برف باری فطرت کا حسن بھی ہے اور امتحان بھی
پاکستان دنیا کے ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں نہ صرف چاروں موسم پائے جاتے ہیں بلکہ جو میدانی، ریگستانی، پہاڑی اور ساحلی علاقوں سے بھی فیض یاب ہیں۔ ہر جگہ کے اپنے نظارے اور اپنی خوبصورتی ہے، سیاح موسموں کے اعتبار سے سیاحت کی غرض سے کبھی میدانی تو کبھی پہاڑی علاقوں، صحراؤں یا پھر کبھی ساحلوں کا رخ کرتے ہیں۔
آج کل سردیوں کا موسم ہے اور پہاڑوں پر برف باری کا سلسلہ جاری ہے، سو سیاح سفید برف پوش پہاڑ دیکھنے کے لیے شمالی علاقاجات کا رخ کر رہے ہیں۔ پھر ان خوبصورت اور دل موہ لینے والے مناظر کو نہ صرف اپنے کیمروں میں قید کرتے ہیں بلکہ سیکنڈز میں اپنی تصاویر سوشل میڈیا کے ذریعے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں پھیلادیتے ہیں اور یہی تصاویر اور ویڈیوز ملک میں سیاحت کو فروغ دینے میں اہم کردار بھی ادا کرتی ہے۔
برف زدہ سیاحتی مقامات کا وہ چہرہ جو آپ سے اوجھل رہتا ہے
ویسے تو پاکستان میں سیاحتی مقامات ریگستانوں، میدانی علاقوں اور ساحلی علاقوں میں بھی واقع ہیں لیکن یہاں ہمارا موضوع وہ پہاڑی علاقاجات ہیں جو سطح سمندر سے ہزاروں فٹ کی بلندی پر واقع ہیں۔
چاہے موسمِ خزاں ہو یا موسمِ بہار، سردیاں ہوں یا پھر گرمیاں، یہ مقامات ہر موسم میں ملکی و غیر ملکی سیاحوں کے لیے پُرکشش رہے ہیں۔
اکثر سیاح یہ سوچتے ہیں کہ ان مقامات کے باشندے بہت خوش قسمت ہیں جو شہری مسائل سے بے نیاز ہوکر پُرسکون زندگی گزار رہے ہیں۔ سیاحوں کا چند دنوں پر محیط یہ قیام کسی گیسٹ ہاؤس یا ہوٹل میں ہوتا ہے، جہاں انہیں زندگی کی تقریباً تمام بنیادی سہولیات کثیر رقم کے عوض حاصل ہوتی ہے۔
تاہم انہیں ان دشواریوں اور اَن گنت مسائل کا علم ہی نہیں ہوتا جن کا سامنا یہاں کے مقامی افراد کو ہر روز کرنا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاح یہ قیاس کرلیتے ہیں کہ یہ لوگ قدرت کے قریب رہ کر انتہائی پُرسکون اور آرام دہ زندگی گزارتے ہیں حالانکہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔ پاکستان کے بیشتر سیاحتی مقامات زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں جس کی وجہ سے ان لوگوں کے لیے زندگی گزارنا بالکل بھی آسان نہیں ہوتا۔ یہاں قدرت خوبصورت تو ہے لیکن امتحان بھی لیتی ہے۔
پہاڑی علاقوں کی مشکلات اور مسائل
ان پہاڑی علاقوں میں مشکلات اور مسائل 2 اقسام کے ہیں، ان میں سے ایک کا تعلق ان علاقوں کے موسم اور جغرافیہ سے ہے۔ موسم کی سختیوں کی وجہ سے معمولاتِ زندگی کافی متاثر ہوتی ہیں۔ یہ مسائل ایسے ہیں جن کا مکمل خاتمہ تو نہیں کیا جاسکتا البتہ حکومتی اقدامات کے سبب ان مشکلات کو بڑی حد تک کم ضرور کیا جاسکتا ہے۔
جبکہ مشکلات اور مسائل کی دوسری قسم کا تعلق حکومتی یا انتظامی عدم توجہی سے ہے۔ یہاں ہسپتالوں، سڑکوں، تعلیمی اداروں اور موبائل جیسی سہولیات اکثر و بیشتر دستیاب ہی نہیں ہوتیں۔
