منی لانڈرنگ کیس میں نامزد یو اے ای کے شہری کو تلور کے شکار کی اجازت
کراچی: وفاقی حکومت نے منی لانڈرنگ کیس میں نامزد عرب ملک سے تعلق رکھنے والے ملزم کو بین الاقوامی سطح پر نایاب قرار دیے گئے پرندے تلور کے شکار کی خصوصی اجازت دے دی۔
ذرائع کے مطابق وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے متحدہ عرب امارات کے باشندے ناصر عبداللہ پر سندھ میں مبینہ طور پر منی لانڈرنگ اسکیم میں ملوث ہونے کی تحقیقات کی جارہی ہے۔
سپریم کورٹ کے احکامات پر منی لانڈرنگ کیس میں تشکیل دی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے ناصر عبداللہ کا نام پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کے ہمراہ اس اسکینڈل میں شامل کیا تھا۔
مزید پڑھیں: بلوچستان: قطری شہزادے کو تلور کے شکار کی اجازت
ذرائع کے مطابق وزارت خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والے شکار کے اجازت نامے میں کہا گیا کہ ’حکومت نے اپنی تجویز صوبے کے متعلقہ حکام کو ارصال کردی ہے کہ ٹھٹہ ضلع (بشمول شاہ بندر تحصیل اور جنگ شاہی) کو 19-2018 کے سیزن میں تلور کے شکار کے لیے ناصر عبداللہ کو فراہم کی جائے۔
وزارت کے ڈپٹی چیف آف پروٹوکول کی جانب سے جاری ہونے والے خط کو اسلام آباد میں متحدہ عرب امارات کے سفارتخانے کو ارسال کیا گیا تاکہ اسے ناصر عبداللہ تک پہنچایا جاسکے۔
ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت خیلجی ممالک کے حکمرانوں، بادشاہوں اور ان کے اہل خانہ کے لیے تلور کے شکار کی خصوصی اجازت جاری کرتی رہی ہے۔
تاہم اس مرتبہ یہ اجازت نامہ ایسے شخص کو دیا گیا جس کے خلاف تحقیقاتی اداروں کی جانب سے منی لانڈرنگ کیس کی تحقیقات کی جارہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: تلور کا غیر قانونی شکار: 4 عرب باشندوں سمیت 8 گرفتار
ذرائع کا کہنا تھا کہ ناصر عبداللہ سمٹ بینک کے سربراہ تھے جو تحقیقاتی اداروں کے مطابق میگا منی لانڈرنگ اسکیم کا مرکز تھا۔
واضح رہے کہ سمٹ بینک سے تعلق رکھنے سابق اعلیٰ بینکر حسین لوائی پہلے ہی جیل میں ہیں۔
ذرائع کے مطابق ناصر عبداللہ شکار کے سیزن کے شروعات میں ہی متعلقہ مقام پر پہنچ جاتے ہیں تاہم اس مرتبہ وہ ابھی تک نہیں آئے تاہم ان کے مہمان شکار کے لیے پہنچ چکے ہیں۔
وائلڈ لائف کے تحفظ پر مامور جاوید مہر نے اس معاملے پر رائے دینے سے گریز کیا تاہم محکمے کے ذرائع کا کہنا تھا کہ ناصر عبداللہ نے وائلڈ لائف قوانین کی خلاف ورزی نہیں کی اور اس لیے وہ ہماری مطلوب افراد کی فہرست میں شامل نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر وہ ہمارے قوانین کی خلاف ورزی کرتے تو متعلقہ محکمہ اور ایجنسیاں ان کے خلاف کارروائی کرتیں۔
یہ خبر ڈان اخبار میں 29 جنوری 2019 کو شائع ہوئی