• KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm
  • KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm
شائع March 4, 2019 اپ ڈیٹ March 5, 2019

بھارتی پائلٹ کی رہائی امن کی طرف دلیرانہ قدم کیوں اور کیسے؟

آصف شاہد

گرفتار بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو واپس بھجوانے کے فیصلے پر دونوں ملکوں میں تنقید اور تعریف ہو رہی ہے۔ بھارتی فضائیہ کے ریٹائرڈ ایئروائس مارشل (اے وی ایم) کپل کاک نے اعتراف کیا ہے کہ پائلٹ کی واپسی بھارتی فوجی دباؤ کا نتیجہ نہیں۔ کپل کاک پاکستان کے اس فیصلے کو سراہنے والے واحد شخص نہیں، بلکہ سیاستدانوں، سابق ججوں اور عام عوام کی بڑی تعداد پاکستان کے اس فیصلے کو جذبہ خیر سگالی کے طور پر ہی دیکھتی ہے، تاہم بھارتی میڈیا کی جنگ جویانہ روش سے عام تاثر یہی ہے کہ شاید پاکستان کا یہ فیصلہ درست نہیں تھا یا پھر اس کے نتائج ہماری توقع کے برعکس نکلے۔

ونگ کمانڈر ابھی نندن کی رہائی کے حوالے سے بھارتی میڈیا میں یہ بھی تاثر دیا گیا کہ جنیوا کنونشن کی رُو سے اس کی رہائی ہونی ہی تھی بلکہ 8 دن میں ایسا ہونا لازم تھا۔ جنیوا کنونشن کو دونوں طرف سے اپنی مرضی کے مطابق بیان کیا جا رہا ہے۔ بین الاقوامی قوانین کے ماہر ہونے کا ہرگز دعویدار نہیں تاہم ماضی اور حال کی چند مثالوں کی روشنی میں دیکھنا ہوگا کہ جنیوا کنونشن کس حد تک مؤثر رہا ہے؟

پہلی مثال: روس بمقابلہ یوکرین

گزشتہ سال نومبر میں جب روس اور یوکرین کے مابین حالات کشیدہ ہوگئے تھے تو روس نے بحیرہ اسود میں کرائمین جزیرہ نما میں یوکرینی بحریہ کی 2 جنگی کشتیوں سمیت 3 جہازوں پر حملہ کرکے ان پر قبضہ کرلیا تھا۔ اس واقعے میں یوکرینی کشتیوں میں موجود عملہ زخمی بھی ہوا۔ روس نے یوکرین پر ملک کی حدود میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے کا الزام لگایا اور یوکرین کے گرفتار ملاحوں کو روس جنگی قیدی ماننے سے انکار کرتا آ رہا ہے۔ روس کا کہنا ہے کہ یوکرین اور روس کے درمیان کوئی باضابطہ جنگ نہیں اس لیے یوکرینی بحریہ کے گرفتار اہلکار جنگی قیدی کا درجہ نہیں رکھتے۔ یوکرین ان قیدیوں کو صحت کی سہولتیں دلوانے اور جنگی قیدی قرار دلوانے کے لیے یورپین کورٹ آف ہیومن رائٹس میں جاچکا ہے۔ اس عدالت میں یوکرین اور روس کے 5 مقدمات زیرِ سماعت ہیں۔

دوسری مثال: جنوبی کوریا بمقابلہ شمالی کوریا

ایک اور نمایاں اہمیت کا کیس جنوبی اور شمالی کوریا کے درمیان جنگ کا ہے۔ 70 سال سے دونوں ملکوں کے درمیان ایک بھی گولی نہیں چلی لیکن یہ جنگ باضابطہ طور پر ختم بھی نہیں ہوئی، جس کی بڑی وجہ جنگی قیدیوں کا تبادلہ نہ ہونا ہے۔ دونوں ملکوں نے جنگ بندی تو کرلی لیکن کوئی معاہدہ نہ ہوپایا کیونکہ اس وقت کے جنوبی کوریا کے صدر نے ملک کی تقسیم کو تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا۔

جولائی 1953ء میں جنگ بندی ہوئی اور دونوں ملکوں کے درمیان بڑے پیمانے پر قیدیوں کا تبادلہ بھی ہوا لیکن شمالی کوریا نے تمام قیدی واپس نہیں کیے۔ 8 ہزار جنگی قیدی واپس کرنے کے بجائے لیبر کیمپوں میں دھکیل دیے گئے۔ 2010ء میں جنوبی کوریا نے ایک تخمینہ جاری کیا جس کے مطابق 560 قیدی زندہ اور شمالی کوریا کے قبضے میں تھے لیکن شمالی کوریا ان قیدیوں پر بات کرنے سے انکار کرتا آ رہا ہے۔

