’جنگ کوئی تفریح نہیں’، را کے سابق سربراہ کا بھارتی حکومت کو انتباہ
نئی دہلی: بھارتی خفیہ ایجنسی (را) کے سابق سربراہ امرجیت سنگھ دولت نے بھارتی حکومت کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنگ کوئی تفریح نہیں اس لیے پاکستان کے خلاف جنگ کے آپشن کے بجائے سفارتکاری کا راستہ اختیار کیا جائے۔
ڈان اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق اے ایس دولت کا کہنا تھا کہ حکومت نے اعلان کیا تھا کہ فوج کو کلی اختیار دے دیا ہے، لیکن یاد رہے کہ اس دور میں جنگ نہایت بھیانک ہوچکی ہے، مجھے یقین ہے کہ جنگ کے علاوہ بھی آپشنز موجود ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ممبئی حملوں کے بعد بھی جنگ کے بادل چھا گئے تھے اور شاید صورتحال زیادہ سنگین تھی لیکن اس وقت کے وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے جنگ کا راستہ اختیار نہیں کیا۔
یہ بھی پڑھیں: پلوامہ حملہ: بھارت نے وزیراعظم عمران خان کی تحقیقات کی پیشکش مسترد کردی
چنانچہ وزیراعظم نریندر مودی کو بھی اپنے آپشنز پر غور کرنے کی اور اعلیٰ حکام کو جنگ کے نتائج پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کیوں کہ 'جنگ کوئی تفریح نہیں'۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ 1971 کے بعد سے کوئی حقیقی جنگ نہیں لڑی گئی اور کارگل ایک محدود آپریشن تھا جو پہاڑی علاقوں میں ہوا اور خوش قسمتی سے زیادہ شہری متاثر نہیں ہوئے۔
لیکن اگر لاہور پر بم گرایا گیا یا امرتسر پر بمباری کی گئی یا پھر مظفرآباد پر بم حملہ ہوا تو کیا ہم اس کے نتائج بھگتنے کے لیے تیار ہیں؟ کیوں کہ آج کل کے ہتھیار تبدیل ہوچکے ہیں اور یہ 1971 والے نہیں۔
امورِ کشمیر کے ماہر اور سابق بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے مشیر رہنے والے اے ایس دولت کا مزید کہنا تھا کہ سابق وزیراعظم نے اس سے کہیں زیادہ بری صورتحال کا سامنا کیا تھا جس میں کارگل آپریشن، پارلیمنٹ پر حملہ اور بھارتی ہوائی جہاز کو اغوا کر کے قندھار لے جانا شامل ہے لیکن انہوں نے تمام معاملات کو تحمل سے سنبھالا۔
'را' کے سابق سربراہ نے کانگریس رکنِ اسمبلی نوجوت سدھو کے پاکستانی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے گلے ملنے پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’سدھو، جنرل باجوہ سے اسی طرح ملے جس طرح پنجابی ایک دوسرے سے ملتے ہیں، اور یہاں تو دونوں صرف پنجابی بھی نہیں بلکہ ہمارے ایک جٹ سکھ کی دوسرے ملک کے جٹ سے ملاقات تھی‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’سدھو اور جنرل باجوہ اسی طرح ملے جس طرح عموماً ملا جاتا ہے اگر اس میں کوئی شرمندگی کا پہلو ہوتا تو وہ جنرل باجوہ کو متاثر کرتا کیوں کہ وہ تو وردی میں تھے‘۔
مزید پڑھیں: مودی بھارت میں مقیم کشمیریوں کو حملوں سے بچائیں، ایمنسٹی
اے ایس دولت نے کہا کہ ’جب آپ بات چیت کا راستہ چھوڑ دیتے ہیں تو مطلب آپ اپنی راہیں محدود کررہے ہیں‘، جس کی وجہ سے ہم دوبارہ تشدد کا راستہ اپنا رہے ہیں، دنیا میں شاید کوئی دراندازی کا معاملہ طاقت اور ہتھیاروں کے استعمال سے حل ہوا ہو۔
دوسری جانب سابق بھارتی وزیر داخلہ چدم برم نے بھی ایک انٹرویو میں اسی قسم کے سوالات کے جواب میں کہا کہ ’میں پلوامہ سانحے کی مذمت کرتا ہوں لیکن مبینہ حملہ آور بھارتی اور کشمیری تھا، کوئی پاکستانی نہیں‘۔
چدم برم کا مزید کہنا تھا کہ ’حملہ آور نے جیشِ محمد سے منسلک ہونے کا دعویٰ کیا تھا، ہوسکتا ہے یہ سچ ہو، لیکن اگر نوجوان عسکریت پسندی کی جانب مائل ہورہے ہیں تو اس کا مطلب جو کچھ بھی ہم نکال رہے ہیں اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوگا، ہمیں کشمیری عوام کے دل و دماغ جیتنے کی ضرورت ہے‘۔
تبصرے (1) بند ہیں