• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:26pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:26pm

سانحہ ساہیوال پہلا مشکوک مقابلہ نہیں، ذمہ داروں کو سزا دینا ہوگی

نقیب اللہ، انتظار احمد، مقصود، آفتاب احمد قتل اور اس طرح کےدیگر واقعات نے سیکیورٹی اہلکاروں کی کارروائیوں کو مشکوک کیا۔
شائع February 7, 2019 اپ ڈیٹ October 24, 2019

پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سیکیورٹی اداروں نے دہشت گردوں کی بیخ کنی کے لیے ناقابل فراموش کارنامے سرانجام دیئے ہیں، ان قربانیوں کی بدولت ہی ملک میں آج امن و امان کی صورتحال بہتر ہے، دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے تقریباً گزشتہ دو دہائی کے دوران 9 ہزار سے زائد سیکیورٹی اہلکاروں نے اپنی جانوں کے نذرانے دیے ہیں، اس جنگ میں 50 ہزار سے زائد شہری بھی جاں بحق ہوئے۔

سیکیورٹی اہلکاروں نے قیام امن کے لیے ملک کے ہر حصے میں مختلف کارروائیاں کیں اور ان کارروائیوں میں انہیں کامیابیاں بھی حاصل ہوئیں، مگر اس دوران کئی ایسے واقعات بھی سامنے آئے جنہوں نے سیکیورٹی اداروں کے ’مسلح مقابلوں‘ کو مشکوک بنا دیا اور ان کے کارناموں پر سوالات اٹھنے لگے۔

حال ہی میں پیش آنے والے سانحہ ساہیوال، اس سے قبل نقیب اللہ قتل، امل عمر قتل، قصور میں بچی سے زیادتی کے مبینہ ملزم کا ماورائے عدالت قتل، خروٹ آباد واقعہ، ایم کیو ایم کارکن آفتاب احمد کی زیر حراست ہلاکت، انتظار احمد اور محمد مقصود کے مبینہ ماورائے عدالت قتل کے مقدمات اور اسی طرح کے دیگر بے شمار واقعات نے مسلح مقابلوں کو مشکوک کردیا ہے جن میں سیکیورٹی ادارے یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ مارے جانے والے دہشت گرد تھے تاہم مقتولین کے ورثا کی جانب سے سامنے والی تفصیلات اس حقیقت کے بلکل برعکس تھیں۔

پاکستان میں ماورائے عدالت قتل کی ایک طویل فہرست موجود ہے، ایسے واقعات کچھ روز تک اخبارات اور ٹی وی چینلز یا سوشل میڈیا کی زینت بننے کے بعد ماضی کا حصہ بن جاتے ہیں۔



کوئی ہرجانہ امل عمر کو واپس
نہیں لا سکتا،

سابق چیف جسٹس

واضح رہے کہ حال ہی میں سامنے آنے والے سانحہ ساہیوال، جس میں پولیس نے مقابلے کے دوران 2 خواتین سمیت 4 دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا لیکن صورت حال اس سے مختلف بتائی جارہی ہے، اس جیسے دیگر واقعات، جن میں نقیب اللہ قتل و دیگر شامل ہیں، نہ صرف منظر عام پر آئے بلکہ ان کے حوالے سے حکام کی جانب سے نوٹسز بھی لیے گئے، عدالتوں میں کیسز بھی سماعت کے لیے مقرر ہوئے لیکن ۔۔۔

لیکن اس کا کوئی فائدہ نہ ہو سکا، یہاں تک کہ ان مقدمات کے حوالے سے یہ بھی نہیں کہا جاسکتا ہے کہ 'انصاف ہوتے ہوئے دکھائی دینا چاہیے' جبکہ قاتل ضمانتیں حاصل کرکے یا دباؤ کے ذریعے ورثا سے معافی حاصل کرنے کے بعد دندناتے نظر آئے، یہاں تک کے ایک کے بعد ایک سانحات سامنے آتے رہے اور نہ جانے کب تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔

ایسے واقعات کی وجوہات کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ ملک میں سیکیورٹی اداروں کے اقدامات کی نگرانی کے لیے ضابطہ اخلاق پر عمل نہ ہونے کے ساتھ ساتھ حکام کی ایسے واقعات میں لاپروائی اور قانون سازی کا فقدان بھی ایسے واقعات کے مسلسل سامنے آنے کی وجوہات میں شامل ہے۔

سانحہ ساہیوال

19 جنوری 2019 کو صوبہ پنجاب کے علاقے ساہیوال کے قریب ٹول پلازہ پر انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) اہلکاروں نے ایک آلٹو کار پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں ایک خاتون اور 13 سالہ لڑکی سمیت 4 افراد ہلاک ہوگئے، ابتدا میں ان افراد کے حوالے سے سی ٹی ڈی نے دعویٰ کیا کہ یہ اغوا کار تھے اور ان کے قبضے سے 3 مغوی بچوں کو بازیاب کرایا گیا ہے۔

بعد ازاں سی ٹی ڈی نے مقتولین کو دہشت گرد قرار دیا جبکہ حکام کے بیانات بدلتے رہے، یہاں تک ابتدا میں پولیس نے واقعہ کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کیا، جس کے بعد مقابلہ مشکوک ہوگیا، دوسری جانب واقعے میں 'بازیاب' کرائے گئے زخمی بچوں اور عینی شاہدین کے بیانات سے واقعے کے مشکوک ہونے کو مزید تقویت فراہم کی۔

سانحہ ساہیوال میں قتل کیا جانے والا جوڑا — فائل فوٹو
سانحہ ساہیوال میں قتل کیا جانے والا جوڑا — فائل فوٹو

واقعے میں زخمی ہونے والے بچوں کو، جن میں ایک بچے اور دو بچیاں شامل تھیں، کو طبی امداد کے لیے ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں انہوں نے بیان دیا کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ شادی کی ایک تقریب میں شرکت کے لیے لاہور جارہے تھے کہ اچانک ان کی گاڑی پر فائرنگ کی گئی۔

بچے نے بتایا تھا کہ کار میں مارے جانے والے افراد میں ان کے والدین، بڑی بہن اور والد کے دوست تھے، بچے نے بتایا کہ ان کے والد کا نام خلیل احمد تھا اور انہوں نے فائرنگ سے قبل اہلکاروں سے درخواست کی تھی کہ ہم سے پیسے لے لو لیکن فائرنگ نہیں کرنا لیکن اہلکاروں نے فائرنگ کر دی۔

مذکورہ واقعہ سوشل میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آیا، جو بعد میں میڈیا کی شہ سرخیوں کی زینت بنا اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی صوبائی حکومت پر تنقید کا سلسلہ شروع ہوگیا، جس پر وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے نوٹس لیا اور ان کی کی ہدایت پر پولیس نے ساہیوال میں جعلی مقابلے میں ملوث سی ٹی ڈی کے اہلکاروں کو حراست میں لے لیا تھا۔

