حکومت کو سوشل میڈیا پر کریک ڈاؤن کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کی جانب سے سوشل میڈیا پر نفرت پھیلانے والوں کے خلاف مؤثر کریک ڈاؤن کے اعلان نے ایک نئی بحث چھیڑ دی۔
اس اعلان کے بعد کئی سوالات نے جنم لیا، جن میں ایک بنیادی سوال یہ بھی ہے ملک میں سائبر کرائم کے حوالے قوانین کی موجودگی میں آخر حکومت کو اس اقدام کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
وفاقی وزیر نے گذشتہ روز ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ حکومت نے ایک طریقہ کار تیار کرلیا ہے جہاں ہم سوشل میڈیا پر بھی نفرت انگیز مواد کو کنٹرول کر پائیں گے کیونکہ ڈیجیٹل میڈیا عام میڈیا پر ٹیک اوور کررہا ہے لہٰذا ضروری تھا کہ ہم اسے ریگولرائز کریں۔
یہاں ایک اہم سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ آیا اس کریک ڈاؤن کا اطلاق صرف نفرت انگیز مواد پھیلانے والوں تک محدود ہوگا یا پھر اس کا نشانہ وہ لوگ بھی بن سکتے ہیں جو کسی نہ کسی معاملے پر تنقید کو اپنا جمہوری حق سمجھتے ہیں۔
مزید پڑھیں: حکومت کا سوشل میڈیا پر نفرت پھیلانے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا اعلان
ڈان نیوز کے پروگرام 'ذرا ہٹ کے' میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ کریک ڈاؤن کا مطلب یہی ہے کہ قوانین پر عملدرآمد کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ 'اس وقت سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے نفرت انگیز مواد کو پھیلایا جارہا ہے اور ہمارا مقصد اس کو کنٹرول کرنا ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ ان جعلی اکاؤنٹس پر کچھ ایسے فتوے بھی دیے جارہے ہیں جن سے کسی کی بھی جان کو خطرہ ہوسکتا ہے، لہذا ہم سمجھتے ہیں کہ اسے روکنا انتہائی ضرورت ہے کیونکہ اس طرح کے واقعات ملک میں انتہا پسندی کو فروغ دینے کا باعث بنتے ہیں۔
فواد چوہدری نے کہا کہ اگرچہ سوشل میڈیا پہلے سے ہی ریگولرائز ہے اور اس حوالے سے سائبر کرائم ایکٹ 2016 بھی نافذ ہوچکا ہے، لیکن ہم نے جو طریقہ کار بنایا ہے اس سے اب ہم ان جعلی اکاؤنٹس کا پتہ لگا کر ان لوگوں کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لاسکیں گے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ بنیادی طور پر اس کا مقصد مذہبی انتہا پسندی کو روکنا ہے کیونکہ اگر کسی کو بھی کسی سے اختلاف ہے تو اُسے قتل کرنے یا کوئی نقصان پہنچنے کا حق بلکل حاصل نہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کریک ڈاؤن میں کچھ گرفتاریاں بھی ہوں گی جس طرح چند روز پہلے ہوئی ہیں۔
وزیر اطلاعات نے واضح کیا کہ آزادِ اظہار رائے اور نفرت پھیلانے میں فرق ہے اور آزادانہ رائے قائم کرنے پر کوئی پابندی نہیں لیکن کوئی بھی شخص نفرت انگیز بات کسی صورت بھی نہیں کرسکتا۔
یہ بھی پڑھیں: سوشل میڈیا کی منڈی میں افواہیں بھی بکتی ہیں
ان کا کہنا تھا کہ 'آپ کی آزادی کی حد وہاں شروع ہوتی ہے، جہاں میری آزادی کی حد ختم ہوتی ہے'۔
اس سوال پر کہ حکومت کس طرح اس بات کو یقینی بنائے گی کہ اس کریک ڈاؤن کا کوئی غلط استعمال نہ ہو تو فواد چوہدری نے کہا کہ یہ کام عدالتیں کریں گی لیکن حکومت کسی کی آزادی پر پابندی نہیں لگائے گی۔