کراچی کی سکھ برادری کہاں ہے؟
ہر شہر اپنے باسیوں اور ان سے منسلک رونقوں سے پہچانا جاتا ہے۔ شہرِ کراچی کی یہ رونق لیاری کے مختلف لہجوں سے ہوتی ہوئی، بنارس کی گلیوں تک چلی جاتی ہے۔ اس کے منفرد رنگ پرانی عمارتوں، ایرانی ہوٹلوں، بوڑھے پارسیوں اور صدر میں خریداری کرتی کسی نن یا بوڑھی عیسائی خاتون کے چہرے کے پیچھے بھی ہیں۔
ساتھ ہی کراچی کی ایک پہچان اس کے چرچ، مساجد اور مندر بھی ہیں لیکن کیا آپ نے کبھی کراچی میں سکھوں کا گردوارہ دیکھا؟ یا آپ کا سامنا کسی سکھ سے ہوا؟
اگرچہ بچپن سے بسوں میں سفر کرتے ہوئے بس کنڈکٹر کو ’گرومند‘، ’گرومند‘ کی صدائیں لگاتے تو سنا، مگر کم از کم ہمیں نہ ہی دورانِ تعلیم اور نہ ہی اتنے برس کی ملازمت کے دوران ’کڑا اور کیس‘ والا کوئی سکھ ملا اور نہ ہی کوئی ایسی خاتون جن کے ساتھ ’کور‘ لگا ہوا ہو۔ یہی وہ وجہ ہے کہ مجھے گمان ہوا کہ شاید اس شہر میں سکھ برادری اب رہتی ہی نہیں۔
آج سکھ مذہب کو دنیا کے پانچویں بڑے مذہب کا درجہ حاصل ہے۔ دنیا بھر میں سکھ آبادی تقریباً 3 کروڑ کو پہنچنے والی ہے، مگر پاکستان میں ان کی تعداد محض چند ہزار ہے اور اس کا بھی ایک چھوٹا سا حصہ ہی کراچی میں مقیم ہے۔
جب کراچی کے سکھوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنا شروع کیں تو اپنی کم علمی کا اندازہ ہوا۔ ہمیں مندروں، گرجا گھروں اور یہاں تک کہ یہودی مسجد یعنی سینی گاگ کا بھی علم تھا لیکن کراچی میں سکھ برادری اور گردوارے کا ذکر نہیں سنا تھا۔ ہم نہیں جانتے تھے کہ تقسیم کے وقت سندھی ہندوؤں کی طرح سندھی سکھ بھی کراچی کا حصہ تھے۔
ایک تازہ حوالہ، دیپیکا پڈوکون اور رنویر سنگھ کی سندھی اسٹائل میں شادی ہے۔ رنویر سنگھ کے خاندان کا تعلق بھی سندھی سکھ کمیونٹی سے ہے اور قیامِ پاکستان کے وقت ان کے دادا کراچی سے ممبئی منتقل ہوئے تھے۔
دوسرا حوالہ، دہلی یونیورسٹی کے شعبے 'ساؤتھ ایشین اسٹڈیز' کے ایک آرٹیکل سے ملتا ہے، جس کا عنوان 'انڈیا میں غائب ہوتے سندھی سکھ' ہے اور مصنفین 'ریتو سنگھ اور جسبیر کور' کا تعلق نقل مکانی کرنے والے سندھی ہندو اور سکھ برادری سے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس وقت بھارت میں کم از کم 18 سے 20 ہزار سندھی سکھ موجود ہیں۔
کسی سکھ کے ساتھ سفر کرنے کا پہلا تجربہ ہمیں لاہور سے دہلی کے سفر کے دوران ہوا۔ یہ نومبر کا مہینہ تھا اور سکھ یاتری برطانیہ سے ننکانہ صاحب پر ماتھا ٹیکتے ہوئے بھارت جارہے تھے۔ دہلی میں داخل ہوتے ہی مجھے یہ شہر سکھوں کا شہر لگا، یہاں تک کہ ہم پرانی دلی پہنچ گئے۔
لیکن مجھے کبھی امید نہیں تھی کہ کراچی میں برنس روڈ کی خاک چھانتے ہوئے ایک دن میرے سامنے گردوارہ آجائے گا۔ گردوارے کی موجودگی کا مطلب یہ تھا کہ یہاں عبادت کے لیے سکھ بھی آتے ہوں گے۔
