آج دنیا بھر میں خواتین یہ بات ثابت کررہی ہیں کہ کئی دشواریوں اور مسائل کے باوجود وہ مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں۔
تاریخ میں ایسی کئی خواتین موجود ہیں جنہوں نے دنیا بھر میں اپنا اور ملک کا نام روشن کیا۔
پاکستان کی بات کی جائے تو مردم شماری میں سامنے آنے والے اعداد وشمار کے مطابق یہاں مردوں کی تعداد خواتین سے زیادہ ہے، اس کے باوجود ایسا کوئی شعبہ نہیں جہاں خواتین مردوں سے پیچھے ہوں۔
وہ شعبے جن کا حصہ صرف مرد بنتے تھے اور عورتوں کو ان سے دور رکھا جاتا تھا، آج ان میں بھی خواتین بھر پور انداز میں اپنے جوہر دکھا رہی ہیں۔
2017 میں پاکستان میں مردم شماری ہوئی تھی، اس ملک بھر سے جمع کیے گئے اعداد وشمار میں کئی حقائق آشکار آئے تاہم یہ بھی سامنے آیا کہ مردوں کی تعداد 51.24 فیصد جبکہ خواتین کی 48.76 فیصد ہیں۔
پاکستان میں 154 اضلاع ہیں، جن میں 17 اضلاع ایسے ہیں جہاں خواتین کی تعداد مردوں سے زیادہ ہے۔
ان اضلاع میں سے اکثر خیبر پختونخوا اور پنجاب میں ہیں۔
اضلاع کی بات کی جائے تو سب سے زیادہ آبادی والے صوبے پنجاب میں 36، اس کے رقبے کے لحاظ سے بڑے صوبے بلوچستان میں 32، سندھ میں 29، خیبر پختونخوا میں 25 جبکہ اسلام آباد ایک ضلع ہے
وفاق کے زیر انتظام فاٹا میں 7 قبائلی ایجنسیاں اور 6 سرحدی علاقے تھے جو اب خیبر پختونخوا میں ضم ہو گئے ہیں، اس کے علاوہ آزاد جموں و کشمیر میں 10 جبکہ گلگت بلتستان میں بھی 10 اضلاع موجود ہیں۔
خیبر پختونخوا
ہری پور
ضلع ہری پور سے تعلق رکھنے والی خواتین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پھلکاری کے کام میں مہارت رکھتی ہیں جبکہ اپنے اس ہنر کا استعمال کرتے ہوئے گھروں کی کفالت بھی کر رہی ہیں، پھلکاری ایک طرح کی کڑھائی ہوتی ہے جو دوپٹوں پر دستی کی جاتی ہے۔
اس ضلع میں خواتین کی تعداد مردوں سے زیادہ ہے، شہری علاقے میں مرد جبکہ دیہی علاقے میں خواتین کی تعداد زیادہ ہے۔
مانسہرہ
مانسہرہ کی خواتین ہنرمند ہونے کے ساتھ ساتھ سیاست میں بھی کافی آگے آگے ہیں، گزشتہ سال اس ضلع سے تعلق رکھنے والی کئی خواتین نے انتخابات میں بھی حصہ لیا۔
اس ضلع میں دیہی علاقوں میں رہنے والی خواتین کی تعداد مردوں سے زیادہ ہے، جبکہ شہری علاقے میں مردوں کی تعداد زیادہ ہے۔
بونیر
بونیر سے تعلق رکھنے والی خواتین بھی کافی ہنرمند مانی جاتی ہیں، البتہ اس ضلع سے تعلق رکھنے والی نوجوان لڑکی صبا گل نے دنیا بھر میں بہادری کی نئی مثال قائم کی۔
صبا گل نے ہاتھ نہ ہونے کے باوجود اس معذوری کو اپنے راستے میں نہیں آنے دیا اور پیروں کی مدد سے اپنی تعلیم کو جاری رکھا اور پورے ضلع کا نام روشن کیا۔
اس ضلع میں خواتین کی تعداد 4 لاکھ 50 ہزار 317 ہے جبکہ مردوں کی آبادی کی تعداد 4 لاکھ 46 ہزار 997 ہے۔
دیر (پائین)
دیر زیریں یا دیر پائین میں پہلی مرتبہ2013 میں 40 فیصد خواتین نے اپنا حق رائے دہی کا استعمال کرتے ہوئے ووٹ ڈالا۔