واقعے میں ہلاک افراد کے لواحقین کی جانب سے مقتولین کو دہشت گرد قرار دیئے جانے کے بعد احجتاج کیا گیا اور ان کے مطالبے پر سی ٹی ڈی کے 16 نامعلوم اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا جبکہ حکومت کی جانب سے واقعے کی تفتیش کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بھی تشکیل دی گئی۔

واقعے کے ایک روز بعد پنجاب کے وزیر قانون راجہ بشارت نے پریس کانفرنس میں کہا کہ سی ٹی ڈی کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے کار ڈرائیور ذیشان کے دہشت گردوں سے روابط تھے اور وہ دہشت گرد تنظیم داعش کا حصہ تھے، ان کا کہنا تھا کہ سی ٹی ڈی کے موقف کے مطابق ساہیوال میں آپریشن 100 فیصد انٹیلی جنس، ٹھوس شواہد اور مکمل معلومات اور ثبوتوں کی بنیاد پر کیا گیا۔

راجہ بشارت نے کہا تھا کہ ذیشان کے کچھ عرصے سے داعش کے ایک خطرناک نیٹ ورک سے تعلقات تھے، یہ نیٹ ورک ملتان میں آئی ایس آئی کے افسران کےقتل، علی حیدر گیلانی کے اغوا اور فیصل آباد میں 2 پولیس افسران کے قتل میں ملوث تھا۔

فائرنگ کے بعد ساہیوال پولیس گاڑی کی تلاشی لے رہی ہے — فائل فوٹو
فائرنگ کے بعد ساہیوال پولیس گاڑی کی تلاشی لے رہی ہے — فائل فوٹو

وزیر قانون کے مذکورہ بیان کے بعد ذیشان کے لواحقین نے شدید احتجاج کیا اور صوبائی حکومت کی جانب سے ذیشان کو دہشت گرد قرار دیئے جانے کا بیان واپس لینے تک مقتول کی لاش کی تدفین سے انکار کردیا، ذیشان کے بھائی احتشام کا کہنا تھا کہ جب تک وزیر قانون مستعفی نہیں ہوتے میت یہیں پڑی رہے گی کیونکہ ان کا بھائی دہشت گرد نہیں تھا۔

بعد ازاں پولیس کی جانب سے ذیشان کے لواحقین سے مذاکرات کیے گئے، جس کے بعد احتجاج ختم کردیا گیا۔

آخری خبریں آنے تک جے آئی ٹی نے مذکورہ واقعے میں تفتیش کے لیے عوام سے مدد مانگی تھی جبکہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے لواحقین کے بیانات ریکارڈ کیے تھے۔

سانحہ ساہیوال پر وزیراعظم عمران خان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں کہا تھا کہ ‘سہمے ہوئے بچوں، جن کے والدین کو ان کی آنکھوں کے سامنے گولیوں سے بھون ڈالا گیا کو دیکھ کر ابھی تک صدمے میں ہوں، اپنے بچوں کے بارے میں ایسی صدمہ انگیز صورتحال کے تصور ہی سے کوئی بھی والدین پریشان ہوجائیں گے، ریاست اب ان بچوں کا ذمہ لےگی اور ان کی مکمل دیکھ بھال کرے گی’.

وزیراعظم کے اس پیغام پرجہاں سیاستدانوں اوت تجزیہ کاروں کی جانب سے تنقید کی گئی وہی عوام نے بھی اس پیغام کو تنقید کا نشانہ بنایا، جس کے بعد وزیراعظم عمران خان نے اپنے ایک اور ٹوئٹ میں کہا کہ 'ساہیوال واقعے پر عوام میں پایا جانے والا غم و غصہ بالکل جائز اور قابلِ فہم ہے، میں قوم کو یقین دلاتا ہوں کہ قطر سے واپسی پر نہ صرف یہ کہ اس واقعے کے ذمہ داروں کو عبرت ناک سزا دی جائے گی بلکہ میں پنجاب پولیس کے پورے ڈھانچے کا جائزہ لوں گا اور اس کی اصلاح کا آغاز کروں گا'۔

سانحہ ساہیوال کے بعد حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کا آغاز ہوگیا، 21 جنوری کو رکن قومی اسمبلی اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف نے ایوان زیریں میں سانحہ ساہیوال پر رد عمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ ساہیوال واقعے میں اصل دہشت گرد وہ تھے جنہوں نے خون بہایا، ان پر دہشت گردوں کی طرح مقدمہ چلایا جائے جبکہ دہشت گردی ختم کرنے والے آج خود دہشت گرد بن گئے ہیں۔

قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے ساہیوال واقعے پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ ساہیوال واقعے پر ہر آنکھ اشکبار ہے اور جس طرح اندھا دھند فائرنگ کر کے بچوں کے والد، والدہ اور بہن کو مارا گیا وہ انتہائی افسوس ناک ہے۔

ذیشان کا بھائی جو ڈولفن فورس کا اہلکار بھی ہے — فائل فوٹو
ذیشان کا بھائی جو ڈولفن فورس کا اہلکار بھی ہے — فائل فوٹو

انہوں نے کہا تھا کہ ساہیوال میں ظلم و بربریت کا پہاڑ توڑا گیا، پنجاب حکومت نے معاملے پر کئی مرتبہ قلابازیاں لگائیں اور بیانات بدلے، کہا گیا کہ گاڑی سے فائرنگ ہوئی لیکن ایسا نہیں تھا جبکہ پوری دنیا نے دیکھا کس طرح معصوم بچوں کو گاڑی سے نکال کر پولیس کی گاڑی میں بٹھایا گیا۔

جن کے بعد وزیر انسانی حقوق اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رکن شیریں مزاری نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ 'ساہیوال واقعہ قابل مذمت ہے جس کے ذمہ داروں کو سخت سے سخت سزا ملنی چاہیے، لیکن کئی دہائیوں سے مقابلے چلے آرہے ہیں، یہ روایت پچھلی حکومتوں نے ڈالی'۔

علاوہ ازیں سانحہ ساہیوال میں ماورائے عدالت قتل کیے جانے والے افراد کے لواحقین سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ میں پیش ہوئے تھے جہاں کمیٹی کے ارکان نے ان کے مطالبات سننے جبکہ لواحقین کی جانب سے سانحہ کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا گیا۔

نقیب اللہ محسود قتل کیس

13 جنوری 2018 کو صوبہ سندھ کے صوبائی دارالحکومت کراچی کے ضلع ملیر کے سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) راؤ انوار کی ٹیم نے مبینہ جعلی مقابلے میں جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ نقیب اللہ سمیت 4 افراد کو قتل کردیا تھا۔

پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ شاہ لطیف ٹاؤن کے عثمان خاص خیلی گوٹھ میں مقابلے کے دوران 4 دہشت گرد مارے گئے، جن کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تھا، ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے میڈیا کو دیئے گئے بیان میں الزام لگایا گیا تھا کہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے افراد دہشت گردی کے بڑے واقعات میں ملوث تھے اور ان کا تعلق لشکر جنگھوی اور عسکریت پسند گروپ داعش سے تھا۔

