کلانکر: تھر کے آنگن میں گم ہوتی ہوئی جھیل۔۔۔
پانی جہاں بھی ہو، کسی بھی رنگ میں ہو، وہ زندگی کے رنگوں سے بھرے پیغام کا لہراتا جھنڈا ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ اس دھرتی پر پانی سے زیادہ بھی کچھ اہم ہے کیونکہ یہ ہے تو ہم سانس لیتے ہیں۔ اب یہ دوسری حقیقت ٹھہری کہ محبت کے نخلستانوں میں ہنسی کی کم اور آنسوؤں کی فصل کچھ زیادہ ہی اگتی ہے۔
بات جہاں سے بھی کریں ہم گھوم پھر کر پانی کے کنارے پر آکر ہی دم لیں گے اور پھر جو لوگ سمندروں، دریاؤں، آبشاروں اور جھیلوں سے محبت کر بیٹھتے ہیں اور بدلے میں پانی بھی ان سے محبت کرتا ہے وہ ان انسانوں کو اپنی لہروں پر پالنے کی طرح جھلا کر پالتا ہے۔ ان کے جسموں میں حیات بن کر دوڑتا ہے۔ ان کے آنگنوں پر پورے چاند کی چاندنی جب چاندی کی طرح بہتی ہے تو وہ لوگ اپنی بیٹیوں کو شادی کے تیز سُرخ جوڑے میں الوداع کرتے ہیں کہ بیٹیاں پیدا اور پالی اسی لیے جاتی ہیں۔
یہ سارے درد اور خوشیوں کے پل ہیں جو ان سمندروں، دریاؤں، آبشاروں اور جھیلوں کے کناروں پر جنم لیتے ہیں اور اس طرح زندگی کا کارواں چلتا رہتا ہے۔ تو چلیے ہم بھی ایسی ایک جھیل کے کناروں پر چلتے ہیں، جہاں الوداعی کا موسم آیا ہوا ہے۔ کنارے اور ان کناروں پر رہنے والے بس ایک دوسرے سے جُدا ہونے کو ہیں۔
اچھڑو تھر جو 23 ہزار چورس کلومیٹر میں پھیلا ہوا ہے اس کی حدود عمرکوٹ سے شروع ہوکر سندھ کے گھوٹکی سے آگے پنجاب سے جا ملتی ہیں جہاں چولستان اس کو خوش آمدید کہتا ہے۔ تاریخ دان بتاتے ہیں کہ جب کَچھ جو رن سمندر کے نیچے تھا تب ہاکڑو کا وسیع بہاؤ یہاں سے گزر کر، ننگر پارکر کے نزدیک سمندر سے جا ملتا تھا۔
یہ ہی سرسوتی کا بہاؤ تھا جس کو اور بھی کئی ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے کام کرنے والے محترم امر لغاری سے میں نے پوچھا تو انہوں نے بھی اس سے ملتا جلتا جواب دیا کہ ’زمینی پلیٹوں کی حرکت کی وجہ سے ستلج اور جمنا نے اپنے بہاؤ تبدیل کیے جس کی وجہ سے 2 ہزار قبل مسیح سے 1500 قبل مسیح تک سرسوتی بالکل خشک ہوگئی۔ راجستھان کے ریگستان کے ظاہر ہونے کا بھی یہ ہی زمانہ ہے۔ یہ ریگستانی پٹی دراصل گمشدہ سرسوتی کا قدیم بہاؤ ہے۔‘
دریاؤں نے جہاں جہاں سے بہنا چھوڑا وہاں جھیلوں کا بن جانا ایک فطری عمل تھا۔ یہ ہی سبب ہے کہ ہاکڑو کے چھوڑے ہوئے بہاؤ میں جھیلوں کا ایک سلسلہ ہے جس کو کبھی بارشوں نے اور کبھی گرد و پیش کی نہروں کے پانی نے زندہ رکھا ہوا ہے اور یہ سلسلہ فطرت کا ایک نظام ہے جو لاکھوں برسوں سے بنتا بگڑتا ہوا چلا آ رہا ہے۔ انسان نے فطرت کی عطا کی ہوئی ان جھیلوں کو اپنا ذریعہ معاش بناکر ایک حوالے سے فطرت کے اٹھائے ہوئے قدم کا استقبال کیا اور ان جھیلوں کے کناروں پر صدیاں گزاریں اور ایک کلچر کو جنم دیا جس کو ہم ’مہانا کلچر‘ کے نام سے جانتے ہیں۔