مزید معلومات کے لیے میں نے گردوارے کا رخ کیا۔ جب گردوارے میں داخل ہوئے تو پتہ چلا کہ یہ کراچی کے قدیم گردواروں میں سے ایک ہے اور اس کے چئیرمین ہیرا سنگھ صاحب ہیں۔ اتفاق سے ہیرا سنگھ اس وقت گروارے میں ہی موجود تھے، لہٰذا موقع کا پورا فائدہ اٹھایا اور ان سے کچھ بات چیت بھی کرلی۔
ہیرا سنگھ نے بتایا کہ 'گردوارہ صاحب'، آرام باغ 25 سال بعد سکھ گردوارے کی حیثیت سے بحال ہوگیا ہے۔ ہندو اور سکھ کمیونٹی میں تنازع اور مقدمے کے سبب یہ گردوارہ 1993ء سے 2016ء تک عبادت کے لیے بند رہا۔
متحدہ ہندوستان میں ہونے والی آخری مردم شماری سن 41ء میں ہوئی تھی، جس کے مطابق سندھ میں 32 ہزار سکھ بستے تھے۔ کراچی میں تو ان کی درست تعداد سے متعلق کوئی حوالہ نہیں مل سکا لیکن قیامِ پاکستان کے وقت شہرِ کراچی میں 6 گردوارے موجود تھے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا کہ کراچی میں کم تعداد میں سہی لیکن سکھ آبادی موجود تھی۔
آج کراچی میں 3 قدیم اور ایک نیا تعمیر شدہ گردوارہ کام کررہا ہے، جن کے نام، ’گردوارہ سنگ سنگت رنچھوڑ لائن‘، ’گردوارہ منوڑا‘، ’گردوارہ آرام باغ‘ اور ’گردوارہ گلشن معمار‘ ہیں جبکہ سوامی نارائن مندر کے احاطے میں بھی ایک حصہ گرونانک گردوارے کے لیے مختص ہے۔
یاد رہے سکھوں کے ایک اہم قدیم گردوارے ’رتن تلاؤ‘ کو تاحال بحال نہیں کیا جاسکا جس کے احاطے میں نبی باغ ہائیر سکینڈری اسکول اور مسجد قائم ہیں۔
گردوارے آرام باغ کی بات کریں تو یہ آرام باغ کی ایک بغلی سڑک ’روپ چند بیلا رام‘ پر 1930ء میں تعمیر ہوا۔ روپ چند پیلا رام 1920ء میں سندھ کے ایڈیشنل جوڈیشنل کمشنر تھے اور گردوارے کے پہلے ٹرسٹی سادھو سنگھ تھے۔
سفید رنگ اور ہلکے نارنگی رنگ و روغن سے آراستہ گردوارے آرام باغ میں داخل ہوتے ہی پرانے وقتوں کے کئی آثار نظر آتے ہیں جیسے دیواروں پر ’وائے گرو‘ اور ’وائے گرو جی کا خالصہ، وائے گرو جی کی فتح‘ لکھے نظر آئِیں گے۔ آگے بڑھیں تو گردوارے کے صحن کی دیوار پر اور بالکنی پر گرمکھی میں کندہ ہے ’وائے گرو‘ اور اندرونی ہال میں انگریزی زبان میں درج ہے ’سری گرو‘۔
ہمیں سن تعمیر کی تختی تو کہیں نظر نہیں آئی لیکن گردوارے کی تعمیر میں حصہ لینے والوں کے نام مرکزی ہال کے داخلی دروازے کے فرش پر نظر آئے، جس کی زبان سندھی ہے۔ ایک تحریر دیکھی جس پر کندہ ہے کہ ’سرگواسن تلسی بائی، سرگواسی چیلداس ھرسمائل کیمانی کندیارو‘۔ یہ ہی انداز گردوارے کے دھرم شالے کے لیے بنائے گئے رہائشی کمروں کے اوپر بھی نظر آتا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں آنے والے سکھ نانک پتھنی تھے اور شہر پر سندھی ثقافت پوری طرح چھائی ہوئی تھِی۔