کراچی میں ماورائے قتل کیے جانے والے نقیب اللہ محسود — فائل فوٹو
کراچی میں ماورائے قتل کیے جانے والے نقیب اللہ محسود — فائل فوٹو

بعد ازاں میڈیا اور سوشل میڈیا پر نقیب اللہ کے ماورائے عدالت قتل سے متعلق معاملہ اٹھائے جانے اور محسود قبائل کے احتجاج پر 19 جنوری کو چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار نے جعلی پولیس مقابلے پر از خود نوٹس لیا تھا۔

اسی دوران راؤ انوار نے بیرون ملک جانے کی کوشش کی تاہم ان کی کوشش کو اسلام آباد ایئر پورٹ پر امیگریشن کے عملے نے ناکام بنا دیا بعد ازاں انہیں معطل کرنے کے احکامات جاری کیے گئے۔

16 فروری 2018 کو سپریم کورٹ میں نقیب اللہ کے ماورائے عدالت قتل سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کے دوران ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی حفاظتی ضمانت کے باوجود عدالت عظمیٰ میں پیش نہیں ہوئے تھے، جس پر چیف جسٹس نے راؤ انوار کو عدالتی حکم کی تعمیل نہ کرنے پر توہین عدالت کا شو کاز نوٹس جاری کرتے ہوئے خفیہ ایجنسیوں کو ان کی تلاش کا حکم دیا تھا۔

جس کے بعد مذکورہ کیس کی متعدد سماعتیں ہوئیں جن میں سپریم کورٹ نے راؤ انوار کو پولیس حکام کے سامنے پیش ہونے کا موقع بھی دیا تاہم 21 مارچ 2018 کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار عدالت عظمیٰ میں پیش ہوئے اور سماعت کے بعد انہیں گرفتار کرلیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: ڈان انویسٹی گیشن : راؤ انوار اور کراچی میں ’ماورائے عدالت قتل‘

بعد ازاں چیف جسٹس کے حکم پر راؤ انوار کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں شامل کیا گیا جبکہ انہیں اسلام آباد سے سخت سیکیورٹی میں کراچی منتقل کیا گیا، اس کے بعد کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں انہیں نقیب اللہ قتل کیس میں پیش کیا گیا، جہاں انہیں ایک ماہ کے لیے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا گیا، کیس کی متعدد سماعتوں کے بعد 21 اپریل 2018 کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ملزم راؤ انوار کو سینٹرل جیل بھیجنے کا حکم دیا تاہم عدالتی احکامات کے برخلاف ملیر کینٹ میں راؤ انوار کی رہائش گاہ کو سب جیل قرار دے دیا گیا۔

واضح رہے کہ نقیب اللہ قتل کیس میں معطل پولیس افسر راؤ انوار اور زیر حراست ان کے 11 ماتحت پولیس اہلکاروں جبکہ دیگر 15 اشتہاری پولیس افسران کے نام شامل ہیں۔

نقیب اللہ قتل کیس کی سماعت کے دوران پروسیکیوشن کے وکیل نے انسداد دہشت گردی کی عدالت میں انکشاف کیا تھا کہ استغاثہ کے گواہان کو دھمکیاں دی جارہی ہیں۔

سابق ایس ایس پی راؤ انوار — فائل فوٹو
سابق ایس ایس پی راؤ انوار — فائل فوٹو

4 جولائی 2018 کو کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے نقیب اللہ قتل کیس میں ملزمان کے وکلاء سے استفسار کیا تھا کہ کیا کمرے کے اندر سے گولیاں چلی تھیں اور مقتولین کو پیچھے سے ہی گولیاں کیوں لگیں، ’مقابلے میں ہلاک ہونے والوں کو گولیاں سامنے سے کیوں نہیں لگیں‘، اس روز بھی راؤ انوار کی عدالت آمد پر پوليس نے انہیں بھرپور پروٹوکول دیا تھا جبکہ ٹريفک آفيسر کی جانب سے ملزم کو سيليوٹ بھی کیا گیا۔

جس پر سوشل میڈیا سمیت دیگر پلیٹ فارمز پر تنقید کی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: راؤ انوار آغاز سے انجام تک!

بعد ازاں کیس کی ایک سماعت کے دوران عدالت میں راؤ انوار کی ضمانت کی زیر التوا درخواست منظور کر لی گئی تھی تاہم ان کا نام ابھی بھی ای سی ایل میں شامل ہے جس کے باعث وہ بیرون ملک سفر نہیں کرسکتے۔

16 جولائی 2018 کو نقیب اللہ قتل کیس اہم موڑ اختیار کرگیا تھا جب مقتول کے والد محمد خان نے انسداد دہشت گردی عدالت کے جج پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے مقدمے کو کسی اور عدالت منتقل کرنے کے لیے درخواست سندھ ہائیکورٹ میں جمع کرائی تھی، جس پر 5 نومبر 2018 کو نقیب اللہ قتل کیس کی سماعت کرنے والی جج پر نقیب اللہ کے والد کی عدم اعتماد کی درخواست سندھ ہائیکورٹ نے منظور کرتے ہوئے راو انوار کے خلاف کیس دوسری عدالت منتقل کرنے کا حکم دیا تھا۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت نے نقیب اللہ قیل کیس کے ملزمان راؤ انوار اور قمر احمد کی ضمانت منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا تھا، جس کے خلاف نقیب اللہ کے والد نے سندھ ہائیکورٹ میں درخواست دی تھی۔

اسی دوران 24 فروری 2018 کو خیبرپختونخوا کے علاقے ڈیرہ اسمٰعیل خان میں نقیب اللہ محسود کے قتل کے خلاف اسلام آباد میں ہونے والے محسود قبائل کے دھرنے میں متحرک نوجوان آفتاب محسود پراسرار طور پر قتل کردیئے گئے تھے، پولیس کے مطابق آفتاب محسود کی نقشبند ٹاؤن میں ایک زیرِ تعمیر گھر سے گولیوں سے چھلنی لاش برآمد کی گئی تھی۔

آفتاب محسود ڈیرہ اسمٰعیل خان کی گومل یونیورسٹی کے طالبِ علم تھا اور وہ جنوبی ویزرستان کے علاقے مکین کے رہائشی تھے۔

نقیب اللہ محسود کے دوست منال خان کو کراچی میں فائرنگ کرکے قتل کیا گیا تھا — فائل فوٹو
نقیب اللہ محسود کے دوست منال خان کو کراچی میں فائرنگ کرکے قتل کیا گیا تھا — فائل فوٹو