الیکشن کمیشن کے فراہم کردہ اعداد وشمار کے مطابق انتخابات 2013ء میں دیر پائین میں 231 خواتین نے ووٹ ڈالے تھے۔
اس ضلع میں دیہی علاقوں میں خواتین کی تعداد مردوں سے بہت زیادہ ہے۔
دیر (بالا)
پہاڑی ضلع دیر بالا میں پہلی مرتبہ خواتین نے گزشتہ سال مارچ میں بلدیاتی نشستوں پر ضمنی انتخاب میں اپنا حق رائے دہی استعمال کیا تھا جس کے بعد اس ضلع سے تعلق رکھنے والی کئی خواتین کو بھی انتخابات میں حصہ لینے کا موقع ملا۔
خواتین کی جانب سے پہلی بار حق رائے دہی استعمال کرنے کے عمل کو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر میڈیا نے بھر پور جگہ دی۔
اس ضلع کی دیہی خواتین کی آبادی 4 لاکھ 58 ہزار 767 ہے جبکہ شہری علاقوں میں خواتین کی تعداد 21 ہزار 480 ہے۔
کوہاٹ ڈویژن
1947ء میں آزادی کے بعد کوہاٹ ایک ضلع تھا جو پشاور ڈویژن میں شامل تھا لیکن 1976ء میں اسے الگ ڈویژن بنا دیا گیا۔
یہ خیبر پختونخوا کا واحد ڈویژن ہے جس میں موجود تینوں اضلاع میں خواتین کی تعداد مردوں سے زیادہ ہے۔
اس ڈویژن میں ضلع ہنگو، ضلع کرک اور ضلع کوہاٹ شامل ہیں۔
ہنگو
ہنگو کی خواتین ہاتھوں سے بنائے گئے مختلف دستکاری کے کاموں میں مہارت رکھتی ہیں۔
خواتین کی پیشہ وارنہ صلاحیتوں میں اضافے کے لیے متعدد تقاریب بھی منعقد کی جاتی ہیں، جہاں عورتیں اپنے ہنر کو دنیا کے سامنے لاتی ہیں۔
اس ضلع میں بھی دیہی علاقے میں مردوں کی تعداد کم جبکہ خواتین کی زیادہ ہے، جبکہ شہری علاقوں میں مردوں کی تعداد خواتین سے زائد ہے۔
کرک
ویسے تو اس ضلع کی خواتین بھی کافی ہنرمند ہیں لیکن ایک خاص بات گزشتہ سال سامنے آئی، جب کرک سے تعلق رکھنے والی 3 بہنوں نے بم ڈسپوزل اسکواڈ میں شامل ہوئیں۔
ان تینوں نے ایشیا کی پہلی ایلیٹ کمانڈوز بن کر اپنے ضلع کا نام دنیا بھر میں روشن کردیا۔
اس ضلع کی آبادی 7 لاکھ 6 ہزار 299 ہے، جس میں خواتین کی تعداد مردوں سے 7 ہزار 430 زیادہ ہے۔
کوہاٹ
کوہاٹ کی تاریخ میں پہلی بار خواتین کے مسائل کے حل کیلئے 2017 میں کھلی کچہری کا انعقاد کیا گیا تھا، اس عمل کو پورے پاکستان میں خوب سراہا گیا تھا۔
اس کھلی کچہری میں شرکا نے کھل کر مسائل پیش کئے تھے۔
اس ضلع میں خواتین کی تعداد 4 لاکھ 97 ہزار 238 ہے جبکہ مردوں کی آبادی 4 لاکھ 96 ہزار 593 ہے۔
پنجاب
اٹک
اٹک پنجاب کی شمالی سرحد کا آخری ضلع ہے، اس کی شہرت کی بےشمار وجوہات ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ اس ضلع کے ساتھ سب سے زیادہ دوسرے اضلاع جڑے ہوئے ہیں۔
اٹک کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی سندھ میں موئن جودڑو کی ہے، اس ضلع کی خوبصورتی کو بھی پراثرار قرار دیا جاتا ہے۔
دریا سندھ نے اٹک کی شان و شوکت میں بھی بےپناہ اضافہ کیا ہے۔