موجودہ وقت میں نارا کینال جہاں سے بہتی ہے اگر اس بہاؤ کی لکیر کو غور سے دیکھیں تو آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ فطرت کس طرح لکیر کھینچتی ہے۔ پانی کی اس لکیر کے مغرب میں جو زمین ہے وہ انتہائی زرخیز ہے اور اسے ’نارا ویلی‘ پکارا جاتا ہے اور مشرق کی طرف ریت کے ٹیلے اور ویرانیاں رہ جاتی ہیں۔
ان ٹیلوں اور ویرانیوں کے بیچوں بیچ ایک جھیلوں کا سلسلہ ہے، جسے سمجھنے کے لیے میں نے ڈھورو نارو کے ایک لکھاری محترم نور محمد سموں سے پوچھا تو انہوں نے ایک جملے میں ساری گتھی سلجھادی۔ کہا کہ ’آپ کو اچھڑو تھر کے ٹیلے بھلے ایسے محسوس ہوں کہ یہ اونچے مقام پر ہیں، مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ان ٹیلوں کا سلسلہ سمندر اور دوسرے سرسبز علاقوں سے نیچے ہے، یہ ہی بنیادی سبب ہے کہ نارا کینال کے بائیں طرف جو اخراجی نہریں ’کاکاہو‘ اور ‘کلانکر‘ نکلتی تھیں اس سے ایک تو نارا کینال کی ریت صاف ہوجاتی اور ساتھ میں اس پانی سے جھیلوں کا ایک سلسلہ سا بن گیا جو اب بھی پانی کے زیادہ آنے سے جی اٹھتا ہے۔‘
جھیلوں کے اس سارے سلسلے کا ذکر پھر کبھی کریں گے۔ لیکن آج اس بدقسمت جھیل ’کلانکر‘ کا ذکر کرتے ہیں کہ موت جس کے کناروں میں آکر کھڑی ہوگئی ہے۔
4 ہزار مربع ایکڑ پر پھیلی یہ جھیل اب سکڑ کر ایک ہزار مربع ایکڑ سے بھی کم اراضی تک محدود ہوگئی ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ جو نیا دیکھنے والا اس جھیل کو اس حالت میں بھی پہلی بار دیکھتا ہے تو اسے جھیل کے گرد وسیع سفید ریت کے ٹیلے اور ان ٹیلوں کے بیچ میں بچھے ہوئے پانی کی نیلی چادر اچھی لگتی ہے۔
میں عمرکوٹ اور ڈھورو نارو سے ہوتا ہوا یہاں پہنچا تھا اور مجھے بھی یہ سارا منظرنامہ اچھا لگتا تھا۔ ریت کے ٹیلے پیلو، دیوی اور لئی کے درخت، بوہ (Desert Lavender) کی خوشبودار جھاڑیاں، ٹیلوں کے اوپر بنے ہوئے چونروں کے گاؤں، بکریاں چراتے بچے، سب کچھ تو خوبصورت تھا۔
میں نے جب اس سارے لینڈ اسکیپ کی تعریف کی تو رحیم ملاح جیسے کسی درد سے بلبلا اٹھا اور کہا ’کچھ بھی تو اچھا نہیں ہے سائیں۔ پانی بس نام کا رہ گیا ہے۔ ساری جھیل تو سوکھ گئی ہے۔ یہ جو پانی بچا ہے اس میں نمک زیادہ ہے۔ کتنے گاؤں تھے یہاں لیکن اب سارے شہروں کو چلے گئے ہیں۔ اب تو ایک دو گاؤں بچے ہیں یہاں بس‘۔ رحیم ملاح جس نے سر ڈھانپنے کے لیے پھیکے رنگوں والی پگڑی باندھ رکھی تھی۔چھوٹا قد، وقت سے پہلے سفید ہوتے بال اور نور کھوتی آنکھیں۔ عمر 50 سے کچھ برس ہی زیادہ ہوگی مگر لگتا ایسا تھا کہ ایک پوری صدی کی دھوپ چھاؤں اس کو روندتی نکل گئی ہے، کیونکہ تناؤ آپ کو جینے نہیں دیتا۔