ان سیاحتی مقامات کی خوبصورتی اور دل موہ لینے والے مناظر پر تو بہت کچھ لکھا گیا ہے لیکن یہاں بسنے والے باشندوں اور ان کو درپیش مسائل کبھی اس طرح اجاگر ہی نہیں کیے گئے۔
یہاں ہم نے ملک کے سرد سیاحتی علاقوں کی بحیثیت مجموعی بات کی ہے، لیکن چونکہ میرا اپنا تعلق مالاکنڈ ڈویژن کے ضلع بونیر سے ہے تو میں کوشش کروں گا کہ وہاں کا ذکر خصوصی طور پر کروں جہاں موسم سرما کی پہلی برف باری کا آغاز ہوچکا ہے۔
برف باری سے لطف اندوز ہونے کے لیے ضلع بونیر کے میدانی علاقوں سمیت قریبی اضلاع کے لوگ ان پُرفضا اور برف پوش پہاڑوں کا نظارہ کرنے کے لیے وادئ چغرزئی کے مختلف سیاحتی مقامات کا رخ کرتے ہیں لیکن اس بار ان سیاحوں کی تعداد کم ہے، جس کی ایک سب سے بڑی وجہ بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی ہے، چلیے ہم آپ کو وادئ چغرزئی کے حوالے سے مختصر معلومات فراہم کرتے ہیں۔
ضلع بونیر کی وادی چغرزئی
وادی چغرزئی مجوعی طور پر 6 یونین کونسلز پر مشتمل ہے جس میں 4 یونین کونسل بونیر اور 2 یونین کونسل بہلول خیل اور نصرت خیل ضلع شانگلہ میں آتی ہیں۔ یہاں کے بلند وبالا پہاڑ، شفاف چشمے، ندیاں اور مقامی لوگوں کی مہمان نوازی، قرب و جوار کے علاقوں کے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچ لاتے ہیں۔
وادی چغرزئی کے بلند وبالا پہاڑ اور جنگلات نے ملک کے دیگر سرد علاقوں کی طرح چاندی کی چادر اوڑھی ہوئی ہے۔ برف سے ڈھکے درختوں سے جب برف پگھلنا شروع ہوتی ہے تب ہلکے سبز رنگ کے پتے اور ان پر پڑنے والی سورج کی کرنوں سے جو منظر وجود میں آتا ہے وہ واقعی دیدنی ہوتا ہے۔
وادی چغرزئی کی تمام 6 یونین کونسلز بلند وبالا پہاڑوں پر مشتمل ہیں، لیکن بدقستمی سے اس جدید دور میں بھی وادی چغرزئی کے بیشتر علاقوں میں سڑکیں نہ ہونے کی وجہ سے ایک سے دوسری جگہ تک رسائی کافی کٹھن بنی ہوئی ہے۔
2 مقامات ایسے ہیں جہاں سڑک کی سہولت میسر ہونے کی وجہ سے سیاح بڑی تعداد میں آتے ہیں، ان میں سے ایک برتیراج سے ہندوانوں کنڈو تک کا مقام ہے جو سورے یونین کونسل میں آتا ہے۔ اس کے علاوہ یونین کونسل پاندیڑ میں شانگڑا کانڈو تک بھی سڑک موجود ہے، تاہم اسی یونین کونسل میں کئی دیگر ایسی جگہیں موجود ہیں جہاں تک سیاحوں کے لیے سڑک کی سہولت فراہم کرکے انہیں سیاحتی مقامات میں بدلا جا سکتا ہے۔
یونین کونسل بٹاڑہ اور یونین کونسل گلبانڈی کے وہ سیاحتی مقامات جہاں برف باری ہوتی ہے سڑک جیسی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ اسی طرح چغرزئ کے ضلع شانگلہ کی 2 یونین کونسلز، بہلول خیل اور نصرت خیل بھی کئی مسائل سے دوچار ہیں۔ سیاحت کے فروغ کے لیے جو بنیادی سہولیات درکار ہوتی ہیں وادئ چغرزئی تاحال ان سہولیات سے محروم ہے۔
برف باری میں عوام کی مشکلات
جن جن علاقوں میں برف باری ہوتی وہاں کے لوگ کن مسائل اور مشکلات کا سامنا کرتے ہیں، آئیے تفصیل سے آپ کو بتاتے ہیں۔
