عورت کے انکاری
is blog ko Hindi-Urdu mein sunne ke liye play ka button click karen [soundcloud url="http://api.soundcloud.com/tracks/101548905" params="" width=" 100%" height="166" iframe="true" /]
یہ عورت کے انکاری جو صرف عورت کے نہیں اپنے آپ اور اپنے وجود کے بھی انکاری ہیں۔ آپ کو انہیں ڈھونڈھنے یا تلاش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں پڑتی کہ اتنی تعداد میں ہیں کہ آپ ان کی سڑاند سے بھری بُو اپنے ارگرد اور اطراف میں بھی محسوس کرسکتے ہیں۔ چاہے یہ خوشبو لگاکے نکلے ہوں یا مہنگے پرفیوم میں نہا کے نکلے ہوں۔
ویسے تو پرفیوم سے نہانے کا کوئی رواج نہیں لیکن یہ اسے اس طرح استعمال کرتے ہیں کہ لگتا ہے کہ نہا لیے ہیں۔ اتنے سارے پیسے خرچ کرنے کے بعد بھی اپنی اس سڑاند سے بھری بدبو کو چھپا نہیں سکتے۔ جو ان کی چال ڈھال اور باڈی لینگویج سے بھی امڈ رہی ہوتی ہے اور ان کے جوہڑ کے کھڑے پانی کی طرح کے خیالات سے بھی ظاہر ہورہے ہوتے ہیں۔
یہ اپنی سوچ اور فکر کو بھلے ہی کتنا بھی روشن خیالی کے لُبادے اڑھالیں یا پھر تھری پیس سوٹ اور ٹائی کے ساتھ ہوں، پینٹ پھر بھی ٹخنوں سے اوپر ہی ہوگی کہ انہیں اس سے آگے کچھ اور بتایا ہی نہیں گیا۔
جاننے، سمجھنے بوجھنے اور سوچنے کے یہ ویسے بھی خلاف ہیں۔ علم، عقل اور دانش سے انہیں خدا واسطے کا بیر ہے۔ ان کی علم اور دانش کی پیاس بجھانے کے لیے تو اپنے مولوی حضرات ہیں یا پھر خودساختہ دانشور جن کی آجکل میڈیا پر حکمرانی ہے۔
یہ رنگ برنگے اور خوشبوؤں میں نہائے اور پھولوں سے کڑھے لباس پہنے دانشور حضرات جب اپنا منہ کھولتے ہیں تو علم و دانش کے دریا بہنے لگتے ہیں اور اپنی علم و دانش سے بنجر قوم جو علم کے قحط کا بھی شکار ہے۔ جس سے کتاب اور قلم تو کب کی چھین لی گئی لیکن جو تھوڑی بہت سوچنے سمجھنے اور سوال کرنے کی صلاحیت تھی اسے بھی درجہ بدرجہ ختم ہی کردیا گیا۔ اس کی پیاس ان دو چار اور وہ بھی آدھی پونی کتاب پڑھے حضرات سے ہی بجھ جاتی ہے۔ خود کبھی نا کتاب پڑھنی ہے نا پڑھنے دینی ہے، سنی سنائی پہ خود کو بھی دانشور سمجھ بیٹھتے ہیں۔
اب تو میڈیا اور سوشل میڈیا نے ان سب مسائل کا حل بھی دے دیا ہے۔ بغیر پڑھے، بغیر سمجھے جو بھی دیکھتے ہیں شیئر بھی کردیتے ہیں اور ایک ہی جملہ پڑھ کر کمینٹ کرنے کے لیے بھی تیار رہتے ہیں۔
ٹی وی چینل والے سڑک پر چلتے راہگیر کےآگے مائیک کردیتے ہیں اور وہ اپنے منہ سے جو بھی اگل دے وہ نشر بھی کردیتے ہیں۔ جہاں جہالت کا فروغ اس تندہی سے ہو رہا ہو اور علم کے دروازے دن بہ دن بند ہو رہے ہوں، یا اگر کہیں کھلے بھی ہوں تو جان بوجھ کر ایسے لوگوں کے حوالے کیے گئے ہوں جو خود زمانہ جاہلیت میں رہتے ہوں تو انہوں نے کیا تعلیم دینی ہے اور کیوں دینی ہے۔