’تو جب جھیل بھرتی تھی تو کتنا پانی ہوتا تھا؟‘، میں نے پوچھا
’پانی کی کیا بات کرتے ہیں سائیں۔ جھیل کے بیچ میں 4 اونٹ بھی گاڑ دو تو پتہ نہ چلے۔ کناروں کے پاس پاس بھی اتنا اتنا پانی ہوتا تھا۔‘ رحیم نے اپنے سینے پر انگوٹھا رکھ کر بتایا۔ جس سے اندازہ ہوجاتا کہ کناروں پر بھی 4 فٹ تک پانی ضرور رہا ہوگا۔
’اور بارشوں میں؟‘
’الا، الا۔ کیا دن یاد دلادیے آپ نے۔‘ رمضان نے ٹھنڈی سانس بھری اور کچھ پل خاموشی چھا گئی۔ اس نے ہاتھ میں پکڑی لکڑی سے ریتیلی زمین کو ایسے کریدا جیسے ابھی گزرا زمانہ اس کرید سے کسی چشمہ کی طرح پھوٹ پڑے گا اور ہر طرف پانی ہی پانی بھر جائے گا۔ گھاس پھوس اُگ پڑے گی۔ پرندوں کے جھنڈ آجائیں گے اور مچھلی کے جالوں میں 6، 6 فٹ کی مچھلیاں آکر پھنس جائیں گی۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہونے والا تھا کہ تمناؤں کے باغ کتنے بھی سرسبز کیوں نہ ہوں مگر ان میں میوہ نہیں لگتا۔
پھر مٹی کی کرید کو چھوڑ کر اس نے جھیل کی طرف دیکھا اور دھوپ کی وجہ سے آنکھیں میچ لیں۔ ’نارا کا پانی بس 2 ہفتے اس میں پڑے یا ایک اچھی بارش پڑجائے اور 10 دن کے بعد پھر دوسری بارش ہوجائے تو پھر جیسے بہشت یہاں اتر آتا ہے۔ ہر کوئی خوش، ہر طرف ہریالی۔ان پھیکے درختوں میں جیسے زندگی پڑجاتی ہے۔ جھیل میں پانی بھر جاتا ہے اور جہاں جال پھینکو مچھلی ہی مچھلی۔ ہم تو کہتے تھے کہ بارش میں پانی کم اور مچھلی زیادہ برستی ہے۔ ہر کوئی خوش۔ لیکن اب تو بارشوں نے بھی منہ موڑ لیا ہے۔ کہاں برستی ہیں اب بارشیں۔’ رحیم کے الفاظوں میں تمناؤں کے ساتھ محرومی کے ساتھ درد بھی بہتا تھا۔ ہم کتنی بھی کوشش کرلیں مگر اس درد کی گہرائی تک نہیں پہنچ سکتے جو دوسرے کی دل میں پنہاں ہوتی ہے۔ ہم فقط اس درد کی ہلکی آنچ ہی محسوس کرسکتے ہیں۔
انگریزوں نے جب آبپاشی پر کام شروع کیا تو وہ کمال کرگئے۔ ’جمڑاؤ ہیڈ کینال‘ پر 1894ء میں کام شروع ہوا اور بمبئی کے گورنر نے 24 نومبر 1899ء میں اس کا افتتاح کیا۔ اس وسیع اور پیچیدہ نظام میں بھی یہ خیال رکھا گیا کہ یہاں قائم جھیلوں کو پانی ملتا رہے اور ماحولیات اچھے ماحول میں پنپتی رہے۔ ’پائلر‘ (پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ، کراچی) کی ایک رپورٹ کے مطابق ’اس جھیل کو آلودگی سے بچانے کے لیے محکمہ آبپاشی اور جھیلوں کے عالمی قوانین کے مطابق کلانکر کو مقرر مقدار میں نہری پانی دینا ضروری ہے۔ جس کی مقدار ایک ماہ میں ایک ہزار کیوسک بنتی ہے، جس سے یہ جھیل آلودگی سے پاک رہ سکتی ہے۔‘
