• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

بلاول، مراد علی شاہ کے نام 'ای سی ایل' سے نکال دیئے جائیں، سپریم کورٹ

شائع January 16, 2019 اپ ڈیٹ January 17, 2019
مرادعلی شاہ اور بلاول بھٹو کا نام ای سی ایل میں شامل کیا گیا تھا—فوٹو:مراد علی شاہ فیس بک
مرادعلی شاہ اور بلاول بھٹو کا نام ای سی ایل میں شامل کیا گیا تھا—فوٹو:مراد علی شاہ فیس بک

سپریم کورٹ نے جعلی بینک اکاوٹنس کیس کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا ہے جس میں واضح کیا گیا ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے فی الحال نکال دیا جائے۔

جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کا فیصلہ 25 صفحات پر مشتمل ہے جس کو جسٹس اعجازالاحسن نے تحریر کیا ہے جبکہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس فیصل عرب اور جسٹس اعجاالاحسن نے سماعت کی۔

سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ مراد علی شاہ کا نام ای سی ایل میں رکھنے سے اُن کے کام میں مسائل پیدا ہوں گے کیونکہ ان کی نقل و حرکت میں رکاوٹ پیدا ہوگی۔

جسٹس اعجازالاحسن نے تحریری فیصلے میں کہا ہے کہ بلاول بھٹو ذرداری اور مراد علی شاہ کا نام ای سی ایل سے نکالا جائے تاہم نیب کے بلاول بھٹو زرداری اور مراد علی شاہ کے خلاف تحقیقات میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی۔

مزید پڑھیں: حکومت نے ای سی ایل پر نام ڈالنے میں جلد بازی کی، شاہ محمود قریشی

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نیب مراد علی شاہ، بلاول بھٹو زرداری اور دیگر کے خلاف تحقیقات جاری رکھے اور دونوں کے خلاف شواہد آئیں تو نام ای سی ایل میں ڈالنے کے لیے وفاقی حکومت سے رجوع کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی۔

خیال رہے کہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پی پی پی رکن شازیہ مری کے سوال پر کہا تھا کہ سپریم کورٹ نے حکومت کو ای سی ایل سے فوری طور پر فہرست سے نام ہٹانے کا نہیں بلکہ ای سی ایل میں شامل ناموں پر نظر ثانی کا حکم دیا تھا۔

انہوں نے کہا تھا کہ ’حکومت نے ای سی ایل سے نام ہٹانے سے انکار نہیں کیا بلکہ صرف وقت مانگا ہے‘۔

شاہ محمود قریشی نے پی پی پی اراکین کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں مذکورہ معاملے پر بات کی گئی تھی جس میں حکومت نے تفصیلی فیصلہ آنے تک انتظار کرنے کا سوچا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:چیف جسٹس کا سیاستدانوں کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کے فیصلے پر نظرثانی کا حکم

سپریم کورٹ نے جعلی بینک اکاؤنٹس کی تفتیش کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے تمام اراکین کو ہدایت کی ہے کہ وہ نیب کو مزید تحقیقات میں معاونت کریں گے اورجے آئی ٹی نامکمل معاملات کی تحقیقات جاری رکھے گی اور اپنی تحقیقات مکمل کر کے نیب کو بھجوائے گی۔

عدالت عظمیٰ نے نیب کو جعلی بینک اکاؤنٹس کی مزید تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ نیب جے آئی ٹی رپورٹ کی روشنی میں اپنی تحقیقات مکمل کرے اور تحقیقات میں اگرکسی کے خلاف جرم بنتا ہو تو احتساب عدالت میں ریفرنس فائل کیے جائیں۔

اپنے احکامات میں سپریم کورٹ نے نیب کہا ہے کہ ریفرنس اسلام آباد کی احتساب عدالت میں فائل کیے جائیں جس کے لیے چیئرمین نیب مستند ڈی جی کو ریفرنس کی تیاری اور عدالت میں دائر کرنے کی ذمہ داری دیں۔

نیب کو مزید کہا گیا ہے کہ مستند اور تجربہ کار افسران پر مشتمل ٹیم ریفرنسز کی پروسکیوشن کے لیے تشکیل دی جائے

مزید پڑھیں:جعلی اکاؤنٹس کیس: ای سی ایل میں شامل 172 افراد کی فہرست جاری

جسٹس اعجازالاحسن نے فیصلے میں لکھا ہے کہ چیف جسٹس نیب رپورٹ کا جائزہ لینے کے لیے عمل درآمد بنچ تشکیل دی اور نیب اپنی پندہ روزہ تحقیقاتی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کرے گی جس کا جائزہ عمل درآمد بینچ لے گا۔

