’ادب فیسٹیول‘: ادب کی بے ادبی کا نیا طریقہ
پاکستان میں ادبی میلوں کی طویل تاریخ ہے۔ اس نوعیت کی پہلی اور باقاعدہ سرگرمی کی ابتدا 1959ء میں اس وقت ہوئی جب بابائے اردو مولوی عبدالحق کی زیرِ صدارت قائم ہونے والی ایک ادبی تنظیم ’رائٹرز گلڈ‘ نے ادبی کانفرنس کا انعقاد کیا۔ اس کے بعد پھر ایک سرکاری ادبی ادارے اکادمی ادبیات نے اس نوع کے متعدد ادبی اجلاس منعقد کیے، جن کی شروعات 1979ء میں ہوئی۔ اسی طرح ایک اور ادبی تنظیم انجمن ترقی پسند مصنفین نے بھی اپنے قیام کی گولڈن جوبلی پر 1986ء میں 3 روزہ کانفرنس کا اہتمام کیا تھا۔
بھارت کے جے پور لٹریچر فیسٹیول سے متاثر ہوکر پاکستان میں اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس، کراچی نے بھی اسی طرز پر 2010ء میں کراچی لٹریچر فیسٹیول کا آغاز کیا جبکہ کراچی آرٹس کونسل کی طرف سے عالمی اردو کانفرنس کی ابتدا ہوئی، جس کا پہلا سال 2007ء تھا۔ اس کے بعد کراچی سمیت پورے پاکستان میں یکے بعد دیگرے فیسٹیولز اور کانفرنسز کا اہتمام ہونے لگا اور یہ سلسلہ اب بھی زور و شور سے جاری ہے۔
پاکستان میں اسی سلسلے کی ایک کڑی کے طور پر، تازہ ترین ادبی سرگرمی کا نام ’ادب فیسٹیول‘ ہے۔ اس 3 روزہ ادب فیسٹیول میں واحد نئی بات اس کا کراچی میں قائم گورنر سندھ کی چار دیواری میں منعقد ہونا ہے، اس کے علاوہ اس میں کچھ ایسا نہیں تھا جو پہلے کبھی نہ ہوا ہو۔
مزے کی بات یہ کہ اس ادب فیسٹیول کے خالق بھی امینہ سیّد اور آصف فرخی ہی ہیں، جنہوں نے کراچی لٹریچر فیسٹیول کی بنیاد بھی رکھی تھی۔ امینہ سیّد اور آصف فرخی کے بارے میں 2 افواہیں خبر کی صورت گردش کررہی ہیں۔ پہلی افواہ یہ کہ امینہ سیّد ریٹائرڈ ہوچکی ہیں اور اس لیے انہوں نے اب نئے پلیٹ فارم سے نیا میلہ سجایا ہے، لیکن دوسری خبر یہ ہے کہ دونوں حضرات کو اوکسفرڈ بورڈ نے فارغ کردیا ہے اور یہ ثابت کرنے کے لیے کہ وہ دونوں ہی سب کچھ کرتے تھے، اس لیے انہوں نے یہ سب کیا، مگر میں سمجھتا ہوں کہ نئی پیکنگ میں پرانا مال بیچنے کی کوشش کی گئی ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ منتظمین نے کوئی نیا آئیڈیا لانے کی کوشش تک نہیں کی اور جے پور فیسٹیول سے متاثرہ کراچی لٹریچر فیسٹیول کی ہوبہو نقل کی۔ بتایا جارہا ہے کہ کوشش تو یہ کی گئی تھی کہ 'ادب فیسٹیول' کا نام بھی 'پاکستان لٹریچر فیسٹیول' رکھا جائے لیکن اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس، کراچی کی طرف سے قانونی چارہ جوئی کے نتیجے میں وہ نام استعمال نہ کرسکے اور انتہائی مجبوری میں انہیں اس کا نام ’ادب فیسٹیول‘ رکھنا پڑا۔
انگریزی میں لکھے ہوئے ’ادب‘ فیسٹیول میں اردو اور انگریزی میں لکھنے والے قلم کار شریک ہوئے۔ اکثریت کا تعلق پاکستان سے ہی تھا، جبکہ آٹے میں نمک کے برابر لکھنے والے غیر ملکی تھے مگر کوئی غیر ملکی ادیب شامل نہیں ہوا۔ البتہ کچھ پاکستانی قلم کار، جو بیرون ملک مقیم ہیں، انہوں نے شرکت کی مگر اکثریت نے اپنا ٹکٹ خود لیا، بالکل ویسے ہی جیسے عالمی اردو کانفرنس میں ہوتا ہے۔