تیسری مثال: کارگل جنگ

پاک بھارت کشیدگی کی ہی ایک مثال کارگل جنگ ہے۔ اس جنگ کے دوران بھارتی فضائیہ کے فلائٹ لیفٹیننٹ نچیکیتا 27 مئی 1999ء کو پاکستان کے ہاتھ لگے۔ لیکن پاکستان نے ایک ہفتے بعد یعنی 3 جون کو نچیکیتا کو بھارت کےحوالے کردیا۔

ان 3 مثالوں سے چند نتائج اخذ کئے جاسکتے ہیں۔

پہلا یہ کہ روس نے یوکرین کے ساتھ جنگی تصادم کو ماننے سے انکار کیا اور یوکرین کے قیدیوں کو جنگی قیدی کا درجہ نہیں دیا۔ اس حوالے سے تیسرا جنیوا کنونشن لاگو ہونے کی بات کی جاتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ یہ کنونشن اعلانیہ جنگ یا کسی مسلح تنازع سمیت دونوں ہی صورتوں میں لاگو ہوتا ہے، اس کے باوجود کہ دونوں فریقین حالتِ جنگ کو تسلیم نہ کریں۔ روس تیسرے جنیوا کنونشن کے رُو سے یوکرینی بحریہ کے گرفتار اہلکاروں کو جنگی قیدی نہیں مان رہا۔

دوسری مثال کوریا جنگ کی ہے۔ جنیوا کنونشن پر عمل تو ہوا لیکن شمالی کوریا نے 8 ہزار قیدی پھر بھی واپس نہیں کیے اور خطہ جنگ بندی کے باوجود اب تک حالت جنگ میں ہے۔ کشیدگی کم نہیں ہو پائی اور امریکا اب تک خطے سے نکلنے کا نام نہیں لیتا۔

تیسری مثال کارگل کی ہے۔ پاکستان نے اس وقت بھی حالتِ جنگ ڈیکلیئر نہ ہونے کے باوجود بھارتی پائلٹ واپس کیا جس کا مقصد کشیدگی میں کمی تھا اور اب بھی پاکستان نے یہ ثابت کرنے کے لیے ونگ کمانڈر ابھی نندن کو واپس بھیج دیا کہ پاکستان جنگ نہیں امن چاہتا ہے۔ ابھی نندن کی واپسی سے پاکستان کے کیا مقاصد اور عزائم ہیں؟ یہ اہم سوال ہے۔

پاکستان نے بھارت کو پلوامہ حملے کی تحقیقات میں تعاون کا یقین دلایا اور ابھی نندن کی واپسی اس حوالے سے اہم سی بی ایم (Confidence-building measures) ہے۔ وزیرِاعظم عمران خان نے بھارتی ونگ کمانڈر کی رہائی کا فیصلہ کرکے بھارت کو ایک قدم آگے بڑھ کر بتایا کہ ان کی پیشکش سنجیدہ ہے۔ سی بی ایم عصرِ حاضر میں تسلیم شدہ تصور ہے جو عسکری، سیاسی اور معاشی شعبوں میں کئی اقدامات پر محیط ہے۔

سی بی ایم کی اصطلاح ابتدائی طور پر عسکری حوالے سے سامنے آئی تھی۔ 1998ء سے ایک اور اصطلاح ٹی سی بی ایم ( Trust and Confidence-building measures) استعمال ہوتی ہے جو جنیوا کانفرنس میں سامنے آئی اور یہ نئی اصطلاح عسکری شعبے کے ساتھ معاشی اور سیاسی شعبوں کو بھی شامل کرتی ہے۔

سی بی ایم کی اصطلاح 1970ء میں یورپ میں سامنے آئی تاہم عملی طور پر اس کا استعمال دنیا کے مختلف خطوں میں پہلے سے ہوتا آرہا ہے۔ جنوبی ایشیا میں

  • 1949ء کا کراچی ایگریمنٹ،
  • 1950ء کا لیاقت نہرو معاہدہ،
  • 1960ء کا انڈو پاک بارڈر گراؤنڈ رولز ایگریمنٹ،
  • 1962ء کا سندھ طاس معاہدہ،
  • 1966ء کا اعلانِ تاشقند اور
  • 1972ء کا شملہ معاہدہ اس کی بہترین مثالیں ہیں۔

سی بی ایم وسیع ترین معنوں میں استعمال ہونے والی اصطلاح ہے جبکہ عسکری حوالوں سے سی ایس بی ایم (Confidence and Security Building Measures) زیادہ موزوں اور مخصوص اصطلاح تصور کی جاتی ہے۔ ونگ کمانڈر ابھی نندن کی رہائی کو سی ایس بی ایم کہنا زیادہ موزوں ہوگا۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان اعتماد سازی کے حوالے سے کئی اقدامات پہلے بھی کیے جاچکے ہیں اور ان کے فوائد دونوں فریقین کو حاصل ہوئے ہیں۔ اعتماد سازی کے اقدمات آسان مرحلہ نہیں۔ اعتماد سازی کو 3 مراحل میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