قوانین زبردست ہیں۔ مگر یہ فقط تحریروں میں اچھے لگتے ہیں۔ حقیقی دنیا میں کم سے کم ہم تو ان پر نہیں چلتے۔ آپ بدین، ٹھٹہ یا دوسری ’رامسر‘ جھیلوں کی حالت دیکھیں۔ جن کے تحفظ کے قوانین (رامسر کنوینشن) پر ہمارا ملک دستخط کرچکا ہے۔ مگر ان جھیلوں کا کوئی پُرسان حال نہیں ہے بلکہ جن حالات سے وہ جھیلیں گزر رہی ہیں اسے دیکھ کر تو لگ رہا ہے کہ اگلے 10 برس میں ان جھیلوں کا وجود تک نہیں رہے گا اور اگر حالات ایسے ہی رہے تو 10 برس کلانکر کے لیے بھی کچھ زیادہ ہیں۔ نام ہوسکتا ہے کہ رہ جائے باقی نشان بالکل بھی نہیں بچے گا۔
اس حوالے سے جب میں نے ڈھورو نارو کے نوجوان سماجی کارکن محترم طیب آریسر سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ ’ایک زمانے میں جب اس میں نارا کینال کا پانی آتا تھا تو یہاں کی مچھلیاں ڈھورو نارو شہر کی ریلوے اسٹیشن سے ملک کے دُور دراز شہروں تک جاتی تھیں۔ اس جھیل میں کڑھی (یہ مقامی طور پر لکڑیوں سے ایک گول فریم کی طرح بنتی ہے جس کے اندر جال کو باندھا جاتا ہے۔ ایک کڑھی کو ایک آدمی ہی استعمال کرکے مچھلی کا شکار کرسکتا ہے) کا شکار مشہور تھا کیونکہ لاڑ (زیریں سندھ) کی طرح یہاں جھیلوں کی بہتات نہیں ہے۔ اس لیے یہاں شکار دیکھنے کے لیے لوگ آتے تھے۔ مگر یہ سب گزرے زمانے کے قصے ہیں۔ اب مجھے تو نہیں لگتا کہ کلانکر وہ گزرے ہوئے دن پھر سے دیکھ سکے گی کیونکہ ایک تو پانی کی شدید کمی ہے اور جھیل کا جو پانی ہے وہ زمینوں کو آباد کرنے پر خرچ کیا جاتا ہے۔ باقی بارشوں کے آسروں پر جھیلیں نہیں جیا کرتیں۔ مجھے دکھ یہ ہے کہ ہمارے علاقے سے ایک خوبصورت جھیل ہمیشہ کے لیے گم ہوجائے گی۔‘
ہم مچھیروں کے ساتھ ریت کے ٹیلوں سے نیچے آئے۔ جھیلوں میں مچھلیوں اور پرندوں کے جال بچھانے اور شکار کے لیے بہت چھوٹی سی کشتیاں ہوتی ہیں جو ایک آدمی اور اس کے جال اور جال کی لکڑیوں اور کیے ہوئے شکار کے آنے جانے کے لیے ہی ہوتی ہیں۔ ہم جب جھیل کے کنارے پہنچے تو مچھیرے جھیل سے مچھلی کے جالوں سمیت لوٹ رہے تھے۔ ماہی گیروں کے چہروں سے لگتا تھا کہ ان کی محنت اکارت ہی گئی تھی کیونکہ جب جال بچھانے اور انتظار کے بعد جال میں چند مچھلیاں ہی پھنسیں تو مایوسی تو ہوتی ہے۔ پھر اندر کی ان کیفیتوں کو ہم اگر چھپانا بھی چاہیں تو چہرہ ہمارا ساتھ نہیں دیتا۔ یہ کیسا چہرہ ہوا جو ہمارے جسم کا حصہ ہے۔ ہم سب سے زیادہ اس کو ہی چاہتے ہیں، اس کی دیکھ بھال کرتے ہیں مگر وقت پر یہ ہمارا ہی ساتھ نہیں دیتا۔ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ بیوفائی کی فصل چہرے کے اندر سے ہی اگی ہوگی۔