ہم جب مرکزی حال میں داخل ہوئے تو درمیان میں گرنتھ صاحب کا پاٹ چل رہا تھا۔ دسمبر کا آخر تھا اور سکھ کیلینڈر کے مطابق دسمبر کی آخری 2 اتواروں میں ’چمکور صاحب‘ کی لڑائی میں مرنے والوں کو یاد کیا جاتا ہے۔
مغلوں اور سکھوں کی آپس کے کئی سیاسی چپقلش اور اختلافات مشہور ہیں۔ کئی دفعہ یہ سیاسی اختلاف بڑھ کر کئی ’گروؤں‘ کی موت کا باعث بنے۔ بہت سے مورخین اس کو مغلوں کی مذہبی انتہا پسندی شمار کرتے ہیں جبکہ یہ مذہبی اختلاف سے زیادہ سیاسی گٹھ جوڑ کی کہانیاں ہیں۔
جنگ چمکور، اورنگ زیب عالمگیر کے زمانے میں سن 1704ء میں لڑی گئی، جس میں سکھوں کی جانب سے 10ویں گرو، گرو گوبند سنگھ اور مغلوں کی طرف سے وزیر خان نے حصہ لیا تھا۔ اس جنگ میں مغلوں کو کامیابی ملی اور گرو گوبند سنگھ فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے لیکن اس لڑائی میں ان کے 2 بیٹے مارے گئے جن کی یاد میں دسمبر کے آخری اتوار کو گرنتھ صاحب کا پاٹ کرایا جاتا ہے۔
لہٰذا 30 دسمبر کی رات سکھ برادری گردواے آرام باغ میں ’چمکور صاحب‘ کی لڑائی میں مارے جانے والوں کو یاد کرنے کے لیے ہال میں جمع ہو رہی تھی۔ سر پر نارنگی رنگ کا صافہ پہنے مرد، عورتیں اور بچے ہال میں داخل ہوکر پہلے گرنتھ صاحب کے آگے سجدہ کرتے اور ساتھ ہی ہدیے کے ڈبے میں کچھ دان دیتے ہوئے اپنی اپنی جگہ جاکر بیٹھ جاتے۔ دیگر گردواروں کی طرح یہاں بھی گرنتھ صاحب کی آواز گونج رہی تھی۔
ہال میں بیٹھے اکثر سکھ اپنے عمومی حلیے میں نظر نہیں آرہے تھے، لیکن ایسا کیوں؟ کیا اس کی وجہ کوئی امتیازی سلوک ہے؟ جواب کے لیے ہم نے ایک نوجوان سکھ سے بات کی جن کا تعلق لاڑکانہ سے ہے اور پیشے کے لحاظ سے انجینیر ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ نہیں، اس کی وجہ کوئی امتیازی سلوک نہیں بلکہ یہ بالکل ایسا ہی جیسے بہت سے مسلمان ڈاڑھی نہیں رکھتے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ وہ ابھی گرو گرنتھ صاحب کی تعلیم حاصل کررہے ہیں جب ان کی تعلیم مکمل ہوجائے گی تو ان کے نام کے ساتھ سردار کا اضافہ ہوجائے گا اور پھر ان پر سکھوں کے 5 لازمی امور کی پابندی کرنا لازم ہوجائے گا۔ بالکل ایسا ہی خواتین کے ساتھ ہوتا ہے اور ان کے نام کے ساتھ کور جُڑ جاتا ہے، جو ایک اعزاز کی بات ہے۔
اس نوجوان سکھ نے مزید بتایا کہ ابھی بھی جب وہ گرنتھ صاحب کی مسند پر بیٹھتے ہیں تو ان لازمی 5 امور کی پابندی کرتے ہیں جو ہمارے 10ویں گرو، گرو گوبند سنگھ کا فرمان ہے۔
- کیس یعنی ہم بال نہیں ترشواتے اور ان کو دستار یا پگڑی میں باندھ کر رکھتے ہیں۔
- لکڑی کا کنگھا کیونکہ دن میں 2 مرتبہ بالوں میں کنگھا کرنا ضروری ہے،
- اسٹیل کا کڑا،
- کچھا باندھنا اور
- کرپان یعنی چھوٹی تلوار کو ساتھ رکھنا۔