تعلیم تواب صرف یہ دی جاتی ہے کہ آپ اس کے بدلے میں کتنا کچھ کما سکتے ہیں۔ اور اب سب کی پہلی ترجیح صرف اتنی ہے کہ کیا پڑھیں گے تو کتنا کما پائینگے اور پڑھتے بھی اتنا ہی ہیں کہ اگلی کلاس تک پہنچ جائیں۔
اس سے زیادہ تو ان کے پاس بھی فرصت نہیں۔ کیا ہوا ہے کہ کمپیوٹر سیکھ لیا ہے۔ مہنگے مہنگے موبائل لے لیے ہیں۔ خیالات تو وہی ہیں جو صدیوں پرانے ہیں اور ان پر اڑے بھی ایسے ہوئے ہیں کہ اس سے آگے بڑھنے تو کیا دیکھنے کے لیے بھی تیار نہیں۔
ان کی دوہری شخصیت اور اندر کے چھپے آدمی کو جاننا ہو تو سوشل میڈیا پر ملاحظہ فرمائیں۔ ایک طرف دین کی رسی کو بھی مظبوطی سے پکڑا ہوا ہے تو دوسری طرف ان کی مائیں بہنیں بیٹیاں جو سڑک پر اور گھر پر تو ان سےمحفوظ نہیں تھیں، اب سوشل میڈیا پر بھی محفوظ نہیں۔
قوم کی ایک بیٹی کو دنیا سےعزت کیا ملی، ان کی عزت لگتا ہے خاک میں مل گئی ہے۔ کیسی قوم ہے کہ دہشتگردوں، چوروں ، قاتلوں کو سر پر بٹھاتی ہے انہیں اپنا ہیرو مانتی ہے، ہار پہناتی ہے، پھول نچھاور کرتی ہے اور اگر دنیا کی نظروں میں کوئی اچھی بات کر کے، اچھا کام کر کے ان کا سر اونچا کرے، انہیں عزت دلائے تو وہ ان کی تعفن زدہ ذہنیت اور بدبودار الفاظ کا مستحق ٹھہرتا ہے۔
ٹی وی چینل اور میڈیا گالی گلوچ اور جھوٹ سے بھری قوم کے نام نہاد رہنماؤں کی تقریریں اور پریس کانفرنسیں تو لائیو دکھاتے ہیں۔ اگر کوئی قوم کی بیٹی تعلیم اور عورتوں کے حقوق اور اس قوم کے تعلیم سے محروم بچوں کے لیے پوری دنیا کو مخاطب کرتی ہے، وہ بھی اس اسٹیج سے جہاں ہمارے چور اچکے، لٹیرے اور ڈکٹیٹر جا کر خطاب کر آتے ہیں اور اس قوم کی نمائندگی کا فرض نبھا آتے ہیں، جو قوم نے انہیں کبھی دیا بھی نہیں۔ وہ سب ہم بڑے فخر کے ساتھ دکھاتے ہیں اور بغلیں بجاتے تھکتے نہیں۔
یہ جو نفرت اور تعفن لوگوں کے اندر سے باہر آنا شروع ہوتا ہے وہ صرف اس لیے کہ یہ ہماری آپکی بیٹی ہے۔ غلطی سے اس مملکت خدادادِ پاکستان میں عورت بن کے پیدا ہوئی ہے۔ اس کا کام تو گھر سنبھالنے کا ہے، پڑھنا، لکھنا، سوچنا تو صرف مرد کا کام ہے۔
عورت نے اگر کچھ لکھا تو مرد ادیبوں میں کھلبلی مچ جاتی ہے کہ ضرور اس کے مرد نے لکھ کر دیا ہوگا، وہ مرد اس کا باپ ہو، شوہر ہو یا کوئی یار۔ عورت ایسا کیسے لکھ سکتی ہے۔ اس کو ضرور یہ تقریر لکھ کر دی گئی ہے۔ یہ کہاں لکھ سکتی ہے؟
یہ خیالات صرف ان کے نہیں جو روشنی سے ڈرتے ہیں، جنہیں اندھیروں سے پیار ہے۔ ایسے خیالات ان کے بھی ہیں جو اپنے نام کے ساتھ ترقی پسند، لبرل اور نجانے کیا کیا لیبل لگائے پھرتے ہیں۔ سب کو یہی فکر ہے کہ اس نے فلاں کو فلاں سے کیوں ملادیا۔