کہتے ہیں کہ دریا سندھ اس ضلع میں رک رک کر چلتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس ضلع کو اٹک کا نام دیا گیا تھا۔
اس ضلع میں تاریخی قلعہ اٹک بھی موجود ہے جسے اکبر اعظم نے 1581 میں بنوایا تھا، تاہم آج اسے جیل کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
چکوال
ضلع چکوال سے تعلق رکھنے والی خواتین نے گزشتہ سال ہوئے انتخابات میں تاریخ رقم کی، جہاں پورے ملک میں موجود ہر حلقے میں مردوں کے ووٹوں کی تعداد زیادہ تھی، تو وہیں چکوال سے تعلق رکھنے والی خواتین نے گھروں نے نکل کر پولنگ اسٹیشن کا رخ کیا اور مردوں سے زیادہ ووٹ ڈالے۔
حلقہ این اے 64 میں 49 فیصد مردوں نے ووٹ ڈالے جبکہ خواتین کی تعداد 51 فیصد نظر آئی۔
جہلم
اس ضلع سے تعلق رکھنے والی خواتین فیشن میں بھی کافی آگے آگے نظر آتی ہیں جبکہ یہاں سے ہی نقاب اور اسکارف لینے کے نت نئے انداز سامنے آئے تھے۔
یہاں کی خواتین تعلیم کے میدان میں بھی مردوں کے شانہ بشانہ چلتی نظر آرہی ہیں۔
خوشاب
اس ضلع کی خواتین تعلیم کے ساتھ ساتھ پاکستان کی سیاست میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں۔
اس بات کی ایک مسائل تو یہی ہے کہ پاکستانی سیاست کی کئی نامور خواتین کا تعلق اس ضلع سے ہے۔
گوجرانوالہ
اس ضلع میں خواتین مردوں کے شانہ باشانہ کاشت کاری کے کام میں آگے آگے نظر آتی ہیں۔
گوجرانوالہ میں ٹماٹر کی فی ایکڑ اوسط پیداوار 6ٹن سے زائد ہے جو پاکستان کی فی ایکڑ اوسط پیداوار 4ٹن کے مقابلہ میں ڈیڑھ گنا زیادہ ہے۔
گوجرانوالہ میں عمومی طور پر پنجابی، اردو وغیرہ بولی جاتی ہے۔
گجرات
گزشتہ سال اس ضلع میں پہلی مرتبہ ایک خاتون ایس پی تعینات ہوئیں۔
جس کے بعد سے اب اس ضلع میں نوجوان لڑکیوں میں پولیس میں بھرتی ہونے کا رجحان دیکھنے میں آرہا ہے۔
منڈی بہاؤالدین
مشہور بھارتی ناول نگار امرتا پریتم کا تعلق اس ہی ضلع سے ہے، ان کی سو سے زائد کتابیں شائع ہو چکی ہیں جن میں شاعری کے علاوہ کہانیوں کے مجموعے، ناول اور تنقیدی مضامین بھی شامل ہیں۔
وہ پہلی مقبول خاتون مانی جاتی ہیں جنہوں نے پنجابی زبان میں ناول تحریر کیے۔
منڈی بہاؤالدین کی خاص بات یہ ہے کہ اس ضلع کی ہر سڑک 90 ڈگری کا زاویہ بناتی ہے جبکہ گولائی میں کوئی سڑک نہیں ملے گی۔
اس علاقے کو ہرا بھرا اور باغات کا ضلع کہا جاتا ہے۔
نارووال
ضلع نارووال کی خاص بات یہ ہے کہ اس کے علاقے مسرور سے پاکستان کا معیاری وقت مقرر کیا گیا ہے۔
ویسے تو اس ضلع میں خواتین پولیس اہلکار موجود ہیں تاہم ان کی تعداد کافی کم ہے، یہی وجہ ہے کہ گزشتہ سال انتخابات کے دوران خواتین پولنگ اسٹیشنز کے باہر خواجہ سراؤں نے سیکیورٹی کے فرائض انجام دیے۔
سیالکوٹ
سیالکوٹ پاکستان کا ایک اہم صنعتی اور زرعی شہر ہے جو کافی مقدار میں برآمدی اشیا پیدا کرتا ہے۔
یہاں کی خواتین کھیتوں میں مردوں کے ساتھ کام کرتی ہیں جبکہ سیالکوٹ کے چاول اور گندم کی کی شہرت عالمی سطح پر ہے۔