26 مارچ 2018 کو کراچی کے علاقے گلشن بنیر میں نقیب اللہ محسود کے نوجوان دوست منال خان کو فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا تھا، لیکن پولیس نے اس حوالے سے موقف اختیار کیا تھا کہ یہ واقعہ رقم کی لین دین سے متعلق تھا اور اس کی مزید تفصیلات سامنے نہیں آسکیں۔

علاوہ ازیں 2 جنوری 2019 کو نقیب اللہ محسود سمیت 444 افراد کے مبینہ طور پر ماورائے عدلت قتل کے الزامات میں مقدمات کا سامنا کرنے والے سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار پولیس سروسز سے ریٹائر ہوگئے۔

راؤ انوار 30 سال تک پولیس سروسز میں مختلف عہدوں پر تعینات رہنے کے بعد ریٹائر ہوئے، انہوں نے 1982 میں اسسٹنٹ سب انسپیکٹر کے عہدے پر پولیس سروسز میں شمولیت اختیار کی تھی جس کے بعد وہ مختلف اوقات میں پروموشن حاصل کرتے ہوئے سینیئر سپرنٹنڈنٹ پولیس کے عہدے پر تعینات ہوئے تھے۔

سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار انکاؤنٹر اسپیشلسٹ کے طور پر بھی جانے جاتے تھے۔

ڈان اخبار کی ایک خصوصی رپورٹ کے مطابق نقیب اللہ کے قتل تک سندھ کے نام نہاد 'انکاؤنٹر اسپیشلسٹ' نے اپنے 'کریڈٹ' پر موجود پولیس مقابلوں میں ہلاکتوں پر کبھی بھی انکوائری کا سامنا نہیں کیا تھا، پولیس کے اپنے ریکارڈ کے مطابق 2011 سے 2018 کے درمیان کم از کم 444 لوگ قتل ہوئے، مگر ایک بھی انکوائری نہیں ہوئی۔ 745 پولیس مقابلوں میں ایک بھی پولیس اہلکار زخمی تک نہیں ہوا، ہلاک ہونا تو بہت دور کی بات ہے۔

مزید پڑھیں: ’نقیب اللہ کا قتل راؤ انوار کے اعلان کے 2 گھنٹے بعد کیا گیا‘

2013 کے اواخر میں کراچی میں شروع ہونے والے رینجرز آپریشن نے راؤ انوار کے دور میں ضلع ملیر میں پولیس مقابلوں کو تیزی دی۔ پولیس کے ریکارڈ کے مطابق ملیر میں جنوری سے اکتوبر 2012 کے درمیان 195 پولیس مقابلے ہوئے جس میں 18 لوگ قتل ہوئے اور 276 گرفتار ہوئے۔ اموات اور گرفتاریوں کا تناسب، یعنی 'شرحِ قتل' 6.5 فیصد رہی۔ فروری سے جون 2013 کے درمیان شرحِ قتل 17.6 فیصد رہی۔ 2014 میں آپریشن شروع ہونے کے بعد 186 مقابلوں میں 152 لوگ ہلاک ہوئے جبکہ 192 گرفتار ہوئے، یعنی شرحِ قتل 79 فیصد رہی۔ گزشتہ سال 93 مقابلوں میں 110 اموات اور 89 گرفتاریاں ہوئیں۔ اس کا مطلب ہے کہ گرفتاریوں کی تعداد قتل سے 23 فیصد کم رہی۔ موجودہ نظامِ قانون ہمیں یہ بتانے سے قاصر ہے کہ تہ تیغ کر دیے گئے ان لوگوں میں سے نقیب اللہ کی طرح کتنے معصوم لوگ شامل تھے۔

24 جنوری کو کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے تحقیقاتی رپورٹ کی روشنی میں نقیب اللہ محسود سمیت 4 افراد کے قتل کو ماورائے عدالت قرار دیتے ہوئے ان افراد کے خلاف درج 5 مقدمات ختم کرنے کی رپورٹ منظور کی تھی اور عدالت نے نقیب اللہ سمیت 4 افراد کے خلاف پولیس مقابلے کو جعلی قرار دیتے ہوئے انہیں بے گناہ قرار دے دیا۔

انتظار احمد قتل کیس

ڈیفینس کے علاقے خیابان اتحاد میں 13 جنوری 2018 کی شب اینٹی کار لفٹنگ سیل (اے سی ایل سی) کے اہلکاروں کی جانب سے ایک گاڑی کو رکنے کا اشارہ کیا گیا تھا، جس کے نہ رکنے پر اہلکاروں نے فائرنگ کی تھی، جس کے نتیجے میں 19 سالہ نوجوان انتظار احمد جاں بحق ہوگیا تھا، مقتول ملائیشیا میں زیر تعلیم تھا اور واقعے کے وقت ان کے ساتھ ان کی خاتون دوست موجود تھیں۔

ابتدائی طور پر پولیس کی جانب سے اس واقعے کو دہشتگری کا واقعہ قرار دیا جارہا تھا، تاہم بعد ازاں درخشاں تھانے میں اس کا مقدمہ درج کیا گیا۔

اس واقعے کے بعد مقتول انتظار احمد کے والد اشتیاق احمد کی جانب سے چیف جسٹس اور آرمی چیف سے انصاف فراہم کرنے کی اپیل کی گئی تھی جبکہ وزیر اعلیٰ سندھ نے بھی واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل (اے آئی جی)، ڈی آئی جی ساؤتھ اور ایس ایس پی ساؤتھ سمیت دیگر پولیس حکام کو طلب کیا تھا جبکہ ملوث اہلکاروں کی گرفتاری کا حکم دیا تھا۔

14 جنوری کو اس کیس میں 6 اے سی ایل سی اہلکاروں کو حراست میں لیا گیا، جس میں 2 انسپکٹر، 2 ہیڈ کانسٹیبل اور 2 افسران بھی شامل تھے۔

دوسری روز ملزمان کو کراچی کی مقامی عدالت میں پیش کیا گیا تھا جہاں عدالت نے ملزمان کو 7 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا تھا، بعد ازاں انتظار احمد کی پوسٹ مارٹم رپورٹ بھی سامنے آئی تھی، جس میں معلوم ہوا تھا کہ نوجوان کی ہلاکت صرف ایک گولی لگنے سے ہوئی۔

رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اے سی ایل سی اہلکاروں نے انتظار پر 17 سے زائد گولیاں چلائیں جبکہ مقتول انتظار کو سیدھے کان کے پیچھے ایک گولی لگی جو اس کے سر سے آر پار ہوگئی تھی جس کے بعد وہ موقع پر ہی دم توڑ گیا تھا، علاوہ ازیں مقتول انتظار کی ابتدائی فارنزک رپورٹ جاری کی گئی تھی، جس کے مطابق انتظار پر 2 پستول سے 18 گولیاں فائر کی گئیں تھیں۔

ماورائے عدالت قتل کیے جانے والے انتظار احمد — فائل فوٹو
ماورائے عدالت قتل کیے جانے والے انتظار احمد — فائل فوٹو

