جعلی اکاؤنٹس کیس: عدالتی فیصلے پر بلاول بھٹو اور سندھ حکومت کی نظرثانی درخواست
سپریم کورٹ کی جانب سے دیے گئے جعلی اکاؤنٹس کیس کے فیصلے پر پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور سندھ حکومت نے نظرثانی اپیل دائر کردی۔
بلاول بھٹو کی جانب سے دائر کی گئی نظرثانی درخواست میں جے آئی ٹی کی تشکیل میں حساس اداروں کے نمائندوں کی شمولیت پر اعتراض اٹھایا گیا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ نظرثانی درخواست میں کہا گیا ہے کہ بلاول بھٹو نے سپریم کورٹ کے صوابدیدی اختیار پر بھی سوال اٹھایا ہے اور کہا ہے کہ عدالت نے 7 جنوری کو جے آئی ٹی کی رپورٹ سے نام نکالنے کا حکم دیا، تاہم تحریری فیصلے میں نام جے آئی ٹی رپورٹ سے نکالنے کا کوئی ذکر نہیں۔
مزید پڑھیں: جعلی اکاؤنٹس کیس: اومنی گروپ کے مالک انور مجید کی نظرثانی درخواست
نظرثانی درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ سپریم کورٹ اپنے صوابدیدی اختیار کا دائرہ کار طے کرے اور یہ طے کیا جائے کہ کس نوعیت میں صوابدیدی اختیار کا استعمال ہوسکتا ہے۔
عدالت عظمیٰ میں دائر درخواست میں کہا گیا کہ جے آئی ٹی کی تشکیل میں میری کوئی رضا مندی شامل نہیں تھی جبکہ اس ٹیم میں حساس اداروں کے نمائندوں کا کیا تعلق ہے۔
نظرثانی درخواست میں یہ کہا گیا کہ ریکارڈ کے مطابق یہ مقدمہ نیب کا نہیں بینکنگ عدالت کا بنتا ہے، لہٰذا عدالت عظمیٰ سے استدعا ہے کہ وہ 7 جنوری کے فیصلے پر نظرثانی کرے۔
جعلی اکاؤنٹس کیس کی انکوائری کا تمام ریکارڈ نیب کراچی کے حوالے کیا جائے، درخواست
دوسری جانب سندھ حکومت کی جانب سے عدالت عظمیٰ میں دائر کی گئی اس اپیل میں استدعا کی گئی ہے کہ 7 جنوری کے حکم نامے کے پیرا 29 سے 35 اور 37 پر نظرثانی کی جائے۔
نظرثانی اپیل میں کہا گیا کہ عدالتی حکم نامے میں وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور بلاول بھٹو کا نام نکالنےکے زبانی احکامات دیے گئے جبکہ کیس کی مزید انکوائری اسلام آباد میں کرنے سے انتظامی مسائل پیدا ہوں گے اور کیس کی مزید انکوائری اسلام آباد میں کرنا شفاف ٹرائل سےانکار کے مترادف ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: بلاول، مراد علی شاہ کے نام 'ای سی ایل' سے نکال دیئے جائیں، سپریم کورٹ
اس درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ جعلی اکاؤنٹس کیس کی انکوائری کا تمام ریکارڈ نیب کراچی کے حوالے کیا جائے اور کیس کی مزید تحقیقات کراچی میں ہی کی جائے اور اگر کوئی نیب ریفرنس تیار ہوتا ہے تو وہ کراچی میں دائر کیا جائے۔
سندھ حکومت نے نظرثانی درخواست میں کہا کہ عدالتی حکم نامہ چند حقائق کے برعکس ہے، ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا تھا کہ وزیراعلیٰ سندھ سے اس بارے میں کبھی پوچھا نہیں گیا جبکہ جے آئی ٹی نے وزیر اعلیٰ سندھ کا مؤقف نہیں سنا۔
نظرثانی درخواست میں کہا گیا کہ عدالتی حکم نامے میں کہا گیا کہ ایڈووکیٹ جنرل نے تسلیم کیا کہ معاملہ نیب تفتیش کا متقاضی ہے اور عدالتی حکم نامے کا یہ حصہ حقائق کے برعکس ہے کیونکہ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے ایک عمومی بات کی تھی۔
