افغان بستیاں بھی قائم ہوگئیں اور اتھارٹی کی زمین پر قبضہ کر لیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی ٹیم نے کئی مرتبہ تجاوزات ہٹانے اور قبضہ چھڑانے کے لیے آپریشن کیا تاہم قبضہ مافیا کے پیچھے سیاسی شخصیات اور باثر افراد کے ہونے کی وجہ زمین سے قبضہ چھڑایا نہ جاسکا بلکہ ان افراد کے اثر و رسوخ کی وجہ سے اتھارٹی کے افسران کے خلاف ہی مقدمات درج ہوگئے اور قاتلانہ حملے بھی ہوئے۔

ڈائریکٹر لینڈ نے بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب تک صوبائی حکومت کے ادارے ہمارے ساتھ تعاون نہیں کرتے تب تک اراضی سے قبضہ ختم کرانا ناممکن ہے لیکن اگلے مرحلے میں الاٹیز کے پلاٹوں کو تجاوزات اور قبضے سے بچانے کے لیے ہم کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (کے ڈی اے) کی طرز پر اپنی 'پولیس فورس' قائم کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں اور امید ہے کہ فورس کا قیام جلد عمل میں آجائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: ڈی ایچ اے سٹی کے باعث کسان اپنی زرعی اراضی سے محروم

تاہم انہوں نے دعویٰ کیا کہ اسکیم کے پہلے اور دوسرے مرحلے کے 10 فیصد الاٹیز کو قبضہ دیا جاچکا ہے جبکہ سیکٹر 72 اور 73 میں مکانات کی تعمیر بھی شروع ہو چکی ہے اور رہائشی مکانات تعمیر کرنے کے لیے چند سرمایہ کار بھی دلچسپی ظاہر کر رہے ہیں۔

اسکیم کے خلاف کارروائی کی خبریں بے بنیاد

ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ترجمان نے سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے تیسر ٹاؤن اسکیم کے خلاف کارروائی کرنے اور ایم ڈی اے کی انتظامیہ کو طلب کرنے کی خبروں کو بے بنیاد قرار دیا۔

ترجمان نے ایسی تمام افواہوں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ تیسر ٹاؤن اسکیم سے متعلق سندھ ہائی کورٹ نے کوئی ایکشن نہیں لیا، ایسی افواہیں پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کے لیے متعلقہ اداروں کو آگاہ کردیا گیا ہے، جو ایسے لوگوں کا سراغ لگا کر انہیں قانون کی گرفت میں لانے کا اختیار رکھتے ہیں۔

خیال رہے کہ سوشل میڈیا پر یہ خبریں گردش کر رہی تھیں کہ عدالت نے ایم ڈی اے سے جواب طلب کیا ہے کہ وہ وضاحت کرے کہ تیسر ٹاؤن کے سابقہ منصوبے مکمل نہیں ہوئے تو نئے منصوبے کا اعلان کیے کیا گیا ہے۔

ایم ڈی اے کے ترجمان کا کہنا تھا کہ سندھ کے عوام کے بہترین مفاد اور کم آمدنی والوں کے لیے صوبائی حکومت کی ہدایت پر ایم ڈی اے نے یہ اسکیم شروع کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مارکیٹ ریٹ سے انتہائی کم قیمت پر پلاٹ کی ملکیت دے کر سندھ حکومت ایک مثال قائم کررہی ہے، ایسے وقت میں بنیاد افواہیں پھیلا کر شہریوں کو خوف زدہ کیا جا رہا ہے، جو سراسر عوام دشمنی ہے۔

آن لائن فارم میں تکنیکی خرابی کی شکایت

سوشل میڈیا پر یہ معاملہ بھی سامنے آیا کہ رہائشی اسکیم کے لیے آن لائن فارم حاصل کرنے میں تکنیکی خرابی بھی سامنے آرہی ہے، جس کی وجہ سے لوگوں کے سامنے دیگر افراد کا ڈیٹا آرہا ہے جس سے رازداری متاثر ہونے کے ساتھ ڈیٹا کے غلط استعمال کا بھی اندیشہ ہے۔