16 جنوری کو انتظار احمد کے والد اشتیاق احمد نے پولیس کی تفتیش پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کیس کی عدالتی تحقیقات کروانے کا مطالبہ کیا تھا جبکہ دوسری روز کراچی کی مقامی عدالت نے انتظار احمد قتل کیس میں مفرور ملزم طارق رحیم کی درخواست ضمانت 23 جنوری تک 5 لاکھ روپے کے مچلکے کے عوض منظور کرلی تھی۔

جس پر انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ پولیس اے ڈی خواجہ کی جانب سے انسداد دہشت گردی ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کو معاملے کی تحقیقات کا ٹاسک دیا گیا تھا۔

انتظار احمد قتل کیس میں 8 ملزمان گرفتار کیا گیا تھا، جس میں ایس ایچ او طارق محمود، غلام عباس، اظہر احسن، فواد خان، دانیال، بلال، شاہد و دیگر شامل تھے، جن میں ملزم دانیال اور بلال ایس ایس پی اینٹی کار لفٹنگ سیل (اے سی ایل سی) کے محافظ بھی ہیں۔

بعد ازاں ڈپٹی انسپیکٹر جنرل (ڈی آئی جی) انسداد دہشت گردی ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) عامر فاروقی نے انتظار قتل کیس کے معاملے کو پولیس کی ناکامی قرار دیتے ہوئے معاملے پر جے آئی ٹی تشکیل دینے کی سفارش کی تھی اور آگلے ہی روز انتظار احمد قتل کیس میں بنائی جانے والی جے آئی ٹی کے پہلے اجلاس میں مقتول کے والد اشتیاق جبکہ عینی شاہد مدیحہ کیانی اور سابق ایس ایس پی مقدس حیدر بیان ریکارڈ کرایا تھا۔



معذرت چاہتا ہوں کہ امل عمر کے
معاملے کو ختم نہیں کرسکا،

سابق چیف جسٹس

انتظار کے قتل کیس کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی جے آئی ٹی میں انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی)، ملٹری انٹیلیجنس (ایم آئی)، انٹیلی جنس بیورو(آئی بی)، رینجرز اور اسپیشل برانچ کے افسران شامل تھے۔

فروری میں انتظار احمد قتل کیس کے معاملے کی تحقیق کرنے والوں کا کہنا تھا کہ انتظار کے قتل میں کوئی مجرمانہ سازش نہیں تھی اور سینئر پولیس افسر مقدس حیدر کے قتل کے پیچھے ملوث ہونے کے ثبوت بھی نہیں ملے، تاہم یہ واقعہ ایک غلطی سے زیادہ ہے۔

اس واقعے میں اے سی ایل سی کے سابق ایس ایس پی مقدس حیدر کے کردار کے حوالے سے ڈی آئی جی سی ٹی ڈی کا کہنا تھا کہ انتظار کے والد سمیت کسی بھی دیگر ذرائع سے مقدس حیدر کے قتل میں ملوث ہونے کے کوئی ثبوت نہیں ملے۔

اسی ماہ انتظار احمد کے قتل کیس کی ایک اہم گواہ مدیحہ کیانی نے بیان دیا تھا کہ انتظار کو ایک منصوبہ بندی کے تحت قتل کیا گیا، مدیحہ کیانی، انتظار احمد کے قتل کے بعد پہلی مرتبہ ان گھر پہنچی تھیں، جہاں انہوں نے مقتول کے والد اشتیاق احمد سے ملاقات کی اور انہیں واقعے کے بارے میں بتایا۔

یکم اپریل کو کراچی کی عدالت میں پولیس کی جانب سے انتظار قتل کیس کا عبوری چالان جمع کرایا گیا تھا جس میں ایس ایس پی مقدس حیدر کو کلئیر قرار دے دیا تھا۔

بعد ازاں اپریل ہی میں انتظار احمد کے کیس کی تفتیس کرنے والی جے آئی ٹی نے واقعے میں ملوث تمام 8 پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی سفارش کی تھی۔

محمد مقصود قتل کیس

صوبہ سندھ کے کاروباری مرکز کراچی میں شہریوں سے لوٹ مار کے واقعات اکثر رونما ہوتے رہتے ہیں، اور ساتھ ہی ان افراد کو پکڑ کر قانون کے کٹہرے میں لانے کے لیے قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی ہر وقت سرگرم نظر آتے ہیں۔

جنوری 2018 میں شارع فیصل میں پولیس کی جانب سے مبینہ مقابلے کے دوران محمد مقصود نامی فرد قتل کردیا گیا تھا تاہم پولیس نے ابتدائی طور پر دعویٰ کیا تھا کہ پولیس کی وردی میں 3 مبینہ ملزمان ایک کار میں سوار تھے۔

شارع فیصل میں جہاں پر محمد مقصود کو قتل کیا گیا تھا وہاں پر لوٹ مار کی بڑھتی ہوائی وارداتوں کے بعد پولیس کو تعینات کیا گیا تھا، پولیس نے اپنے ابتدائی طور پر موقف اختیار کیا تھا کہ معمول کے گشت پر موجود اہلکاروں نے صبح مشتبہ گاڑی کو روکا تو گاڑی میں سوار ملزمان نے پولیس پر فائرنگ شروع کردی، جس کے بعد پولیس کی جانب سے جوابی فائرنگ میں چاروں مبینہ ملزمان کو زخمی حالت میں گرفتار کیا گیا۔

پولیس کے مطابق شہریوں سے لوٹ مار میں ملوث گرفتار ملزمان کی شناخت عبدالرؤف، بابر اور علی کے نام سے کی گئی جبکہ پولیس کی جانب سے فائرنگ کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے ملزم کا نام محمد مقصود ہے۔

دوسری جانب محمد مقصود کی بہنوں نے پولیس کے موقف پر عدم اطمینان کرتے ہوئے اکلوتے بھائی کے قتل کا الزام پولیس پر عائد کیا تھا۔

واضح رہے کہ جنوری 2018 میں کراچی میں ماورائے عدالت قتل کے 3 بڑے واقعات پیش آئے تھا جن میں پولیس کے مبینہ مقابلے میں محمد مقصود کے علاوہ نقیب اللہ محسود اور نوجوان طالب علم انتظار احمد کا قتل بھی شامل تھا۔

بعد ازاں محمد مقصود کے قتل کا مقدمہ درج کیا گیا جس میں 4 پولیس اہلکاروں کو نامزد کیا گیا، پولیس حکام نے بتایا تھا کہ شارع فیصل پولیس نے تعزیرات پاکستان کے سیکشن 302 اور 34 کے تحت محمد مقصود کے قتل کی ایف آئی آر پولیس پوسٹ کے انچارج اور دیگر 3 اہلکاروں کے خلاف درج کرادی۔