اب عالم یہ ہے کہ کراچی کی ان دونوں بڑی ادبی سرگرمیوں میں یکسانیت سے ادبی حلقے اور مداح اکتائے نظر آتے ہیں۔ فلمی دنیا میں جس طرح کچھ فلمیں صرف فیسٹیولز کے لیے ہی مختص ہوجاتی ہیں، اسی طرح اب کچھ ادیب اور شاعر ان ادبی کانفرنسوں اور فیسٹیولز کے لیے ہی مختص ہوچکے ہیں۔ اب وہ چاہیں کچھ لکھیں یا نہ لکھیں، کچھ نیا تخلیق کریں یا نہ کریں، مگر وہ اس ادبی تماشے کا حصہ ضرور ہوتے ہیں۔
ادب فیسٹیول کے تخلیق کاروں میں امینہ سید کا تعلق ادب سے صرف اتنا ہی ہے کہ وہ ایک ناشر کے طور غیر ملکی ادارے سے وابستہ رہیں، جس کا کام کتابیں شائع کرنا تھا، البتہ آصف فرخی ایک ادیب اور مدرس کے طور پر بہت متحرک رہتے ہیں اور وسیع مطالعہ کے بھی حامل ہیں۔
اس میلے کے آغاز سے قبل لوگوں کا خیال تھا کہ شاید کچھ نیا دیکھنے اور سننے کو مل جائے، لیکن طویل تجربے کے باوجود ان دونوں حضرات نے بہت مایوس کیا۔ صورتحال تو کچھ ایسی تھی کہ میلے میں مقررین اور موضوعات بھی وہی گھسے پٹے تھے۔ مقررین اور مہمانوں کی بات کی جائے تو ایک بڑی تعداد کا ادب سے کوئی تعلق نہیں تھا، پھر ادب سے زیادہ سیاست اور دیگر غیر ضروری شعبہ جات کے افراد اس میلے میں زیادہ شامل دکھائی دیے۔
گورنر ہاؤس میں منعقد ہونے کے باوجود یہ ایک ایسا ادبی میلہ تھا جس میں ہر خاص و عام کو شرکت کی سہولت دستیاب تھی، لیکن اس کے باوجود تعداد حیرت انگیز حد تک کم تھی، جس سے یہ اندازہ ہوا کہ کراچی لٹریچر فیسٹیول، جس میں ایک مخصوص طبقہ شرکت کیا کرتا تھا، اس نے 'ادب فیسٹیول' سے خود کو قطع تعلق کیے رکھا۔
منتظمین کا خیال ہے کہ کروڑوں کی آبادی والے اس شہر میں ہر روز ادبی میلہ ہونا چاہیے لیکن پھر بھی نہ جانے کیوں اس میلے کی زبان ڈھائی کروڑ آبادی کی زبان نہیں رکھی جاتی۔
اس ادبی میلے میں وہی چہرے اور انہی باتوں کو دہرایا گیا جو پہلے ہی اپنی کشش کھو چکے ہیں، جنہیں سن سن کر ادبی شائقین تنگ آچکے ہیں۔ اس میلے کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ان قلم کاروں نے بھی منتظمین کے احسانوں کا بدلہ چکایا ہے جو ماضی میں ان پر کیے گئے، ورنہ جس جوش و خروش سے یہ قلم کار کراچی لٹریچر فیسٹیول میں شریک ہوتے تھے، وہ انداز یہاں ندارد تھا۔ لوگوں کی مختلف سیشنز میں شرکت کا یہ عالم تھا کہ ہر ایک سیشن میں خالی کرسیاں اکثریت میں نظر آتی رہیں۔
اس میلے میں کئی اور مسائل بھی تھے، جس میں سے ایک مسئلہ حاضرین کے لیے گاڑیوں اور موٹرسائیکل کی پارکنگ کا دُور ہونا تھا، جس کی وجہ سے کافی لوگوں کو زحمت ہوئی۔ پھر کتابوں کے جتنے اسٹال لگائے گئے، ان سب سے معاوضہ لیا گیا، حالانکہ سرکاری سرپرستی میں کتب بینی کے فروغ کی خاطر ان کتب فروشوں کو رعایت بھی دی جاسکتی تھی اور ایسا نہ ہونے پر اکثر کتب فروش نالاں دکھائی دیے، جس کا اظہار انہوں نے راقم سے بھرپور انداز میں کیا۔
افتتاحی تقریب سے لے کر تینوں دن بہت سارے سیشن وقت پر شروع نہ کیے جاسکے جبکہ دیگر کئی انتظامی امور سے متعلق شکایات بھی سننے کو ملیں۔
