کراچی پریس کلب اب خطرے سے باہر ہے!
یہ کسی کی جان بچانے سے مختلف نہیں ہے۔ ایک مریض بستر پر لیٹا ہے اور اس کے گرد کھڑے ڈاکٹرز اس کی سانس بحال کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ کچھ ایسی ہی کوشش انڈوومنٹ فنڈ ٹرسٹ (ای ایف ٹی) سندھ میں موجود قدیم عمارتوں کے ثقافتی ورثے کے لیے کر رہی ہے۔
ای ایف ٹی کے نزدیک کسی بھی ثقافتی ورثے کا تحفظ اور اسے مستقبل کے لیے محفوظ بنانا بالکل زندگی اور موت کے سوال کی طرح ہے۔ اس کام کا مقصد شہر کی ثقافتی شناخت کی حفاظت کرنا اور قدیم عمارتوں کے حوالے سے لوگوں کو آگہی دینا ہے تاکہ اس ورثے کو توڑ پھوڑ اور اس پر مزید تعمیرات کی حوصلہ شکنی کی جاسکے۔
1994ء میں سندھ کی صوبائی اسمبلی سے منظور ہونے والے سندھ کلچرل ہیریٹج (پریزرویشن) ایکٹ کے تحت ابتدائی طور پر یہاں 600 عمارتوں کو ثقافتی ورثے کی یادگاریں قرار دیا گیا تھا، جس کے بعد اگلے 20 برسوں کے دوران اس میں مزید 400 قدیم یادگاروں کو بھی شامل کرلیا گیا۔
صدر میں واقع کراچی پریس کلب (کے پی سی) ایک تاریخ کی امین عمارت ہے۔ نہ صرف صحافیوں، ادیبوں اور دانشوروں کے لیے ملنے ملانے کی ایک جگہ کے طور پر بلکہ سیاہ ادوار میں مزاحمت اور آزادانہ اظہار کی جدوجہد میں مشعل راہ کے طور پر بھی۔ حتیٰ کہ جب میڈیا سرکاری و غیر سرکاری قوتوں کے نشانے پر رہا، جیسا کہ آج بھی ہے، تب صحافی رشک کے ساتھ کے پی سی کو اپنا ‘ہائیڈ پارک‘ سمجھتے ہوئے محافظ بن کر کھڑے ہوئے۔ پریس کلب کا قیام 1958ء کو عمل آیا تھا تاہم یہ عمارت اس سے کہیں زیادہ پرانی ہے۔ 1890ء کے آس پاس بننے والی یہ ممتاز عمارت کم و بیش 130 سال پرانی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ عمارت خستہ حالی کا شکار ہوتی چلی گئی۔
ابتدائی طور پر بالائی فلور کی چھت محفوظ بنانے کے لیے کلب کے سینئر ممبر اور ڈان اخبار کے سابق ایڈیٹر سلیم آصمی لکڑی کی چھت کی جگہ سیمنٹ کی چھت بنانے کی غرض سے مدد کے لیے آگے آئے۔ تاہم صرف اتنا ہی کافی نہیں تھا۔ یہ 2012ء کی بات ہے جب سابق صوبائی وزیرِ ثقافت سسی پلیجو نے پریس کلب کا دورہ کیا اور انہیں جب عمارت کی صورتحال دکھائی گئی تو انہوں نے کہا کہ، وہ اس عمارت کو پہلے جیسی شاندار حالت میں دیکھنا چاہتی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق، حکومتِ سندھ نے اس مقصد کے لیے الگ سے فنڈ مختص کیے تاہم وہ کے پی سی تک کبھی نہ پہنچ سکے۔
یہ 2013ء کی بات ہے جب پریس کلب کے اس وقت کے سیکریٹری عامر لطیف نے پوری عمارت کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا۔ ان کے مطابق دیمک زدہ دروازوں، کھڑکیوں اور فریمز، ٹوٹ پھوٹ کا شکار دیواروں پر لگے پتھر اور دن بہ دن سطح زمین میں نمکیات کی بڑھتی شرح کی وجہ سے کمزور سے کمزور تر ہوتی بنیادوں کے ساتھ یہ عمارت بربادی کے دہانے پر کھڑی ہے۔
لیکن پھر ای ایف ٹی سے تعلق رکھنے والے اور ثقافتی ورثے کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے حمید آخوند پریس کلب پہنچے اور مدد کی پیش کش کی۔ بحالی کا کام چونکہ کسی منافع کے لیے نہیں بلکہ اپنی خوشی اور اطمینان کے لیے کیا جارہا تھا اس لیے وقت بھی لگا۔ عمارت کے حوالے سے مکمل سروے اور تحقیق کے بعد 2014ء میں شروع ہونے والا کام اب تقریباً تکمیل کو پہنچ چکا ہے۔ فنشنگ ٹچز کی گنجائش کے ساتھ گزشتہ ماہ ہی اس عمارت کو پریس کلب کے نمائندگان کے حوالے کردیا گیا۔