علاوہ ازیں اس کیس میں مزید پیش رفت سامنے نہیں آئی۔

امل عمر قتل کیس

کراچی کے علاقے ڈیفنس میں اگست 2018 میں پولیس اور ڈکیتوں کے درمیان ہونے والے مبینہ پولیس مقابلے کے دوران امل عمر نامی 10 سالہ لڑکی گولی لگنے سے جاں بحق ہوگئی تھی، بعد ازاں ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) ساؤتھ جاوید عالم اوڈھو نے اعتراف کیا تھا کہ امل عمر کو لگنے والی گولی پولیس اہلکار کی جانب سے فائر کی گئی تھی۔

امل عمر کو گولی لگنے کے بعد ان کے والدین نے انہیں زخمی حالت میں نیشنل میڈیکل سینٹر (این ایم سی) منتقل کیا جہاں طبی امداد دینے سے انکار کیا گیا جس کے بعد وہ دم توڑ گئیں۔

مقتولہ کی والدہ بینش عمر نے بتایا تھا کہ ہسپتال انتظامیہ نے انہیں بچی کو جناح ہسپتال یا آغا خان ہستپال منتقل کرنے کو کہا تھا اور این ایم سی نے امل کو منتقل کرنے کے لیے ایمبولینس دینے سے بھی انکار کردیا تھا حالانکہ بچی کے سر پر زخم تھے۔

اس واقعے کے بعد چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے مبینہ پولیس مقابلے کے دوران گولی لگنے سے جاں بحق ہونے والی 10 سالہ امل عمر کے واقعے کا ازخود نوٹس لیا تھا۔

ازخود نوٹس کی سماعت کی پہلی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ نجی ہسپتالوں کے لیے بھی کوئی ایس او پی ہونا چاہیے، کوئی ہرجانہ بچی کو واپس نہیں لا سکتا، ایسا لگا جیسے ہماری بچی ہم سے جدا ہوگئی، ایک بچی چلی گئی لیکن باقی بچیاں تو بچ جائیں۔

بعد ازاں چیف جسٹس نے امل کیس میں ذمہ داران کا تعین کرنے کے لیے 2 رکنی خصوصی کمیٹی کا کہا تھا اور اس سلسلے میں سفارشات پیش کرنے کی ہدایت کی تھیں۔

17 جنوری 2019 کو ریٹائرمنٹ سے قبل چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے امل عمر کی ہلاکت پر لیے گئے ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران مقتولہ کے والدین کو مخاطب کر کے ریمارکس دیے تھے کہ معذرت چاہتا ہوں کہ اس معاملے کو ختم نہیں کرسکا۔

اسی روز عدالت عظمیٰ میں پیش کی گئی کمیٹی کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ نیشنل میڈیکل سینٹر نے اپنی غلطی تسلیم کرنے سے انکار کیا، ہسپتال نے زخمی امل عمر کو ہسپتال سے منتقلی کے لیے بنیادی سہولت فراہم نہیں کی تھی جبکہ ہسپتال انتظامیہ نے کمیٹی کے سامنے بھی جھوٹ بولا اور بچی کی موت کی تاریخ اور وقت بھی تبدیل کیا تاکہ یہ بات ثابت ہوجائے کہ بچی ہسپتال پہنچنے سے قبل دم توڑ چکی تھی۔

سرفراز شاہ قتل

جون 2011 میں کراچی کے علاقے بوٹ بیسن میں واقع شہید بینظیر بھٹو پارک میں رینجرز اہلکاروں کی جانب سے 22 سالہ نوجوان سرفراز شاہ کو گولی مار کر قتل کیا گیا تھا۔

مذکورہ واقعے کی ویڈیو بھی منظر عام پر آنے کے بعد ٹی وی چینلز پر چلائی گئی تھی اور رینجرز اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ سامنے آیا تھا جس کے بعد نہ صرف رینجرز اہلکاروں کو گرفتار کیا گیا بلکہ انہیں سزائیں بھی سنائی گئیں۔

یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ مذکورہ ویڈیو نجی چینل کے کیمرا مین عبدالسلام سومرو نے بنائی تھی تاہم ان کے چینل نے یہ ویڈیو نشر کرنے سے انکار کردیا تھا جس کے بعد کیمرا مین نے وہ ویڈیو ایک اور نجی چینل کو فراہم کی جسے آن ایئر کردیا گیا جس کے بعد دیگر چینلز نے بھی مذکورہ ویڈیو نشر کردی، لیکن اس واقعے کے منظر عام پر آنے کے بعد کیمرا مین کو ہراساں کیا گیا جس کے بعد وہ اپنے خاندان کے ساتھ کراچی چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔

ابتدا میں رینجرز نے سرفراز شاہ پر ڈکیتی کا الزام عائد کیا تھا — فائل فوٹو
ابتدا میں رینجرز نے سرفراز شاہ پر ڈکیتی کا الزام عائد کیا تھا — فائل فوٹو

سرفراز شاہ کی رینجرز اہلکاروں کے ہاتھوں قتل کے بعد عوام میں شدید غم و غصہ پیدا ہوا جس کے بعد اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے معاملے پر از خود نوٹس لیا، سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں اس وقت کے رینجرز کے سربراہ اور سندھ پولیس کے آئی جی کو معطل کردیا گیا تھا۔

دوسری جانب رینجرز کی جانب سے واقعے کے فوری بعد مقتول سرفراز شاہ پر الزام لگایا گیا تھا کہ وہ ڈکیتی میں ملوث تھا جسے رینجرز اہلکاروں کی گولی لگی لیکن مقتول کے بھائی سالک شاہ نے رینجرز کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے واقعے کو ماورائے عدالت قتل قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ ان کے بے گناہ بھائی کو قتل کیا گیا ہے۔

جس کے بعد ٹرائل کورٹ نے انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے سیکشن 7 اور تعزیرات پاکستان (پی پی سی) کے سکیشن 302 کے تحت واقعے کے ذمہ دار رینجرز اہلکار شاہد ظفر کو سزائے موت جبکہ اس موقع پر موجود دیگر 5 رینجرز اہلکاروں، محمد افضل، بہاالرحمٰن، منٹھار علی، محمد طارق اور افسر خان، کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

مجرموں نے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ سندھ ہائی کورٹ اور بعد ازاں سپریم کورٹ میں بھی چیلنج کیا تھا، جس پر عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ نے سزاؤں کو برقرار رکھا۔

اسی دوران 2013 میں کراچی کے علاقے گلستان جوہر میں رینجرز اہلکار کی جانب سے ایک ٹیکسی ڈرائیور کو رکنے کا اشارہ کرنے کے باوجود آگے نکلنے پر فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا تاہم اس کی مزید تحقیقات سامنے نہیں آسکیں۔

8 جنوری 2018 کو رینجرز اہلکاروں کو عام معافی دینے کے لیے سندھ حکومت کی جانب سے صدر ملکت کو درخواست بھجوائی گئی تھی، سندھ کے وزارت داخلہ کے عہدیداروں اور انسپکٹر جنرل جیل خانہ کے عہدیدار کے مطابق 'پاکستان کے آئین کی شق 45 کے تحت رینجرز اہلکاروں کی سزا کو معاف کرنے کے لیے درخواست' صدر کو بھیج دی گئی۔