’شکار لگا؟‘ میں نے کنارے پر لگنے والی کشتیوں والوں سے پوچھا۔
’مولا کا شکر ہے۔‘ یہ میرے سوال کا جواب تھا۔ مگر جب میں نے مچھلی کے جال دیکھے تو ’شکر‘ بس نام کا تھا۔ ہاں البتہ یہ ضرور تھا کہ دوپہر کے سالن کا بندوبست ہوگیا تھا مگر آٹے کے بغیر سالن کس کام کا؟ اور آٹا بازار سے پیسوں کے بدلے ملتا ہے۔ جسے کمانے کے لیے مچھلی کی مقدار اتنی ہونی چاہیے کہ وہ بازار تک پہنچے۔ یہ لوگ اس گلی کے مسافر ہیں جہاں راستے کے دونوں طرف، پریشانیوں، بے بسیوں اور ذہنی دباؤ کی خاردار جھاڑیاں اگتی ہیں۔ ان نوکیلے کانٹوں سے جتنا بھی دامن بچائیں مگر زخموں کا ہونا تو طے ہے۔ ایسی کیفیت میں جب آٹے کی تلوار لٹکتی ہو اور ہم ان کو کہیں کہ ’کیا آپ ہمیں جھیل کی سیر کرا سکتے ہیں ان کشتیوں پر؟‘ تو وہ اپنی ساری پریشانیاں اور تناؤ گٹھڑی میں باندھ کر ایک طرف رکھ دیتے ہیں اور آپ کے استقبال کے لیے ان کے چہرے پر معصوم سی مسکراہٹ پھیل جاتی ہے اور وہ آپ کی آؤ بھگت میں لگ جاتے ہیں۔ میں سوچتا ہوں کس مٹی سے بنے ہیں یہ لوگ؟ اتنی برداشت کہاں سے لاتے ہیں یہ؟ کیا اس مٹی کے پُتلے میں اتنی برداشت بھی ہوسکتی ہے!
جھیل کی نیلی سطح پر سفر کرتے آپ کی کیفیتوں میں تبدیلی آتی ہے۔ پانی کی سطح پر کشتی کے ہلکورے ماں کی گود جیسے لگتے ہیں۔ ایسے میں آپ کی نظر جہاں تک جاتی ہے آپ کو سب اچھا لگتا ہے۔ مگر یہاں منظرنامے میں کوئی کمی تھی۔ جس طرح ٹنڈمنڈ درخت جس کے پتے اور شاخیں کاٹ دی جاتی ہیں۔ یہاں بھی کچھ ایسا محسوس ہوتا تھا۔ پانی کی نیلی چادر تو بچھی ہوئی تھی مگر کناروں پر نہ سرکنڈے تھے، نہ گھاس پھوس، نہ جھیل کے آسمان پر کوئی پرندہ اُڑتا تھا۔ یہ کیسی جھیل تھی جس سے یہ ساری فطری حقیقتیں چھین لی گئی تھیں۔پانی گہرا اور ٹھنڈا تھا جس کی گہرائیوں میں نمک اور چونے میں جینے والی اِکا دُکا چھوٹی سے مچھلیاں تیرتی تھیں۔ ہم کوئی زیادہ دیر پانی کی سطح پر نہیں رہے کہ دیکھنے جیسا وہاں تھا کیا؟ فقط نیلا پانی۔
ہم واپس کنارے پر لوٹے تو میں نے ایک مچھیرے سائیں داد سے پوچھا ’نارا کینال سے آخری بار پانی کب چھوڑا گیا تھا اس جھیل میں؟‘
’6 برس پہلے آیا تھا پانی۔ اس کے بعد بارشوں کا پانی آتا ہے بس۔‘
’تو گزر سفر کس طرح ہوتا ہے؟‘
’لکڑیاں کاٹ کر گزارہ کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزدوری کے لیے نزدیکی زمینوں یا شہر چلے جاتے ہیں۔ بس ایسے ہی دن کٹ رہے ہیں۔‘
ان مچھیروں کے دن تو بالکل کٹ رہے ہیں اور ان کٹتے دنوں کے متعلق آپ تھوڑا تصور کریں کہ شب و روز کیسے گزرتے ہوں گے ان لوگوں کے۔ ایسی صورتحال میں اگر دبے پاؤں کوئی بیماری آ دھمکے تو کتنا تناؤ ہوگا جو خاندان کو جھیلنا پڑتا ہوگا؟
