’او آئی سی اجلاس کے بائیکاٹ کا فیصلہ عوام اور ایوان کی ترجمانی ہے‘
پارلیمنٹ میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے اسلامی تعاون تنظیم(او آئی سی) کے وزرائے خارجہ کے اجلاس سے بائیکاٹ کے فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ پاکستان کے عوام اور ایوان کی ترجمانی ہے۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں شہباز شریف نے کہا کہ موجودہ صورتحال اور بھارتی جارحیت کے تناظر میں بائیکاٹ کا فیصلہ بالکل درست ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ متحدہ عرب امارات کے حکام سے بھی اپنا احتجاج ریکارڈ کرائے۔
مزید پڑھیں: پاک بھارت کشیدگی: شاہ محمود قریشی کا او آئی سی اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا اعلان
انہوں نے کہا کہ پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے تاریخی مراسم ہیں اور ہمیں انہیں یہ بتانا چاہیے کہ اگر ایسے مرحلے پر بھارتی وزیر خارجہ کو او آئی سی اجلاس میں بلایا گیا تو یہ بات تاریخ کا حصہ بن جائے گی کہ ایک ایسے موقع پر سشما سوراج کو مدعو کیا گیا کہ جب پاکستان پر بھارت جارحیت کا مظاہرہ کر رہا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ترکی کے وزیر اعظم اور وزیر خارجہ سے بات چیت خوش آئند ہے لیکن ساتھ ساتھ یہ بہتر ہو گا کہ کچھ دوست ممالک کو موجودہ صورتحال پر اعتماد میں لے کر کہا جائے کہ وہ کھل کر پاکستان کے حق میں بیان دیں جس سے پاکستان کے موقف کو نہ صرف تقویت ملے گی بلکہ یہ دنیا کے سامنے بھی ابھر کر سامنے آئے گا۔
انہوں نے تجویز پیش کی کہ اس ایوان کے حکومتی اور اپوزیشن بینچوں کے اراکین پر مشتمل وفود تشکیل دے کر دوست ممالک بھجوائے جائیں تاکہ انہیں موجودہ صورتحال سے پوری طرح آگاہ کیا جائے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کے امن کے پیغام پر نریندر مودی کا ’جارحانہ’ جواب
قائد حزب اختلاف نے اپنی بات کا اختتام کرتے ہوئے وطن کے لیے گرانقدر خدمات انجام دینے اور ملکی دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے والے سابق ملکی قائدین، غازیوں، شہدا اور انجینئرز کو خراج تحسین پیش کیا۔
انہوں نے کہا کہ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بانی تھے جنہوں نے اس منصوبے کی بنیاد رکھی اور پھر جب وقت آیا تو بھارت کے پانچ ایٹمی دھماکوں کے جواب میں میاں محمد نواز شریف نے چھ دھماکے کر کے بھارت کے دانت کھٹے کر دیے۔
وزیر خارجہ کو او آئی سی اجلاس میں جانا چاہیے تھا، زرداری
سابق صدر آصد علی زرداری نے او آئی سی اجلاس کے بائیکاٹ کے فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کو اس اجلاس میں شرکت کر کے دوست ملکوں کے ساتھ رابطہ کر کے اپنا موقف پیش کرنا چاہیے تھا۔
سابق صدر پاکستان نے بھارتی طیارہ مار گرانے پر پاکستانی پائلٹ حسن صدیقی کو قومی ہیرو قرار دیتے ہوئے خراج تحسین پیش کیا۔
آصف زرداری نے کہا کہ میرا ماننا تھا کہ ہمیں اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس میں جانا چاہیے لیکن ایوان اور دوستوں کا فیصلہ ہے کہ اجلاس کا بائیکاٹ کریں تو میں اس کی مخالفت نہیں کروں گا۔
انہوں نے کہا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی انتخابات کے سبب یہ محاذ آرائی کر رہے ہیں جس میں انہیں اللہ کے کرم سے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا اور ہم سرخرو رہے۔
مزید پڑھیں: پاکستان نے بھارتی پائلٹ کی حوالگی سے متعلق باضابطہ طور پر آگاہ کردیا
آصف علی زرداری نے بھارتی پائلٹ کو رہا کرنے کے فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ مثبت سفارتکاری ہے، اسے استعمال کرنا چاہیے جو عالمی سطح پر پاکستان کا مثبت تشخص اجاگر کرنے میں مددگار ثابت ہو گی۔
انہوں نے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں اپنے پڑوسیوں کے ساتھ ایسے تعلقات استوار کرنے کی ضرورت ہے کہ مشکل وقت میں وہ ہمارے ساتھ کھڑے ہوں۔
سابق صدر نے کہا کہ 2008 کے ممبئی حملوں کے بعد بھی بھارت نے پاکستان پر حملے کا الزام عائد کرتے ہوئے جنگ مسلط کرنے کی دھمکی دی تھی لیکن ہم نے بہترین سفارتکاری سے بھارت کو اپنے قدم واپس لینے پر مجبور کردیا تھا۔