اس کام میں صرف اینٹ، پتھر یا ٹائل کی جگہ نئی اینٹ، نیا پتھر یا نئی ٹائل لگانا مقصود نہ تھا، بلکہ چونکہ آخوند صاحب نے اس کام کی نگرانی کے لیے اپنا چیف انجینئر، پرفیکشنسٹ موہن لال اوچانی کو مقرر کیا تھا اس لیے سارا کام کچھ بہتر انداز میں، پرفیکشن اور دل و جان سے ہونا لازمی تھا۔
اگر دیوار میں لگے کسی پتھر یا فرش میں لگی کسی ٹائل کو بدلنے کی ضرورت ہوتی تو ان کی جگہ اتنے ہی مضبوط اور پرانے پتھر یا ٹائل لگائے جاتے۔ وہ کلب میں لگے پتھر کے معیار کا پتھر جھمپیر سے حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ اوچانی کہتے ہیں کہ، ’یہ عمارت ایک ثقافتی ورثہ ہے اس لیے اس عمارت میں ہونے والی ہر تبدیلی بھی اتنی ہی قدیم اور قیمتی ہونی چاہیے۔‘
عمارت میں لگی لکڑی کی کھڑکیاں اور دروازے سفید رنگ کے تھے، اور جہاں تک یہاں کے کسی بھی ممبر کو یاد پڑتا ہے، ان کا رنگ ہمیشہ سے ہی سفید تھا۔ تاہم جب لکڑی کی صفائی اور اسے دیمک سے پاک کرنا شروع کیا گیا تو بہترین معیار کی لکڑی کو پایا گیا۔ عمارت میں برما ٹیک لکڑی کا استعمال کیا گیا تھا۔ اسی لیے اس کو نیا انداز دینے کے لیے اس خوبصورت لکڑی کو پالش کروایا گیا تاکہ اس کا اصل رنگ ہی نمایاں طور پر نظر آئے۔
بحالی کے کام میں صرف عمارتی ڈھانچے کا مرمتی کام ہی شامل نہیں تھا بلکہ یہ کلب پرانی پینٹنگز اور خطاطی کی صورت میں چند بیش قیمتی آرٹ کا بھی امین ہے۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ وہ پینٹنگز گرد سے اٹی ہوئی تھیں اور چند کو فنگس لگ رہا تھا۔ لہٰذا ای ایف ٹی کے خالد سومرو اور موہٹہ پیلس میوزیم سے تعلق رکھنے والی ان کی ٹیم نے ان پینٹنگز کی بحالی میں مدد فراہم کی اور پھر ان پینٹنگز کو لکڑی کے فریم بھی لگائے۔
ای ایف ٹی نے ایک قدم آگے جاتے ہوئے پرانے فرنیچر کی بحالی کا بھی کام کیا۔ مرکزی ہال میں ٹنگی ہوئی خطاطی میں استعمال ہونے والے انڈیگو رنگ کو مدِنظر رکھتے ہوئے اندر رکھے زیادہ تر صوفوں کی نئے سرے سے مرمت کی گئی۔ صرف یہی نہیں بلکہ ٹرسٹ نے کے پی سی کو نئے ایئر کنڈیشنرز بھی فراہم کیے۔
پریس کلب کے اوپر والے فلور میں چند پرانی الماریاں بھی موجود ہیں جن میں پرانے کاغذات اور کتابیں تھیں۔ معلوم ہوا کہ یہ الماریاں بھی مضبوط ٹیک لکڑی سے بنی ہوئی ہیں، جس کے بعد اس پر کام کیا گیا اور اب یہ بھی صاف ستھری اور پالش شدہ نظر آتی ہیں۔ کتابوں سے گرد ہٹائی گئی اور انہیں مضامین کے مطابق ترتیب سے رکھا گیا ہے۔ کتابوں کی الماریوں کو دیوار سے لگانے کے بجائے انہیں آمنے سامنے اس انداز میں رکھا گیا ہے کہ اگر کوئی فرد پڑھنے کے لیے کوئی مواد تلاش کر رہا ہو تو وہ ان کے بیچ سے گزر سکے۔
لاڑکانہ، سکھر اور میرپورخاص کے سابق کمشنر اور ‘سندھ: ٹائم کپیسول آف ہیریٹیج‘ سمیت متعدد کتابوں کے مصنف مرحوم صلاح الدین قریشی کے اہل خانہ نے ان کی کتابوں کی پوری کلیکشن پریس کلب لائبریری کو عطیہ کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔
ای ایف ٹی کا کہنا ہے کہ ان کے کام سے پریس کلب کی تاریخی عمارت مزید 100 برس تک وقت کا امتحان سہہ سکتی ہے۔ اب پریس کلب انتظامیہ کے لیے عمارت کو اسی حالت میں برقرار رکھنا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ اسی وجہ سے وہ چاہتے ہیں کہ ای ایف ٹی ماہرین تواتر کے ساتھ کے پی سی کے دورے پر آتے رہیں۔
صوبے کے ثقافتی ورثے کے تحفظ کے لیے وہ آگے نہ آتے ہوتے تو ابھی تک نہ جانے اس قسم کی کتنی اہم اور قدیم عمارتیں شاپنگ پلازہ اور مالز میں بدل رہی ہوتیں۔ ان دنوں جہاں میڈیا خطرے کی زد میں ہے وہاں اب کم از کم پریس کلب کی حالت خطرے سے باہر ہے۔
یہ مضمون 27 جنوری 2019ء کو ڈان اخبار کے میگزین ای او ایس میں شائع ہوا۔
تبصرے (1) بند ہیں