ڈی ایچ اے والوں کا بس چلے تو سمندر میں شہر بنا لیں، جسٹس گلزار
سپریم کورٹ نے کراچی میں رہائشی پلاٹس کی کمرشل سرگرمیوں میں منتقلی اور تجاوزات سے متعلق کیس میں سندھ حکومت کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ کابینہ کا اجلاس بلائیں اور کراچی کو اصل ماسٹر پلان کے تحت بحال کرنے کا فیصلہ کیا جائے۔
ساتھ ہی عدالت نے سماعت کے دوران ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ڈی ایچ اے والوں کا بس چلے تو یہ سمندر میں بھی شہر بنا لیں۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں بینچ نے رہائشی پلاٹس کو کمرشل میں تبدیل کرنے، غیر قانونی الاٹمنٹ اور تجاوزات کے خاتمے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، اس دوران چیف سیکریٹری ممتاز شاہ، کمشنر کراچی افتخار شلوانی، سندھ حکومت کے نمائندے اور دیگر حکام پیش ہوئے۔
سماعت کے دوران حکومت سندھ کی جانب سے رپورٹ پیش کی گئی، جسے عدالت عظمیٰ نے مسترد کردیا، ساتھ ہی جسٹس گلزار احمد نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آپ کی یہ رپورٹ کسی کام کی نہیں ہے، اچھا ہوگا کہ آپ یہ رپورٹ ابھی واپس لے لیں، اگر اس رپورٹ پر ہم نے حکم دیا تو آپ کی پوری حکومت ہل جائے گی۔
مزید پڑھیں: کراچی: رہائشی گھروں کی تجارتی مقاصد میں تبدیلی پر پابندی
جسٹس گلزار احمد نے اے جی سندھ سے مکالمہ کیا کہ آپ ہمیں لوری مت سنائیں، آپ کو پتہ ہے لوری سنانے کا مطلب کیا، اس کا مطلب ہے لوری سنو اور سوجاؤ، ہم یہاں لوری سن کر سونے کے لیے نہیں بیٹھے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آپ کے پاس ممتاز علی شاہ جیسا اچھا چیف سیکریٹری ہے، پھر بھی آپ کچھ نہیں کر پا رہے، بیورکریٹ تو صرف اپنے لیے سوچتے ہیں عوام سے ان کو کیا، آئندہ سیشن میں آرکیٹیکچر کے ساتھ مشورہ کرکے جامع رپورٹ پیش کریں۔
دوران سماعت جسٹس گلزار نے کہا کہ یہ بتائیں کہ شہر اصل ماسٹر پلان کے تحت بحال ہوگا؟، ’یہ دیکھیں ڈی ایچ اے والوں نے ساحلی پٹی کے ساتھ کیا کیا ہے، ڈی ایچ اے والے کہاں تک اندر گھس گئے ہیں ان کا بس چلے تو پورے سمندر پر شہر بنالیں، ڈی ایچ اے والے سمندر میں تجاوزات (انکروچمنٹ) کرکے امریکا تک اپنا جھنڈا لگا دیں، ڈی ایچ اے والے سوچ رہے ہیں کہ بھارت میں کیسے گھسیں، وہ لاہور سے بھارت میں گھسنے کے لیے راستے نکالنے کا سوچ رہے ہوں گے‘۔
جسٹس گلزار احمد نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے استفسار کیا کہ بیرون ملک سے ٹاؤن منصوبہ ساز بلائیں اور مشورہ کریں، شہر ایسے ہوتے ہیں، جائیں انگریزوں سے ہی پوچھ لیں، میئر لندن صادق پاکستانی نژاد ہیں، انہی سے پوچھیں شہر کیسے بسائے جاتے ہیں۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ ملیر ندی پر قائم ہر قسم کی عمارتیں گرانا ہوں گی، جائیں لائنز ایریا گرائیں اور کثیرالمنزلہ عمارتیں بنا کر لوگوں کو بہتر سہولیات دیں، سب پیسہ بنانے میں لگے ہوئے ہیں، ہر کوئی امریکا، کینیڈا میں جائیداد بنانا چاہتا ہے، ایڈووکیٹ جنرل آپ اور سب جانتے ہیں یہاں ہو کیا رہا ہے، یہ بیوروکریٹس عوام کے پیسے پر پلتے ہیں مگر عوام کے لیے کچھ نہیں کرتے۔
عدالت نے پھر ایڈووکیٹ جنرل سے استفسار کیا کہ ہمیں تو شرم آرہی ہیں، شہر میں گیس، بجلی، پانی، سڑکیں سب بند ہے، آپ کیا کر رہے ہیں؟
جسٹس گلزار نے کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل شہر کی تباہی کا کوئی تو ذمہ دار ہے، قوم کے وژن کو اس طرح تباہ کرتے ہیں، سندھ حکومت 2 ہفتوں میں رپورٹ دے کہ شہر کا کرنا کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کا کراچی میں سیاحتی مقاصد کیلئے ٹرام چلانے کا حکم
عدالت عظمیٰ نے وزیر اعلیٰ سندھ کو کابینہ اجلاس بلانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ کابینہ اجلاس بلائیں جس میں تمام سیکریٹریز شرکت کریں۔
عدالت نے ہدایت کی کہ کابینہ اجلاس میں کراچی کو اصل ماسٹر پلان کے تحت بحال کرنے کا فیصلہ کیا جائے اور آئندہ 2 ہفتوں کے بعد پیش کی جانے والی جامع رپورٹ میں سندھ کابینہ کا فیصلہ بھی شامل ہو۔