کچے مکانات سے برف ہٹانا
سیاح جب کسی سیاحتی مقام پر ہوں اور اس دوران برف باری شروع ہوجائے تو سیاحوں کی خوشیاں دوبالا ہوجاتی ہیں، انہیں ایسا محسوس ہوتا جیسے ان کے پیسے وصول ہوگئے۔
سیاح تو برف باری سے خوب لطف اندوز ہوتے ہیں، مگر دوسری طرف ان پہاڑی علاقوں کے کچے مکانات میں مقیم افراد اس یخ بستہ موسم میں باہر نکل کر گھروں کی چھتوں سے برف ہٹانے میں مصروف ہوجاتے ہیں، کیونکہ کچے مکانات برف کا بھاری وزن برداشت نہیں کرپاتے۔ دن تو دن اگر برف باری رات کے وقت بھی شروع ہوجائے، تب بھی تمام تر سردی کے باوجود ساری ساری رات کو ہٹانا مجبوری بن جاتا ہے۔
البتہ جن گھروں کی چھتیں اسٹیل کی چادروں سے بنی ہوتی ہیں وہاں برف ہٹانے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ برف خود ہی وہاں سے گر جاتی ہے۔ تحریکِ انصاف نے ملک میں 50 لاکھ مکانات بنانے کا اعلان کر رکھا ہے، اگر حکومت ان علاقوں کا ایک کوٹہ بھی مقرر کرلے جس کے تحت لوگوں کو ان علاقوں میں گھر کی تعمیر کے لیے بلاسود اور آسان اقساط پر قرضے فراہم کردیے جائیں تو یوں نہ صرف 50 لاکھ گھروں کی تعمیر کا وعدہ پورا ہونے میں کچھ آسانی ہوگی بلکہ دوسری طرف مقامی افراد بھی شدید سرد موسم میں کچے مکانات سے برف ہٹانے کی مشکل سے آزاد ہوجائیں گے۔
سڑکوں کی بندش
برف باری کے دوران سڑکیں بند ہوجانے سے بھی مقامی افراد کو کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس دوران اگر کسی قسم کی ایمرجنسی کی صورتحال کا سامنا ہو تو یہ تکلیف دُگنی ہوجاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ کسی ایمرجنسی کی صورت میں ہسپتال جانا مقصود ہو تو مریض کو چارپائی میں 15 سے 20 لوگ کندھوں پر اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ بعض دفعہ بروقت طبی مدد نہ ہوپانے کی وجہ سے مریض ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ دیتا ہے۔
لہٰذا یہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے کہ حکومت ان علاقوں کی رابطہ سڑکیں بحال رکھنے کے لیے پہلے سے بلڈوزر کی فراہمی کو یقینی بنائے۔ اس کے علاوہ ان علاقوں میں موبائل ہسپتالوں کی سہولت بھی فراہم کرے تاکہ کم از کم وہاں کے مریضوں کو فرسٹ ایڈ جیسی بنیادی طبی امداد کی سہولت تو میسر ہو۔ ان موبائل ہسپتالوں میں سردی سے ہونے والی بیماریوں سے بچاؤ کی ادویات بھی دستیاب ہونی چاہئیں۔ اس طرح کے اقدامات سے نہ صرف مقامی عوام کی مشکلات کم ہوسکیں گی بلکہ یہاں آنے والے سیاحوں کا بھی اعتماد بڑھے گا اور سیاحت کو فروغ ملے گا۔
لکڑی بطور ایندھن