’پائلٹ دینے سے پہلے بھارت سے کشمیر پر مذاکرات کا مطالبہ کرنا چاہیے تھا‘
پیپلز پارٹی کی رہنما شیری رحمٰن نے پارلیمنٹ سے خطاب میں مشترکہ اجلاس پر اپوزیشن اور حکومت کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے پوری دنیا خصوصاً بھارت کو یہ پیغام دیا ہے کہ ہم متحد ہیں۔
انہوں نے کہا بھارت کی 21 اپوزیشن جماعتوں نے بھارتی حکومت کے خلاف متفقہ قرارداد پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اپنی سیاست کے لیے خطے کو جنگ میں نہ جھونکے۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارتی اپوزیشن جماعتوں اور جمہور کو اس بات کا علم ہو چکا ہے کہ بھارت نے کوئی ایف 156 گرایا اور نہ ہی پاکستان نے ان کی سرحدی حدود کی خلاف ورزی کی بلکہ بھارت نے ایک ایسا اقدام کیا جس سے جنگ چھڑ سکتی ہے۔
شیری رحمٰن نے کہا کہ بھارتی پائلٹ کی رہائی ہمارا اخلاقی فرض تھا لیکن پائلٹ دینے سے پہلے ہمیں بھارت سے مطالبہ کرنا چاہیے تھا کہ ہمیں کشمیر پر مذاکرات کرنے ہیں۔
دنیا کو مطمئن کرنا ہو گا کہ ہمارا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں، خواجہ آصف
مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما خواجہ آصف نے او آئی سی اجلاس سے بائیکاٹ کے فیصلے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ہم سب کا متفقہ فیصلہ ہے اور ہمیں اس پر قائم رہنا چاہیے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ اسلامی تعاون تنظیم کا رکن بننا بھارت کی دیرینہ خواہش ہے جہاں وہ یہ جواز پیش کرتا ہے کہ ان کے ملک میں 25 سے 30 کروڑ مسلمان رہتے ہیں اس لیے انہیں رکن بنایا جائے۔
انہوں نے بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کی اجلاس میں شرکت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج بھارت اجلاس میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کر رہا ہے، کل انہیں مبصر کا درجہ ملے گا اور پھر یہ دوستوں کی مدد سے اپنی او آئی سی کے رکن بن جائیں گے۔
سابق وزیر دفاع نے کہا کہ ہم او آئی سی پلیٹ فارم کے بانی ہیں اور 1969 میں جب ہم نے بھارت کی شرکت کے پیش نظر اجلاس کا بائیکاٹ کیا تو ان سے دعوت نامہ واپس لیا گیا جس کے بعد ہم نے اجلاس میں شرکت کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنا جائزہ لینا ہو گا اور دنیا کو مطمئن کرنا ہو گا کہ ہمارا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑے ہیں اور لڑ رہے ہیں اور دنیا کا واحد ملک ہیں جو اس کا فاتح ہے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ کل تک جو مغرب کا اثاثے تھے اور مغرب کی وجہ سے ہمارا بھی اثاثہ تھے، آج وہ ہم پر بوجھ بن چکے ہیں اور ہمیں اس بوجھ کو ختم کرنا ہو گا کیونکہ یہ ہمارے مفاد میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ نواز شریف بھی اس بوجھ کو ختم اور اپنا گھر درست کرنے کی بات کرتا تھا لیکن اسے غدار اور مودی کا یار کا طعنہ دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان نے کل کہا کہ میں نے مودی کو فون کیا لیکن ہم نے تو انہیں مودی کا یار نہیں کہا بلکہ ہم ان کے ساتھ کھڑے ہیں، ہم اس اتحاد کو مثالی بنانا چاہتے ہیں۔
خواجہ آصف نے کہا کہ یاد کریں نواز شریف پچھلے 5 سال یہی بات کہتا رہا اور نواز شریف کو کن کن القابات سے نوازا گیا، آج نواز شریف کا وژن اور ان کی باتیں اس ایوان میں گونج رہی ہیں، نواز شریف نے یہ ثابت کیا کہ وہ اس صورتحال کو اس وقت دیکھ رہا تھا، وہ برصغیر کے امن کی بات اس وقت کر رہا تھا اور اس کو انتہائی برے طریقے سے مسترد کیا گیا، جیل میں ڈال دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ نواز شریف کا قصور یہ تھا کہ وہ برصغیر میں امن اور معاشی ترقی کی بات کرتا تھا اور آج وزیر اعظم عمران خان بھی یہی بات کر رہے ہیں حتیٰ کہ الفاظ بھی وہی استعمال کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز اجلاس میں بھی عمران خان صاحب شریک نہیں ہوئے اور ایوان میں بھی جان بوجھ کر اس وقت آئے جب ترانہ بجایا جا رہا تھا تاکہ شہباز شریف سے ہاتھ نہ ملانا پڑے۔