پہلا مرحلہ تنازعات سے بچنا یعنی سی اے ایم (Conflict Avoiding Measures) ہے ۔ اس کی بہترین مثال پاک بھارت تعلقات میں 1991ء کا معاہدہ ہے جس کے تحت دونوں ملک بڑے پیمانے پر فوجی مشقوں سے پہلے ایک دوسرے کو اطلاع دیتے ہیں اور مشترکہ سرحد پر نو فلائی زون کا قیام ہے۔

اعتماد سازی کا دوسرا مرحلہ زیادہ مشکل ہے۔ تنازعات سے بچنے کے بعد اس مرحلے میں سیاسی پہلو بھی شامل ہوجاتا ہے۔ پاک بھارت تعلقات میں اس کا سیاسی اور مشکل ترین پہلو مسئلہ کشمیر ہے۔ اس مرحلے میں تنازعات سے بچنے کے اقدامات پر عمل کا ریکارڈ بھی ملحوظِ خاطر رکھا جاتا ہے۔ اگر سی اے ایم پر پوری طرح عمل نہ ہو رہا ہو تو آگے بڑھنا مشکل ترین کام ہوتا ہے۔

ان دونوں مراحل پر عمل کے بعد تیسرا مرحلہ پائیدار امن کی طرف پیش رفت ہے۔ اس مرحلےمیں فوجی نقل و حرکت اور مستقبل کے دفاعی سودوں پر ایک دوسرے کو اعتماد میں لینا شامل ہے۔ سیاسی تنازعات کی شدت اس مرحلے کو تقریباً ناممکن بنا دیتی ہے۔

جنوبی ایشیا میں سی بی ایمز کی تاریخ کچھ زیادہ اچھی نہیں رہی جس کی بنیادی وجہ سیاسی تنازعات کی شدت ہے۔ اس کی ایک مثال 1962ء کا انڈو پاک ایگریمنٹ ہے۔ بھارت نے معاہدے کے باوجود کیمیکل ہتھیاروں کا حصول جاری رکھا اور بالآخر کیمیکل ہتھیاروں کے کنونشن کے تحت اسے اس کا اعتراف کرنا پڑا۔

ایک اور مثال 1998ء کا معاہدہ ہے جس کے تحت دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ نہ کرنے کا وعدہ کیا۔ مئی 1998ء میں انٹیلی جنس اطلاعات موصول ہوئیں کہ بھارت نے پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر حملے کی تیاری کرلی ہے جسے وہ اپنے بچاؤ کے تحت پیشگی حملہ قرار دے گا۔ یہ بحران ٹالنے کے لیے بھارتی ہائی کمشنر کو نصف شب طلب کرکے واضح کیا گیا کہ اس طرح کی کسی بھی کارروائی کے نتائج کیا ہوسکتے ہیں۔

ایک مثال بھارت کی اکتوبر 1998ء کی فوجی مشقیں ہیں جو براس ٹیک کے بعد سب سے بڑی فوجی مشقیں تھیں۔ اگرچہ بھارت نے ان مشقوں کی اطلاع دی لیکن یہ مشقیں پاکستان کی بَری اور بحری سرحدوں کے بہت قریب تھیں جو معاہدے کی روح کی کھلی خلاف ورزی تھی اور ان مشقوں نے کشیدگی کو بڑھاوا دیا۔

ونگ کمانڈر ابھی نندن کی رہائی پاکستان کی طرف سے عسکری اعتماد سازی (سی ایس بی ایم) کا ایک قدم کہا جاسکتا ہے جو خطے میں امن کی ناگزیر ضرورت ہے۔ اسے جنیوا کنونشن کی رُو سے دیکھنا یا کسی کی فتح یا کمزوری بنا کر پیش کرنا اعتماد سازی کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔ سی بی ایمز کی خلاف ورزی کی تاریخ بھی ایسے اقدامات کی کامیابی کو دھندلا رہی ہے لیکن امن کے لیے کچھ بہادرانہ قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ وزیرِاعظم عمران خان کا یہ فیصلہ امن کی طرف پہلا دلیرانہ قدم ہے لیکن اگر اسے کمزوری سمجھا گیا تو نتائج بھارت سمیت پورے خطے کے لیے بھیانک ہوسکتے ہیں۔

اعتماد سازی کے لیے بہت صبر اور حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اعتماد سازی کے اقدامات میں فوری نتائج کی توقع بھی نہیں رکھنی چاہئے۔ دیرپا امن کے لیے اٹھایا گیا یہ پہلا قدم درست سمت کا تعین کر رہا ہے، لہٰذا بھارت کی طرف سے اس کا مثبت جواب آنا ضروری ہے۔


دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات بالخصوص مشرق وسطیٰ ان کی دلچسپی کے موضوعات ہیں۔

آصف شاہد

دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات بالخصوص مشرق وسطیٰ ان کی دلچسپی کے موضوعات ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

محمد احمد Mar 04, 2019 11:08pm
بہت ہی زبردست معلومات اور تاریخی واقعات ہیں جو ہمیںماضی کے جھروکوں میں لے گئے،لکھاری کا انداز اسلوب بھی خوب ہے، شکریہ ڈان