• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

400 سال پرانا نایاب درخت چوری

شائع February 12, 2019 اپ ڈیٹ February 16, 2019
بونسائی درختوں کو جاپان کی ثقافت کا حصہ سمجھا جاتا ہے—فائل فوٹو: وکی پیڈیا
بونسائی درختوں کو جاپان کی ثقافت کا حصہ سمجھا جاتا ہے—فائل فوٹو: وکی پیڈیا

دنیا بھر میں ڈکیت ہمیشہ اس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ وہ کوئی نایاب اور ایسی قیمتی چیز چرائیں جن سے انہیں ڈھیر ساری دولت ملے۔

اور اسی مقصد کے تحت دنیا بھر میں ڈاکو ایک سے بڑھ کر ایک نایاب اور قیمتی چیزیں چراتے رہے ہیں۔

دنیا کی تاریخ ایسی ڈکیتیوں سے بھری پڑی ہے جن میں چور نایاب چیزوں کو چرا کر فرار ہوگئے اور ان میں سے بیشتر چیزوں کا آج تک سراغ نہیں لگایا جا سکا۔

حال ہی میں چوری کا ایک ایسا منفرد واقعہ جاپان میں بھی پیش آیا، جہاں چور نایاب درخت سمیت مجموعی طور پر 7 چھوٹے درخت چرا کر فرار ہوگئے۔

جی ہاں، جاپان کے شہر ٹوکیو سے چور 400 سال پرانے نایاب اور خوبصورت درخت سمیت 7 ایسے درخت چرا کر فرار ہوگئے جنہیں دنیا کے خوبصورت درخت بھی کہا جاتا تھا۔

امریکی نشریاتی ادارے ’سی این این‘ نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ چور ٹوکیو کے باغیچے سے کم سے کم 4 صدیاں پرانے درخت سمیت 7 چھوٹے ’بونسائی‘ نسل کے درخت چرا گئے۔

چوری کیا گیا 4 صدیاں پرانا درخت 3 فٹ 2 انچ لمبا اور ڈھائی فٹ چوڑا تھا—فوٹو: سی این این
چوری کیا گیا 4 صدیاں پرانا درخت 3 فٹ 2 انچ لمبا اور ڈھائی فٹ چوڑا تھا—فوٹو: سی این این

رپورٹ کے مطابق چوری کیے گئے ساتوں درختوں کی مالیت ایک لاکھ 18 ہزار امریکی ڈالر (پاکستانی تقریبا ایک کروڑ 30 لاکھ روپے) تک تھی۔

چوروں نے جو درخت چرائے انہیں دنیا بھر میں’بونسائی‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

بونسائی درخت جاپانی آرٹ کا ایک شاہکار ہوتے ہیں جو قد میں چھوٹے مگر بے حد خوبصورت ہوتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق چوری کیے گئے 7 بونسائی درختوں میں 400 سال پرانا نایاب ’شمپاکو‘ نامی درخت بھی تھا، جس کی اس وقت مالیت 90 ہزار امریکی ڈالر یعنی لگ بھگ پاکستانی ایک کروڑ روپے تھی۔

چوری ہونے والے نایاب درختوں کے مالکوں کے مطابق انہوں نے ان تمام درختوں کی اپنے بچوں کی طرح پرورش کی تھی اور اب انہیں ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے کسی نے ان کے جسمانی اعضاء چرا لیے ہوں۔

درختوں کے مالکان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ان ساتوں درختوں سمیت درجنوں ایسے ’بونسائی‘ درخت تیار کر رکھے ہیں اور انہیں ’بونسائی‘ درختوں کی تزئین و آرائش کا ماہر سمجھا جاتا ہے۔

بعض درخت ساڑھے تین فٹ سے زائد لمبے بھی ہوتے ہیں—فوٹو: سی این این
بعض درخت ساڑھے تین فٹ سے زائد لمبے بھی ہوتے ہیں—فوٹو: سی این این

سی این این کے مطابق جس خاندان کے باغیچے سے ’بونسائی‘ درخت چوری ہوئے، اس خاندان کی پانچ نسلیں ایسے درختوں کی تزئین و آرائش کرتی آ رہی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق اس خاندان کے پاس اب بھی 5 ہزار ہیکٹرز پر مشتمل باغیچہ ہے، جس میں 3 ہزار درخت موجود ہیں۔

اس خاندان نے ’بونسائی‘ درختوں کی تزئین و آ رائش کا کام 16 ویں صدی میں شروع کیا تھا اور اب تک اس خاندان کی نسلیں اسی کام سے منسلک ہیں۔

بونسائی درخت کیسے ہوتے ہیں؟

یہ درخت جاپان کے زیادہ تر گھروں کا حصہ ہوتے ہیں—اسکرین شاٹ/یوٹیوب
یہ درخت جاپان کے زیادہ تر گھروں کا حصہ ہوتے ہیں—اسکرین شاٹ/یوٹیوب

دراصل بونسائی ایک جاپانی فن ہے جو درختوں کی تزئین و آرائش کا ہنر ہے۔

اس فن کے تحت مختلف نسلوں کے درختوں کو کاٹ کر قد میں چھوٹا کر دیا جاتا ہے، تاہم وہ بناوٹ اور سختی میں بڑے درختوں جیسے ہی نظر آتے ہیں۔

بونسائی درخت زیادہ سے زیادہ 3 فٹ لمبے اور اتنے ہی چوڑے ہوتے ہیں، تاہم کچھ اس سے بڑے بھی ہوتے ہیں۔

بونسائی درخت دکھنے میں انتہائی خوبصورت ہوتے ہیں اور انہیں جاپان میں ثقافتی اہمیت حاصل ہے۔

ان درختوں کو چھوٹے پودوں کی طرح گمبلوں میں بھی اگایا جا سکتا ہے اور انہیں کمرے کے کسی کونے میں بھی سجا کے رکھا جاتا ہے۔

بونسائی درخت دنیا بھر میں شہرت رکھتے ہیں—فوٹو: کول جاپان
بونسائی درخت دنیا بھر میں شہرت رکھتے ہیں—فوٹو: کول جاپان

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024