ایم ڈی اے کے ایک اور سینئر عہدیدار نے اس حوالے سے بتایا کہ شہریوں کی جانب سے یہ شکایات موصول ہونے کے بعد اتھارٹی سے منسلک تکنیکی فرم اس پر مسلسل کام کر رہی ہے۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ مسئلہ پیر (11 مارچ) تک حل ہوجائے گا۔

فارم کیسے حاصل کیے جا سکتے ہیں

ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے شروع کی گئی نئی اسکیم کے فارم کا حصول انتہائی آسان ہے۔

تیسر ٹاؤن کی ویب سائٹ taisertown.com.pk پر مکمل فارم دستیاب ہے، جہاں مطلوبہ کیٹیگری میں فارم مکمل کرکے اس پر پرنٹ آؤٹ نکالا جائے گا۔

اس پرنٹ آوٹ کے ساتھ منتخب کی گئی کیٹیگری کے لیے مقرر کردہ رقم کا پے آرڈر یا ڈیمانڈ ڈرافٹ لگے گا، جبکہ یہ فارم اور پے آرڈر / ڈیمانڈ ڈرافٹ سلک بینک کی کسی بھی شاخ میں جمع کروایا جا سکتا ہے۔

پلاٹس کی بنیادی طور پر 4 کیٹیگریز ہیں، جن میں 80 گز کے پلاٹ کی مجموعی قیمت 80 ہزار روپے ہے، یہ 80 ہزار روپے 3 سال میں ادا کرنے ہوں گے، جبکہ فارم کے ساتھ 10ہزار روپے کا پے آرڈر جمع ہو گا، جن میں ایک ہزار روپے فارم پراسیسنگ فیس ہے، جو ناقابل واپسی ہیں، جبکہ قرعہ اندازی میں پلاٹ نہ نکلنے کی صورت میں باقی رقم واپس مل سکے گی، اسی طرح 120گز کے پلاٹ کی کل قیمت ایک لاکھ 20 ہزار روپے (3 سال میں قابل ادا) ہے، فارم کے ساتھ 16ہزار روپے کا پے آرڈر جمع ہو گا، جس میں ایک ہزار روپے فارم پراسیسنگ فیس جبکہ پلاٹ نہ نکلنے پر باقی قابل رقم واپس ہوگی۔

240 گز کے پلاٹ کی کل قیمت 5لاکھ 28ہزار ہے، جو 3 سال میں ادا کرنی ہو گی، اس پلاٹ کے لیے قرعہ اندازی میں فارم کے ساتھ 32 ہزار روپے پے آرڈر کی صورت میں جمع ہوں گے، جن میں سے 2ہزار روپے فارم پراسیسنگ فیس جبکہ پلاٹ نہ نکلنے کی صورت میں باقی رقم واپس مل جائے گی، اسی طرح 400 گز کے پلاٹ کی کل قیمت 12لاکھ روپے ہے، جو 3سال میں ادا کرنے ہوں گے، جبکہ اس کے لیے فارم کے ساتھ 52ہزار روپے کا پے آرڈر جمع ہوگا، جس میں 2 ہزار روپے پراسیسنگ فیس ہے جبکہ پلاٹ نہ نکلنے پر باقی رقم واپس مل جائے گی۔

ایم ڈی اے کی جانب سے تیسر ٹاؤن کی ویب سائٹ taisertown.com.pk پر فارم کا خاکہ انتہائی آسان بنایا گیا ہے، جس کو کوئی بھی مکمل کر سکتا ہے، اور باآسانی اس کا پرنٹ آؤٹ لیا جا سکتا ہے، جبکہ پی ڈی ایف فارمیٹ میں اپنے پاس بھی محفوظ کیا جا سکتا ہے۔