عدالت میں جمع اس درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ جے آئی ٹی رپورٹ کے بعض حصوں پر اعتراضات اٹھائے، لہٰذا عدالت سے استدعا ہے کہ حکم نامے سے مذکورہ عدالتی آبزرویشن حذف کی جائے۔
صوبائی حکومت کی درخواست کے مطابق بلاول بھٹو اور مراد علی شاہ کے نام ای سی ایل اور جے آئی ٹی رپورٹ سے نکالنے کا زبانی حکم دیا گیا جبکہ تحریری حکم نامے میں دونوں رہنماؤں کے نام صرف ای سی ایل سے نکالنے کا حکم تھا۔
خیال رہے کہ اس سے قبل سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے جعلی اکاؤنٹس کیس کے فیصلے کے خلاف سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری، ان کی ہمشیرہ فریال تالپور اور اومنی گروپ کے مالک انور مجید نے نظرثانی اپیل دائر کی تھی۔
کیس کا پس منظر
خیال رہے کہ 2015 کے جعلی اکاؤنٹس اور فرضی لین دین کے مقدمے کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری، ان کی بہن فریال تالپور اور ان کے کاروباری شراکت داروں سے تحقیقات کی جارہی ہیں۔
یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ، سندھ بینک اور سمٹ بینک میں موجود ان 29 بے نامی اکاؤنٹس میں موجود رقم کی لاگت ابتدائی طور پر 35ارب روہے بتائی گئی تھی۔
اس سلسلے میں ایف آئی اے نے معروف بینکر حسین لوائی کو گرفتار کیا تھا، جس کے بعد ماہ اگست میں جعلی اکاؤنٹس کیس میں ہی اومنی گروپ کے چیئرمین انور مجید اور ان کے بیٹے عبدالغنی مجید کو بھی گرفتار کر لیا گیا تھا۔
7 ستمبر کو سپریم کورٹ نے سابق صدر مملکت اور ان کی بہن بہن کی جانب سے مبینہ طور پر جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کیے جانے کے مقدمے کی تحقیقات کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دے دی تھی۔
اس جے آئی ٹی نے سابق صدر آصف علی زرداری، ان کی بہت فریال تالپور سے پوچھ گچھ کی تھی جبکہ چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو سے بھی معلومات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
مزید پڑھیں: 'جعلی اکاؤنٹ کیس میں جے آئی ٹی کی رپورٹ کو فیصلہ سمجھ لیا گیا ہے'
آصف علی زرداری نے جے آئی ٹی کو بتایا تھا کہ 2008 سے وہ کسی کاروباری سرگرمی میں ملوث نہیں رہے اور صدر مملکت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد انہوں نے خود کو تمام کاروبار اور تجارتی سرگرمیوں سے الگ کرلیا تھا۔
علاوہ ازیں 3 رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے اڈیالہ جیل میں حسین لوائی اور عبدالغنی مجید سے سے ڈیڑھ گھنٹے سے زائد تفتیش کی تھی۔
بعد ازاں اس کیس کی جے آئی ٹی نے عدالت عظمیٰ کو رپورٹ پیش کی تھی، جس میں 172 افراد کا نام سامنے آیا تھا، جس پر وفاقی حکومت نے ان تمام افراد کے نام ای سی ایل میں شامل کردیے تھے۔
تاہم 172 افراد کے نام ای سی ایل میں شامل کرنے پر سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے برہمی کا اظہار کیا تھا اور معاملے پر نظرثانی کی ہدایت کی تھی، جس کے بعد عدالت نے اپنے ایک فیصلے میں بلاول بھٹو اور مراد علی شاہ کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دے دیا تھا۔