دوران سماعت شہر سے تجاوزات اور پارکس کی اراضی کو واگزار کرانے کا معاملہ بھی زیر غور آیا۔
اس موقع پر عدالت نے حکم دیا کہ پرانی سبزی منڈی کی پوری زمین پر عوامی پارک بنائے جائیں اور یہاں کی زمین عوام کی سیر و تفریح کی سرگرمیاں شروع کی جائیں۔
سماعت کے دوران عدالت نے کراچی میونسپل کارپوریشن (کے ایم سی)، کنٹونمنٹ بورڈ کے حکام کی عدم موجودگی پر برہمی کا اظہار کیا۔
عدالت نے ایم ڈی واٹر بورڈ سے استفسار کیا کہ ٹریٹمنٹ پلانٹ ٹو کی زمین خالی ہوگئی یا نہیں، اس پر ایم ڈی واٹر بورڈ نے جواب دیا کہ آپ کے حکم کے مطابق یہ معاملہ کے ایم سی کے حوالے ہے، اس پر عدالت نے کہا کہ پھر ابھی تک یہ خالی کیوں نہیں ہوا۔
عدالت نے حکم دیا کہ ٹریٹمنٹ پلانٹ ٹو کی زمین پر قبضہ ختم کرایا جائے اور اس زمین پر عوامی پارک بنایا جائے۔
عسکری زمینوں پر تجارتی سرگرمیاں ختم کرنے کا حکم
عدالت عظمیٰ نے تمام عسکری زمینوں پر تجارتی سرگرمیاں ختم کرنے کا حکم بھی صادر کرتے ہوئے کہا کہ کیا نیوی، سول ایوی ایشن جیسے اداروں کا کام شادی ہال چلانا ہے؟ یہ شادی ہال اور سینما چلا رہے ہیں، ایئرپورٹ پر جہاں حملہ ہوا تھا وہاں شادی ہال چل رہا ہے، کوئی تو بولے اتنے لوگ کمرہ عدالت میں بیٹھے ہیں۔
جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ سی او ڈی کا کسی کو پتہ ہے؟ اس کا مطلب ہے اسلحہ ذخیرہ کرنے کی جگہ، خدا کا خوف کریں اس میں آپ شادی ہال چلا رہے ہیں۔
سماعت کے دوران عدالت نے ریمارکس دیے کہ ایک افسر کی خواہش پر اشتہار کے لیے سڑکوں پر دیواریں بنائی جارہی ہیں، ان دیواروں کے پیچھے پھر بڑی بڑی عمارتیں تعمیر کی جارہی ہیں، ان کا بس چلے تو سڑکوں پر عمارتیں کھڑی کردیں۔
مزید پڑھیں: تجاوزات کے خلاف آپریشن کا نشانہ صرف غریب ہی کیوں؟
عدالت عظمیٰ میں سماعت کے دوران جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ سنا ہے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) ہیڈ آفس کراچی سے اسلام آباد جارہا ہے؟ ہیڈ آفس اسلام آباد گیا تو جگہ کا کیا استعمال کریں گے؟
جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ یہ بتائیں پرانے ایئرپورٹ کی زمین کا کیا استعمال کیا؟ معلوم ہے دنیا بھر سے آنے والے کراچی کے بجائے اسلام آباد کیوں اترتے ہیں؟ اس پر ایڈووکیٹ جنرل نے جواب دیا کہ ایئر پورٹس کے باعث پروازیں اسلام آباد منتقل ہوگئیں۔
اس پر جسٹس گلزار نے ریمارکس دیے کہ یہ کہیں آپ نے کراچی میں ایسا کیا کیا جو لوگ یہاں آئیں، جو حال شہر کا کیا ہے لوگ یہاں کیسے آئیں گے۔
اس موقع پر عدالت نے چیئرمین پی آئی اے کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ چیئرمین پی آئی اے رپورٹ پیش کریں۔
سرکاری رہائش گاہوں پر قبضے کا انکشاف
علاوہ ازیں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ہاؤسنگ اور ورکس کے سامنے کراچی میں بڑی تعداد میں سرکاری رہائشگاہوں پر قبضے کا انکشاف ہوا ہے۔
سینیٹ کمیٹی کے اجلاس میں وزارت ہاؤسنگ کے حکام نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ کراچی میں ساڑھے 4 ہزار سرکاری رہائش گاہوں پر لوگوں کا غیر قانونی قبضہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کراچی میں غیر قانونی رہائش پذیر لوگوں سے متعلق وزیراعظم کو بھی بریفنگ دی ہے، ان گھروں کو خالی کروانے کی کوشش کی گئی تو امن و امان کا مسئلہ بن گیا، جس پر گورنر سندھ نے معاملے کے حل کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: چیف جسٹس نے 2 ماہ کیلئے پاکستان کوارٹرز خالی کروانے سے روک دیا
وزارت ہاؤسنگ کے حکام نے بتایا کہ کراچی میں گھر خالی کروانے کے لیے اس وقت بھی مشکلات درپیش ہیں، معاملے کو سیاسی طور پر بھی حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اس موقع پر کمیٹی کی جانب سے سفارش کی گئی کہ کراچی میں سرکاری گھروں پر قبضہ خالی کروانے
قائم کمیٹی کام جلد مکمل کرے، ساتھ ہی کمیٹی نے قبضہ خالی کروانے سے متعلق 3 ماہ میں رپورٹ طلب کرلی۔
تبصرے (1) بند ہیں