ان علاقوں میں جہاں کھانا پکانے کے لیے لکڑی درکار ہوتی ہے وہیں سردی سے بچاؤ کے لیے جلائی جانے والی آگ کا ایندھن بھی جنگل کی قیمتی لکڑیاں بنتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان علاقوں میں جنگلات کافی زیادہ متاثر ہورہے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ان علاقوں میں سردی کے موسم میں بجلی کی بلاتعطل فراہمی یقینی بنائے اور موسم سرما میں بجلی کے بل پر سبسڈی دے تاکہ لوگ بجلی کے ہیٹرز استعمال کرسکیں اور لکڑی پر انحصار کم سے کم ہو۔ ان علاقوں کے عوام کو اگر سبسڈی پر گیس سلینڈرز بھی فراہم کیے جائیں تو بھی یہ ملکی مفاد میں بہتر ہوگا کیونکہ یوں ایندھن کے لیے جنگلات کاٹے جانے سے محفوظ ہوجائیں گے۔
جانوروں کے لیے چارہ
پہاڑی علاقوں میں لوگ دودھ، دہی اور مکھن کی روزانہ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مویشی جانور پالے جاتے ہیں۔ ان جانوروں کے لیے بطور چارہ استعمال کی جانے والی گھاس گرمیوں کے موسم میں کاٹی جاتی ہے اور اسے محفوظ کرکے سردیوں کے موسم میں جانوروں کو کھلایا جاتا ہے، لیکن ان تمام تر اقدامات کے باوجود سردیوں میں مویشیوں کی دیکھ بھال کرنا واقعی ایک مشکل کام ہوتا ہے جس سے دیگر علاقوں سے آئے سیاح بے خبر ہوتے ہیں۔
موبائل سروسز
ان سیاحتی علاقوں میں سے کچھ علاقے ایسے بھی ہیں جہاں موبائل سروسز موجود نہیں، اس کام کے لیے کسی قسم کی حکومتی سرمایہ کاری کی ضرورت نہیں ہے بلکہ یہ کام نجی موبائل نیٹ ورک کمپنیوں سے باآسانی کروایا جاسکتا ہے، لیکن یہ کام کروانے کے لیے حکومت کو خاص توجہ دینی چاہیے۔
آلودگی اور گندگی
اکثر لوگ سوچتے ہیں کہ آلودگی اور گندگی صرف شہروں کا مسئلہ ہے، لیکن ایسا نہیں اب تو یہ سیاحتی مقامات کا بھی مسئلہ بھی بن گیا ہے۔ بیشتر سیاحتی مقامات پر کچرے پھینکے کے لیے کوڑے دان وغیرہ موجود ہی نہیں ہوتے جس کی وجہ سے ان مقامات پر کوڑا کرکٹ جابجا بکھرا نظر آتا ہے۔ اس کے علاوہ ان مقامات پر پبلک ٹوائلٹس کی سہولت موجود نہیں، جبکہ مقامی گھروں سے نکلنے والا سیوریج کا پانی صاف و شفاف ندیوں میں شامل ہوکر انہیں مسلسل آلودہ کر رہا ہے۔ پہلے جہاں بے شمار مچھلیاں ہوا کرتی تھیں، اب پتھر کے سوا وہاں کچھ نہیں۔
پانی
سردیوں کے دوران درجہ حرارت منفی ہونے کی وجہ سے پانی فراہم کرنے والی پائپ لائن جم جاتی ہیں جس کے سبب پانی کی فراہمی بہت زیادہ متاثر ہوتی ہے اور پھر لوگوں کو سخت سردی میں گھروں سے دُور جاکر پانی لانا پڑتا ہے۔
بلاشبہ چغرزئی سمیت ملک کا ہر ایک سیاحتی مقام ہمارے ملک کا اثاثہ ہے، ان کی حفاظت ہم سب کی ذمہ داری ہے، اگر ہم چاہتے ہیں کہ ان سیاحتی مقامات میں رونقیں قائم رہیں تو ہمیں وہاں کے مقامی افراد کو درپیش مسائل اور مشکلات کے بارے میں بھی سوچنا ہوگا۔
اگر ان مسائل کو ہم میں سے ہر ایک اجاگر کرے تو مجھے یقین ہے کہ اربابِ اختیار پر ان مسائل کو حل کرنے کے لیے دباؤ بڑھے گا اور مسائل حل ہونے کی صورت میں اس کا فائدہ مقامی افراد کے ساتھ ساتھ سیاحوں کو بھی ہوگا۔
امیر محمد خان پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں، جبکہ آپ سماجی و سیاسی امور میں خاص دلچسپی بھی رکھتے ہیں۔ آپ انہیں ٹوئٹر پر بھی فالو کرسکتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (10) بند ہیں