سپریم کورٹ نے اپنے تحریری فیصلے میں کہا ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق یہ معاملہ کرپشن اور منی لاڈرنگ کا ہےاور بادی النظر میں نیب کو بھجوایا جاسکتا ہے۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جے آئی ٹی کے مطابق یہ معاملہ کمیشن، سرکاری خزانے میں بے ضابطگیاں، اختیارات کے ناجائز استعمال کا ہے جبکہ فریقین کے وکلا عدالت کو متاثر کُن دلائل نہیں دے سکے اور چند وکلا نے تسلیم کیا کہ معاملہ نیب کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔

کیس کا پس منظر

خیال رہے کہ 2015 کے جعلی اکاؤنٹس اور فرضی لین دین کے مقدمے کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری، ان کی بہن فریال تالپور اور ان کے کاروباری شراکت داروں سے تحقیقات کی جارہی ہیں۔

یونائیٹڈ بینک لمیٹیڈ، سندھ بینک اور سمٹ بینک میں موجود ان 29 بے نامی اکاؤنٹس میں موجود رقم کی لاگت ابتدائی طور پر 35ارب روہے بتائی گئی تھی۔

اس سلسلے میں ایف آئی اے نے معروف بینکر حسین لوائی کو گرفتار کیا تھا، جس کے بعد ماہ اگست میں جعلی اکاؤنٹس کیس میں ہی اومنی گروپ کے چیئرمین انور مجید اور ان کے بیٹے عبدالغنی مجید کو بھی گرفتار کر لیا گیا تھا۔

7 ستمبر کو سپریم کورٹ نے سابق صدر مملکت اور ان کی بہن بہن کی جانب سے مبینہ طور پر جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کیے جانے کے مقدمے کی تحقیقات کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دے دی تھی۔

مزید پڑھیں: جعلی اکاؤنٹس کیس: سرکاری اداروں کو ناکارہ بنا کر کوڑیوں کے دام خریدا گیا، جے آئی ٹی رپورٹ

اس جے آئی ٹی نے سابق صدر آصف علی زرداری، ان کی بہت فریال تالپور سے پوچھ گچھ کی تھی جبکہ چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو سے بھی معلومات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

آصف علی زرداری نے جے آئی ٹی کو بتایا تھا کہ 2008 سے وہ کسی کاروباری سرگرمی میں ملوث نہیں رہے اور صدر مملکت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد انہوں نے خود کو تمام کاروبار اور تجارتی سرگرمیوں سے الگ کرلیا تھا۔

علاوہ ازیں 3 رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے اڈیالہ جیل میں حسین لوائی اور عبدالغنی مجید سے سے ڈیڑھ گھنٹے سے زائد تفتیش کی تھی۔

جعلی بنک اکاؤنٹس ایف آئی اے رپورٹ

قبل ازیں عدالت میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے جعلی بینک اکاؤنٹ کیس سے متعلق رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ اومنی گروپ نے قرض کے لیے 75 لاکھ 25 ہزار 5 سو 36 چینی کی بوریوں کی گارنٹی دی تھی، تاہم تحقیقات کے دوران معلوم ہوا کہ شوگر ملوں میں صرف 8 لاکھ 35 ہزار 8 سو 89 بوریاں موجود ہیں جبکہ 66 لاکھ 92 ہزار 9 سو 46 بوریاں غائب ہیں، ان بوریوں کے غائب ہونے کی وجہ سے بینکوں کی ساڑھے 11ارب روپے کی گارنٹی کا نقصان ہوا۔

مزید پڑھیں : جعلی اکاؤنٹس کیس: ’334 افراد، 210 کمپنیاں مشکوک ٹرانزیکشنز میں ملوث‘

رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس حوالے سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)، اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی)، سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی)، متعلقہ بینکوں اور اومنی گروپ سے بھی ریکارڈ حاصل کیا جارہا ہے۔

عدالت میں پیش کردہ رپورٹ کے مطابق بینکوں اور اومنی گروپ کی انتظامیہ سمیت شوگر ایجنٹس کے بیان ریکارڈ کیے جائیں گے جبکہ مذکورہ معاملے سے متعلق مزید ریکارڈ کا جائزہ لے کر پیش رفت رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے گی۔

خیال رہے کہ 21 دسمبر کو بینکنگ کورٹ نے جعلی اکاؤنٹس کیس میں سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور کی ضمانت میں 7 جنوری 2019 تک توسیع کردی تھی۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024