ایک سولہ سال کی بچی جو یقینا ان تبصرہ نگاروں سے زیادہ کتابیں پڑھتی ہے۔ اپنے ہی جیسے نوجوانوں سے مخاطب تھی تو اس نے ایسی ہی زبان میں بات کرنی تھی۔ فلسفہ جھاڑنے کے لیے آپ لوگ کیا کم ہیں جو ایک بچی سے توقع کر رہے ہیں۔
دوسرے وہ جو کہتے ہیں کہ ملالہ نے یہ تقریر خود نہیں لکھی تھی۔ تقریر سے تقریباً ایک ہفتہ پہلے جنگ اور جیو کے جرگہ فیم صحافی (جو سابق جماعتی بھی ہیں) نے اپنے چھ جولائی کے کالم میں اپنے جیسوں کو ملالہ کو لگنے والی گولی کا قائل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے صاف صاف لکھا ہے کہ اپنے تازہ ترین دورہ لندن میں وہ ملالہ کے گھر گۓ جنہوں نے اپنی لکھی ہوئی تقریر پڑھ کر سنائی جس میں کچھ چیزوں پر انہیں اعتراض تھا.
ان کا کہنا ہے کے انہوں نے ملالہ سے کہا یہ چیزیں نکال دو یا بدل دو لیکن ملالہ نے صاف انکار کردیا اور ان کی بات نا مانی۔ لیکن اپنی قوم جسے نا پڑھنے کی عادت ہے نا ہی دوسرے پر یقین کی، ماننے کو تیّار ہے نہیں کہ ایک سولہ سال کی بچی، وہ بھی پشتون، پھر سوات کی، کیسے ایسی باتیں کرسکتی ہے!
یہ جو جان لینے والے اس کی جان لینے کے لیے بھیجے گئے تھے۔ وہ ایسے ہی نہیں بھیجے گئے ہونگے۔ انہیں تو جہاں کہیں روشنی کی ایک کرن بھی نظر آجائے اسے بجھانے پر تلے رہتے ہیں۔ اور ایسی کئی کرنیں انہوں نے بجھا بھی دیں۔ لیکن اس کرن کو خدا نے محفوظ رکھ کر صرف ملالہ پر نہیں، اس پاکستان پر، اس قوم پر اور اس سرزمین کی عورت پر مہربانی کی ہے۔ ملالہ کل کی عورت کی آواز ہے۔ جس سے اندھیروں کے پجاری پہلے بھی خوف کھاتے تھے اور اب بھی کھائینگے۔
مجھے تو ملالہ کی شکل میں پاکستان کا درخشاں مستقبل دکھائی دیتا ہے۔ مستقبل جو عورت کے ہاتھ میں ہوگا اور وہ بھی ملالہ جیسی مظبوط، سوچنے، سمجھنے اور اپنی دھرتی سے پیار کرنے والی۔ جس کو اپنے عورت ہونے پر فخر بھی ہے۔
یہ جو اپنے ذہنوں میں کچرے کا ڈھیر لیے پھرتے ہیں، ان کی اپنی بیٹیاں، بہنیں، مائیں انہیں بتائیں گی کہ مستقبل اس عورت کا ہے جسے آپ لاکھ پردوں میں چھپانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ وہ نا صرف خود چمکے گی بلکہ اس علم سے محروم رکھے گئے ملک میں علم کی روشنی پھیلاکر رہے گی!
وژیول آرٹس میں مہارت رکھنے والے خدا بخش ابڑو بنیادی طور پر ایک سماجی کارکن ہیں۔ ان کے دلچسپی کے موضوعات انسانی حقوق سے لیکر آمرانہ حکومتوں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ وہ ڈان میں بطور الیسٹریٹر فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔
تبصرے (2) بند ہیں