10 جنوری 2018 کو سینیٹ کی انسانی حقوق کی کمیٹی نے کراچی میں نوجوان کو قتل کرنے والے سزا یافتہ رینجرز اہلکاروں کی صدارتی معافی کی مخالفت کی تھی۔

واضح رہے کہ میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آنے والی متعدد رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سرفراز شاہ قتل کے مجرموں کو صدر نے معاف کردیا ہے تاہم صدارتی دفتر نے اس کی تردید یا تصدیق نہیں کی۔

خروٹ آباد واقعہ

17 مئی 2011 کو صوبہ بلوچستان کے علاقے خروٹ آباد میں سیکیورٹی فورسز اور پولیس نے اسلحے اور خودکش جیکٹ کے الزام کے تحت 3 خواتین سمیت 5 چیچن باشندوں پر اندھا دھند فائرنگ کرکے انہیں ہلاک کردیا تھا۔

خروٹ آباد کے حوالے سے سیکیورٹی فورسز نے دعویٰ کیا تھا کہ ہلاک ہونے والے پانچوں افراد چیچن دہشت گرد تھے جو ایئرپورٹ کے قریب سیکیورٹی چیک پوسٹ کو نشانہ بنانا چاہتے تھے۔

بعد ازاں اس واقعے کی میڈیا رپورٹس اور فوٹیج سامنے کے بعد حکومتِ بلوچستان نے واقعے کی چھان بین کی اور اس وقت کے وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی نے تحقیقات کا حکم دے دیا اور واقعے پر عدالتی کمیشن تشکیل دیا گیا، جس کی سربراہی بلوچستان ہائیکورٹ کے جسٹس ہاشم کاکڑ کے ذمے تھی۔

خروٹ آباد واقعے میں سیکیورٹی اداروں کی گولیوں کا نشانہ بننے والی خاتون ہاتھ بلند کررہی ہیں — فائل فوٹو
خروٹ آباد واقعے میں سیکیورٹی اداروں کی گولیوں کا نشانہ بننے والی خاتون ہاتھ بلند کررہی ہیں — فائل فوٹو

اس کے علاوہ بھی مذکورہ واقعے کی متعدد اعلیٰ سطح کی تحقیقات کرائی گئیں جبکہ جسٹس ہاشم خان کاکڑ کی جانب سے کی جانے والی عدالتی تحقیقات میں کوئٹہ کیپٹل سٹی پولیس آفیسر داود جنیجو، ایف سی کرنل فیصل شہزاد، ایس ایچ او فضل الرحمٰن کاکڑ اور سب انسپکٹر رضا خان کو ذمہ دار قرار دیا گیا تھا۔

لیکن اس واقعے میں بھی دیگر واقعات کی طرح ملوث ملزمان کو سزا نہیں دی جاسکی تھی تاہم دسمبر 2011 میں خروٹ آباد کے واقعے کے مقتولین کی لاشوں کا پوسٹ مارٹم کرنے والے پولیس سرجن ڈاکٹر سید باقر شاہ کو نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے قتل کردیا، بعد ازاں 30 اگست 2013 کو اے ایس آئی رضا خان کو کوئٹہ میں ان کے گھر کے قریب نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے قتل کیا۔

بعد ازاں 21 جنوری 2019 کو صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے علاقے مسجد روڈ پر نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ سے سابق ایس ایچ او ایئر پورٹ روڈ، فضل الرحمٰن کاکڑ جاں بحق ہوگئے تھے۔

زیر حراست ایم کیو ایم کارکن آفتاب احمد کی موت

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے سابق ڈپٹی کنوینئر ڈاکٹر فاروق ستار کے کورآڈینیٹر 42 سالہ آفتاب احمد 3 مئی 2016 کو رینجرز کی حراست میں ہلاک ہوگئے تھے، آفتاب احمد کو 4 روز قبل رینجرز نے حراست میں لیا تھا اور انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کرکے دہشت گردی کے الزامات کے تحت 90 روز کا ریمانڈ حاصل کیا تھا۔

ریمانڈ حاصل کیے جانے کے ایک روز بعد ہی صبح سویرے آفتاب احمد کو کراچی کے جناح ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ دوران علاج انتقال کرگئے، ایم کیو ایم نے دعویٰ کیا تھا کہ آفتاب احمد رینجرز کی حراست میں ہلاک ہوئے جبکہ رینجرز کا موقف تھا کہ انہیں سینے میں تکلیف کے بعد ہسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں وہ دوران علاج چل بسے۔

بعد ازاں منظر عام پر آنے والی آفتاب احمد کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں متحدہ کارکن پر تشدد کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا گیا تھا کہ مقتول کے جسم کے 35 سے 40 فیصد حصے پر زخموں کے نشانات موجود ہیں، جبکہ آفتاب احمد کے الٹے پاؤں کا ناخن بھی آدھا اکھڑا ہوا تھا جبکہ جسم کے مختلف حصوں پر خراشیں اور نیل کے نشانات پائے گئے تھے۔

سندھ رینجرز کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل بلال اکبر نے ایم کیو ایم کارکن پر دوران حراست تشدد کا اعتراف کرتے ہوئے موت کے محرکات کا جائزہ لینے کے لیے اعلیٰ سطح کی کمیٹی قائم کی تھی جبکہ رینجرز کی جانب سے یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ واقعہ میں ممکنہ طور پر ملوث اہلکاروں کو معطل کر دیا گیا ہے تاہم ان کی تعداد نہیں بتائی گئی تھی۔

ایم کیو ایم کارکن آفتاب احمد — فائل فوٹو
ایم کیو ایم کارکن آفتاب احمد — فائل فوٹو

علاوہ ازیں سوشل میڈیا پر ایم کیو ایم کے مقتول کارکن آفتاب احمد کی زیر گردش مبینہ تصاویر اور ویڈیوز سامنے آئی تھیں، جن میں ان کے جسم پر تشدد کے نشانات دیکھے جاسکتے تھے، آفتاب احمد کی ہلاکت کے خلاف ایم کیو ایم کی جانب سے یوم سوگ بھی منایا گیا تھا۔

ادھر ایم کیو ایم کے کارکن پر رینجرز کی حراست میں تشدد اور بعد ازاں ہسپتال میں ہلاکت پر اس وقت کے پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے تحقیقات کے احکامات جاری کیے تھے، پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیے میں بتایا گیا تھا کہ چیف آف آرمی اسٹاف نے کراچی میں آفتاب احمد کی ہلاکت کے کیس کی تحقیقات کا حکم دیا ہے تاکہ حقائق سامنے آ سکیں اور ان کی جانب سے ہدایت کی گئی ہے کہ انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں۔