ہم جو بچوں کو خوراک دینے کے لیے سوچتے ہیں کہ بچوں کو یا ہم کو خوراک میں وٹامنس، منرلز، آئرن، کیلشیئم اور دوسرے اجزا پوری طرح مل رہے ہیں کہ نہیں۔ ہماری خوراک کے فارمولے ان بے چاروں کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہیں کہ 2 کیلے ضرور کھائیے گا کیونکہ پوٹاشیم بلڈ پریشر کے لیے بہت اچھا ہے اور ساتھ میں فائبر اور 'وٹامن بی' بھی مل جائے گا۔ مگر یہاں جھیلوں کے ان ویران کناروں پر سوچ کی اُڑان بہت مختصر ہوتی ہے کہ دوپہر کو چاول کی آدھی روٹی بچے کھا سکیں گے یا نہیں اور رات کے کھانے میں اگر آٹا ہوگا تو سالن نہیں ہوگا۔ اس لیے سُرخ مرچوں اور لہسن کو ساتھ کوٹ کر رات کو سالن سمجھ کر روٹی کے ساتھ کھالیا جائے گا۔
ہم جب واپس لوٹ رہے تھے تو گھاس پھوس کے بنے گھر اور آنگنوں میں چار دیواری نہیں تھی۔ ہمیں دیکھ کر بچے دوڑتے آئے۔ ننگے پاؤں، میلے کُچیلے کپڑے، خوراک کی کمی کی وجہ سے چہروں پر شگفتگی کا دُور تک کوئی نشان نہیں۔ نزدیک میں نہ اسکول نہ ہسپتال۔ بس ان کچے راستوں پر زندگی تمام ہوجاتی ہے۔ میں زیادہ دیر وہاں رُک نہیں سکا کہ ان بچوں کی آنکھوں میں جو بے چارگی تھی اس بے چارگی کا بوجھ مجھ سے اٹھایا نہیں گیا۔
مجھے آج تک یہ کہانی سمجھ میں نہیں آئی کہ ہم اپنی ساری قوتیں چیزوں کو بگاڑنے میں آخر کیوں لگادیتے ہیں؟ اگر ہم کچھ نیا نہیں بنا سکتے تو کم سے کم ان چیزوں کو برباد تو نہ کریں جو ہمیں قدرت نے بناکر دی ہیں۔
آپ فقط جھیلوں کے حوالے سے سوچیں کہ یہ جھیلیں فقط جھیلیں نہیں ہوتیں جہاں جنگلی حیات، سرکنڈے، گھاس پھوس پنپتی ہے بلکہ یہ ایک مکمل ایکو چین اپنا سرکل مکمل کرتی ہے اور اس کو قائم رکھنا انسان کے بہتر مستقبل کی ضمانت ہے۔ ساتھ میں ان جھیلوں پر جو ہزاروں لاکھوں خاندان آباد ہیں، جو ہزاروں برسوں سے وہاں اپنی زندگی گزار رہے ہیں، ان جھیلوں کو تحفظ فراہم کیا جانا چاہیے نہ کہ جھیلوں کو غیرآباد کرکے ان کو وہاں سے نقل مکانی کرنے پر مجبور کیا جائے۔ پھر جب وہ نقل مکانی کریں گے تو یقیناً شہروں کی طرف ہی روزگار کے لیے آئیں گے جس سے شہروں پر اضافی دباؤ بڑھے گا جو بہت سارے منفی رویوں کو جنم دے سکتا ہے۔
یہ سوچنے کی بات ہے اور اس سوچ کی بھی اشد ضرورت ہے کہ جو چیزیں جہاں بنی ہوئی ہیں ان پر تجربات کرکے ان کو برباد کرنے سے اچھا ہے کہ کو ان کو وہاں قائم رکھا جانا چاہیے بلکہ ان کو اور بہتر بنانے کے لیے کوشش کرنی چاہیے کیونکہ آنے والے دنوں کو اچھا بنانے کا اس کے سوا کوئی اور چارہ نہیں ہے!
ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (17) بند ہیں