اس ادب فیسٹیول کے پروگراموں پر ایک طائرانہ اور تجزیاتی نظر ڈالی جائے تو اس کی ناکامی کی وجوہات سمجھ میں آتی ہیں۔ ادب کے نام پر شروع ہونے والے اس ادب فیسٹیول کی ابتدا ہی غیر ادبی ہوئی۔ افتتاحی تقریب میں خاص مہمانوں اور مرکزی خطبے دینے والوں میں کوئی بھی ادیب شریک نہیں تھا۔ منتظمین اور گورنر سندھ عمران اسماعیل کے علاوہ درج ذیل شخصیات شامل تھیں۔
- خالد محمود (دوائیں بنانے والی کمپنی کے سی ای او، جو اس ادب فیسٹیول کے بنیادی اسپانسر بھی تھے)
- کراچی میں جرمن ثقافتی مرکز گوئٹے کے ڈائریکٹر اسٹیفن ونکر
ادبی میلے کا افتتاح کرنے کے وقت کلیدی خطبہ دینے والوں میں عشرت حسین (سابق گورنر اسٹیٹ بینک)، عارفہ سیدہ زہرہ( ماہرِ تعلیم) اور سید ولی نصر (نان فکشن رائٹر) شامل تھے۔
رقص اور گانے کے علاوہ ادبی ایوارڈ میں صرف انگریزی میں لکھی گئی کتابیں نامزد ہوئی تھیں۔ پہلے دن کے سیشنز میں پاکستانی صحافی کی کتاب (نان فکشن) کی تقریب رونمائی کے علاوہ کراچی میں تجاوزات کے خلاف کارروائی، عورتوں کے حقوق اور اسلامی تاریخ کو موضوع بنایا گیا، جبکہ تیسرے دن کا آخری سیشن سیاست دانوں کی نقالی کرنے والے شفاعت علی کی پرفارمنس پر اپنے اختتام کو پہنچا۔
یہاں میں صرف ایک سیشن کا تذکرہ کروں کا جس کا عنوان ہی مضحکہ خیز تھا۔ یعنی ’عمیرہ احمد سے کون خوف زدہ؟‘ اس سیشن میں جس طرح انگریزی اور تقابلی ادب کی ایک استاد انگریزی لہجے میں غلط اردو بولتے ہوئے اردو کے قلم کاروں کو موضوع بحث بنا رہی تھی، یہ نظارہ قابل دید تھا۔
ایسے بے شمار حوالے یہاں دیے جاسکتے ہیں، مگر فی الحال ادب کے وسیع تر مفاد میں انہیں نظر انداز کردیا گیا ہے، کیونکہ ایک مخصوص طبقہ یہ بھی کہتا ہے کہ کچھ نہ ہونے سے بہتر ہے کچھ تو ہو رہا ہے۔ یہی کہتے کہتے اور یہی ہوتے ہوتے اب پاکستان میں ادب کے حالات اتنے ابتر ہوگئے ہیں کہ اتنا تو ادب تخلیق نہیں ہو رہا ہے جتنے ادب فیسٹیولز یا کانفرنسیں اس غرض سے مسلسل منعقد کی جارہی ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ رواں برس ہونے والی غلطیوں سے سیکھ کر اگلے سال ادب فیسٹیول کوئی نیا یا خالص ادب پیش کرسکے گا؟ اسی طرح کیا آئندہ مارچ میں کراچی لٹریچر فیسٹیول اپنے 10 سال پورے ہونے پر کچھ نیا پیش کرسکے گا یا نہیں؟ اگر جواب نہیں ہے تو نتیجہ آپ کے سامنے ہے، پاکستان میں لوگ اب اس لگے بندھے طریقہ کار سے تنگ آچکے ہیں۔
جس طرح کھانے کے فیسٹیول میں کتابوں کی باتیں نہیں ہوتیں، سیاسی جلسوں میں کسی ناول کے اقتباسات پڑھ کر نہیں سنائے جاتے، اسی طرح اب منتظمین کو بھی سمجھنا ہوگا کہ ادب فیسٹیول میں ادب کا ہونا کتنا ضروری ہے، ورنہ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ کراچی کے معروف صحافی اور شاعر اے ایچ خانزادہ نے اس ادب فیسٹیول کا ادبی انداز میں کچھ یوں احاطہ کیا ہے
کئی فنکار ہیں، ہے جن کی فنکاری ادب میلہ
ہمارے شہر میں برپا ہے سرکاری ادب میلہ
گورنر گھر میں بند کرکے ادب محدود کر ڈالا
کرے گا مدتوں اب گریہ و زاری ادب میلہ
بہت گستاخ ہو، منہ پھٹ بھی ہو بے ادب بھی ہو
کئی لوگوں کی ہے یہ دال ترکاری ادب میلہ
تبصرے (4) بند ہیں