ان لوگوں کی تصاویر جن کا کبھی دنیا میں وجود نہیں تھا
نیچے موجود چہروں پر پہلی نظر میں کچھ خاص نظر نہیں آتا کیونکہ اس میں بظاہر کچھ بھی خاص نہیں اور یہی چیز اسے غیرمعمولی بناتی ہے۔
اور ہاں ان چہروں کو غور سے دیکھنے کی زحمت نہ کریں کیونکہ آپ کچھ بھی منفرد تلاش نہیں کرسکیں گے۔
بچوں، خواتین اور مردوں کے یہ چہرے درحقیقت ایسے افراد کے ہیں جن کا کبھی دنیا میں وجود ہی نہیں تھا۔
یہ چہرے ایک کمپیوٹر سسٹم بنارہا ہے اور یہ درجنوں میں ہے جو دیکھنے میں بالکل حقیقی لگتے ہیں۔
ThisPersonDoesNotExist.com نامی ویب سائٹ نے یہ چہرے آرٹی فیشل ٹیکنالوجی (اے آئی) کے ایک پہلو کو دکھانے کے لیے بنائے ہیں۔
یہ تصاویر اتنی حقیقی لگتی ہیں کہ یقین کرنا مشکل ہوتا ہے کہ یہ چہرے حقیقی انسانوں کے نہیں۔
اس ویب سائٹ پر جائیں تو وہاں کچھ بھی نہیں ہوگا، بس تاریک پس منظر اور درمیان میں ایک چہرہ، اس کے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں، بس پیج ری فریش کرتے جائیں، یہ چہرے بدلتے چلے جائیں گے۔
اس سے یہ خوفناک احساس بھی ہوتا ہے کہ اے آئی ٹیکنالوجی کس حد تک ہمیں یہ دھوکا دینے میں کامیاب ہوجاتی ہے کہ ہم جو تصویر دیکھ رہے ہیں وہ کسی حقیقی شخص کی ہے۔
ان فرضی چہروں کی ویب سائٹ کے خالق اوبر کے سافٹ وئیر انجنیئر فلپ وانگ ہیں جنہوں نے امریکی کمپنی Nvidia کی اس تحقیق کو اس مقصد کے لیے استعمال کیا، جسے گزشتہ سال پبلک کیا گیا تھا۔
فلپ کی ویب سائٹ میں ایک الگورتھم میں بڑی تعداد میں انسانی چہروں کو شامل کیا گیا اور پھر نیورول نیٹ ورک کی مدد سے ان چہروں کو بالکل نئے چہرے بنانے کے لیے استعمال کیا گیا۔
اس ویب سائٹ کے نیورل نیٹ ورک الگورتھم 512 dimensional vector کی مدد سے چہرے کی تصویر تیار کرتا ہے۔
اس ویب سائٹ کے خالق فلپ وانگ نے ایک فیس بک گروپ میں پوسٹ کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے یہ سائٹ لوگوں کا شعور اجاگر کرنے کے لیے تیار کی ہے کہ Nvidia کے باصلاحیت محققین کا ایک گروپ کیا کچھ کرسکتا ہے، اس پر 2 سال سے کام جاری تھا'۔
مگر موجودہ عہد جب جعلی خبریں، تصاویر میں ردوبدل بہت عام ہوچکا ہو، اس طرح کی ٹیکنالوجی کو متعارف کرانا اس قسم کے عمل کو مزید آسان بناسکتا ہے۔
یعنی ابھی تو یہ ویب سائٹ نئی ٹیکنالوجی کو متعارف کرانے کی دلچسپ کوشش ہے مگر مستقبل قریب میں یہ منفی چیزوں کے لیے آسانی سے استعمال ہوسکے گی۔
تبصرے (6) بند ہیں