گردوارے آرام باغ کے چیئرمین سردار ہیرا سنگھ کے مطابق اس وقت کراچی میں 5 ہزار سکھ آباد ہیں۔ اپنی برادری کے مسائل پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہماری کمیونٹی چھوٹی ہے شاید یہی وجہ ہے کہ ہماری طرف کسی کی توجہ نہیں ہے۔ حکومت اس قابل نہیں ہے کہ ہمارے مسائل حل کرے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ ہمیں مکمل طور پر مذہبی آزادی حاصل ہے لیکن حکومت میں ہماری نمائندگی نہیں ہے۔
ہماری کمیونٹی میں بھی پڑھے لکھے لوگ ہیں لیکن انہیں آگے نہیں لایا جاتا۔ ہمیں اوقاف سے فنڈ نہیں ملتا کیونکہ ہمارا کوئی سیاسی کردار نہیں ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ پنجاب حکومت نے سکھ شادی بل منظور کرلیا ہے اور مجھے امید ہے کہ یہ بل قومی اسمبلی سے بھی منظور ہوکر پورے پاکستان میں نافذ ہوجائے گا۔
خوش آئند بات یہ ہے کہ کراچی کے جتنے رنگ ہیں وہ سب ہی دلچسپ اور گہرے ہیں۔ مختلف مذاہب اور پورے پاکستان سے آئے ہوئے پاکستانی مل کر اس کے چہرے کو تازگی اور روشنی بخش رہے ہیں۔
سکھوں کے 10 گرو ہیں۔ پہلے گرو، ’بابا نانک صاحب‘ اور آخری گرو ’گوبند سنگھ‘۔ اب سکھوں کی مقدس کتاب ’گرو گرنتھ صاحب‘ کو سکھوں کے ’گرو‘ کا مقام حاصل ہے۔ سکھ اپنی کتاب گرنتھ صاحب کے آگے ماتھا ٹیکتے ہیں۔
گرنتھ صاحب کی ابتدا تو گرو نانک صاحب کے شاعرانہ کلام سے ہوتی ہے اور موجودہ شکل اس کو آخری گرو ’گرو گوبند سنگھ‘ نے دی۔ اس میں زبان سادہ اور مقامی ہے، مگر پنجابی اور ہندی کے الفاظ بھی شامل ہیں، جبکہ رسم الخت دیوناگری ہے۔ جس کو ’گرمکھی‘ کا نام دیا گیا ہے اور معاشروں پر مذہب کا گہرا اثر ہوتا ہی ہے۔
اب بھارتی پنجاب میں بولی جانے والی پنجابی زبان کو گر مکھی ہی کہا جاتا ہے۔
آخر میں گر مکھی کے حوالے سے ایک بڑے مزے کے واقعے کا ذکر جو ’انڈین سوشل فورم دہلی‘ میں پاکستانی سکھ کے ساتھ پیش آیا۔
وہاں بہت سے اسٹال لگے ہوئے تھے اور آنے جانے والوں کو انگریزی، ہندی اور دیگر مقامی زبانوں کے ساتھ گرمکھی زبان میں بھی پمفلٹ اور کتابچے فراہم کیے جارہے تھے جس پر پروگرام کی تفصیلات اور اپنے اپنے اداروں کے حوالے سے معلومات درج تھیں۔
پاکستانی سکھوں کو انہوں نے مقامی سمجھ کر گر مکھی میں کتابچے دینا شروع کردیے۔ اب پاکستانی سکھ پریشان ہوئے کہ اسے لیں یا نہ لیں؟ آخر کار ان کو کہنا ہی پڑا کہ وہ ہندی اور گرمکھی نہیں پڑھ سکتے کیونکہ وہ پاکستانی سکھ ہیں۔
شیما صدیقی15 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں، انسانی حقوق، خواتین کے مسائل اور کراچی کی قدیم عمارتوں پر لکھتی رہتی ہیں، جیو ٹی وی میں زیرِ ملازمت ہیں اور کراچی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی بھی کررہی ہیں۔
تبصرے (15) بند ہیں