5 مئی 2016 کو رینجرز کی حراست میں ہلاک ہونے والے آفتاب احمد کی میت وصول کرنے کے بعد ان کی والدہ سلیمہ بی بی کا کہنا تھا کہ وہ اپنے چھوٹے بیٹے کی ہلاکت پر انصاف کی اپیل نہیں کریں گی بلکہ ان کا حکام سے مطالبہ ہے کہ جن لوگوں نے ان کے بیٹے کے ساتھ یہ کیا ہے ان کے ساتھ بھی بالکل ویسا ہی سلوک کیا جائے، ان کا مزید کہنا تھا کہ 'میرے بیٹے کو بغیر کسی وجہ کے ہلاک کیا گیا، میرے پاس اس کے بچوں کے سوالوں کا کوئی جواب نہیں، جس نے یہ سب کیا ہے اس کے ساتھ بھی بالکل اسی طرح کا سلوک کیا جانا چاہیے'۔

آفتاب احمد 4 بہن بھائیوں (2 بھائی اور 2 بہنوں) میں سب سے چھوٹے تھے، جو شادی شدہ اور 5 بچوں کے والد تھے۔

اسی روز پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پ) کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے ایم کیو ایم کے کارکن اور رہنما فاروق ستار کے کوآرڈینیٹر آفتاب احمد کے زیر حراست قتل پر سینیٹ میں تحریک التوا جمع کرائی تھی۔

10 مئی 2016 کو ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) رینجرز میجر جنرل بلال اکبر نے بتایا تھا کہ ایم کیو ایم کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر فاروق ستار کے کوآرڈینیٹر آفتاب احمد کی دوران حراست ہلاکت تحقیقات کے سلسلے میں 5 رینجرز کے اہلکاروں کو معطل کرکے حراست میں لے لیا گیا۔

دوسری جانب متحدہ رابطہ کمیٹی نے رینجرز اہلکاروں کو حراست میں لیے جانے اور ان کے خلاف کارروائی کو خوش آئند قرار دیا تھا۔

مدثر قتل کیس

صوبہ پنجاب کے علاقے قصور سے تعلق رکھنے والے مدثر نامی شخص کو ایمان فاطمہ زیادتی و قتل کیس میں پولیس نے گرفتار کیا تھا جنہیں چند گھنٹے بعد بغیر ڈی این ٹیسٹ کروائے ماورائے عدالت قتل کر دیا گیا تھا بعد ازاں ماورائے عدالت قتل کیے جانے والا شخص مدثر کو فرانزک رپورٹ نے بے گناہ ثابت کردیا تھا۔

فرانزک رپورٹ کے مطابق ایمان فاطمہ کا اصل قاتل زینب قتل کیس میں پکڑا جانے والا سیریل کلر عمران تھا جسے بعد میں سزائے موت دے دی گئی تھی۔



*امل عمر قتل کیس*

ایسا لگا جیسے ہماری بچی ہم سے جدا ہوگئی،

سابق چیف جسٹس

علاوہ ازیں قصور جعلی پولیس مقابلے میں مدثر کی ہلاکت پر سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا تھا اور مذکورہ کیس کی ایک سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ایڈیشنل آئی جی پنجاب کو بحال کرنے کا حکم جاری کیا تھا، اس کے بعد چیف جسٹس نے متعلقہ عدالتوں کو کیس سے متعلق زیر التواء مقدمات 2 دن میں نمٹانے کا حکم جاری کیا تھا۔

مارچ 2018 میں لاہور ہائیکورٹ نے قصور کی 5 سالہ بچی کے ریپ اور قتل کے واقعے پر جعلی پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والے مدثر کے بھائیوں کو مبینہ طور پر حراست میں لیے جانے کے معاملے پر سماعت کرتے ہوئے پولیس کے انکار کے بعد کیس نمٹا دیا تھا۔

30 جنوری 2018 کو ماورائے عدالت قتل کیے گئے نوجوان مدثر کے معاملے کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی ہدایت پر پولیس نے اپنے 5 ساتھیوں کو گرفتار کرلیا۔

خیال رہے کہ مدثر کے قتل کے بعد ان کی بیوہ، 2 سالہ بچے سمیت تمام اہل خانہ کو علی پارک کے علاقے سے 30 کلو میٹر دور منڈی عثمان والا منتقل ہونا پڑا تھا کیونکہ اس علاقے کے رہائشیوں نے ان کا سماجی بائیکاٹ کردیا تھا۔

تاہم مذکورہ کیس میں بھی کوئی خاص پیش رفت سامنے نہیں آسکی۔

ماورائے عدالت قتل کے دیگر مقدمات

اس سے قبل 2009 میں خیبرپختونخوا کے علاقے سوات میں ماورائے عدالت قتل کا ایک واقعہ میڈیا کی شہ سرخیوں کی زینت بنا تھا، اس واقعے کے حوالے سے سیکیورٹی فورسز پر الزام لگایا گیا تھا کہ علاقے میں اہلکاروں کی جانب سے دہشت گردوں کے عزیزوں کو گرفتار کرکے ماورائے عدالت قتل کیا گیا، مقتولین کی تعداد 15 بتائی گئی تھی جن کی لاشیں سڑک کنارے پھینکی گئی تھیں بعد ازاں اس واقعے کی ویڈیو کے منظر عام پر آنے کا دعویٰ بھی سامنے آیا تھا جبکہ واقعے کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا۔

مذکورہ واقعات کے علاوہ کراچی میں موسیٰ نامی شخص کا ماورائے عدالت قتل، اسلام آباد پولیس کے ہاتھوں نوجوان کا قتل، اسلام آباد ہی میں عنایت شاہ کا ماورائے عدالت قتل، راولپنڈی میں پولیس کی حراست میں 19 سالہ نوجوان ریحان کی ہلاکت، کراچی میں پولیس اہلکار کے ہوائی فائر لگنے سے 7 سالہ بچی کی ہلاکت، کراچی میں منشیات فروشوں سے پولیس کے مقابلے کے دوران 14 سالہ لڑکے کی ہلاکت، چترال کی مسجد کے باہر مبینہ طور پر پولیس اہلکار کے تشدد سے ایک نامعلوم شخص کی ہلاک کے علاوہ لاہور اور کراچی میں دوران حراست پولیس کے تشدد سے ہلاک ہونے والے 2 نوجوانوں کے مقدمات بھی تاحال تعطل کا شکار ہیں اور مقتولین کے ورثا تاحال انصاف کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔

ماورائے عدالت قتل کے مقدمات جہاں نہ صرف حکام کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو وہیں ورثا کے لیے انصاف کا حصول مشکل سے مشکل تر ہوتا دکھائی دیتا ہے، بہت سے واقعات میں تو ایسا بھی ہوا کہ حکام یا قاتلوں کی جانب سے ورثا پر صلح یا کیس واپس لینے کے لیے دباؤ بھی ڈالا گیا اور ورثا کے پاس مذکورہ مقدمات کو واپس کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